History of Bani Israel || who is Bani Israel || Difference between Bani Israel and Israel - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Tuesday, April 30, 2024

History of Bani Israel || who is Bani Israel || Difference between Bani Israel and Israel

History of Bani Israel || who is Bani Israel || Difference between Bani Israel and Israel

who is Bani Israel || History of Bani Israel


" سامری جادوگر"

 سامری جادوگر نے سونے کا بچھڑا بنا کر بنی اسرائیل  سےکہا کہ یہی تمہارا خدا ہے اور قوم نے اُسے خدا سمجھ کر  اُس کی پر ستش شروع کر دی۔ چار سو سال  تک قوم  فرعون  کے  ساتھ رہنے کے سبب اُن کی بہت سی  برائیاں  بنی اسرائیل  کے  مزاج کا حصہ بن کرجبلت میں شامل ہو چکی تھیں۔ 

قوم عمالقہ کے ایک ظالم و جابر بادشاہ " جالوت" نے بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد کو قتل کر ڈالا اور  ایک بڑی تعداد کو غلام بنا کر ساتھ لے گیا۔

بنی اسرائیل کی جہالت پر مبنی فرمائش :۔

 قوم فرعون تباہ ہو چکی تھی۔ اللہ نے بنی اسرائیل  کو فتح و کام رانی نصیب فرمائی ۔ لیکن اب ان کی سرکشی، جہالت ،کج روی  اور منافقت کے واقعات کا سلسلہ شروع ہو ا۔جو قدم قدم پراللہ تعالیٰ  کی بے شمار نعمتوں کےباوجود  ان لوگوں سے سر زد ہوئے ۔ بنی اسرائیل کو قوم فرعون کے مقابلے میں جو معجزانہ  کام یابی حاصل ہوئی اور اطمینان  ملا ، تو اس  کا وہی اثر ہوا جو عام طور پر قومو  کو  عیش و عشرت اور عزت ودولت ملنے کے بعد ہوتا ہے بنی اسرائیل  نے دریا پا ر کیا ۔ فرعون اور ا س کی پوری قوم ، فوج  کے دریا میں غر ق ہونے کا عبرت ناکواقعہ  اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آگے بڑھے  توایک  قبیلے سے گزر ہوا ۔ جو مختلف بتوں کی پرستش میں مبتلا تھا۔  بنی اسرائیل  کو انکاطریقہ ایسا پسندآیا کہ جھٹ حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے فرمائش کر دی کہ ہمارے لیے بھی ایسا ہی معبود بنا دو جسے سامنے رکھ کر  ہم اس کی عبادت کیاکریں۔ حضرت موسی ٰ علیہ السلام  کو ان کی بات سن کر حیرت ہوئی ۔ غصہ  بھی آیا اور  دکھ بھی ہوا۔

کہ "تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے  یہ لوگ جن کے طریقے  تم پسند کر رہے ہو۔ یہ سب باطل کے پیرو کار ہیں  تمہیں ان کی حرص نہیں کرتی چاہیے۔ کیا تم مجھ سے یہ توقع  کرتے ہو کہ میں تمہارے لیے اللہ کےسواکسی اور کومعبود بنا دوں؟ حالاں کہ اللہ تعالیٰ  نے ہی تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی ہے" ۔

اس لیے کہ اُس  وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام   پر ایمانلانے والے ہی دوسرے سب لوگوں سے افضل و اعلیٰ تھے ۔ فرمایا  کہ

"جس رب  العالمین نے تمہیں فرعونی عذاب سے نجات دی ۔آج  تم اس کے ساتھ دنیا کے ذلیل ترین پتھروں کو شریک ٹھہراتے ہو ۔ یہ کتنا بڑا ظلم  ے اس سے توبہ کرو "

بچھڑے کی پرستش کی سزا:۔

فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے  کے بعد ضرورت لاحق ہوئی  کہ بنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کوئی کتاب انہیں دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ والسلام   کو تیس راتوں  کے لیے " کوہ طور" پر  بلایا جس میں دس راتوں کا اضافہ کر کے اُسے چالیس  کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نےکوہِ  طور پر  جانے سے پہلے اپنے بھائی  حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ وہ نبی بھی تھے۔  حضرت موسیٰ علیہ السلام  اپنی قوم سے تیس  دن کاکہہ کر گئے تھے۔  لیکن اللہ تعالیٰ نے دس روز کی میعاد  اور بڑھا دی۔ اسرائیلی قوم کی جلد بازی اور کچ روی پہلے سے معروف تھی۔  چنانچہ  ان میں بے چینی بڑھنے لگی  جس سے فائدہ اٹھا کر لشکر میں موجود  ایک شخص ،سامری نے گائے  کےبچھڑے  کا ایک مجسمہ بنا ڈالا ۔ یہ شخص بڑا زبردست  شعبدے باز تھا اور " سامری جادوگر"  ے نام سے مشہور تھا۔ اُس  نے قوم  بنی اسرائیل  سے کہا  کہ یہی تمہارا خدا  ہے قوم نے خدا سمجھ کر  اس بچھڑے  کی پرستش شروع کر دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام   جب کوہِ طور  سے واپس  آئے ۔ تو غصے اور رنج سے بھرے ہوئے تھے۔  کیوں کہ انہیں  وحی کے ذریے اس واقعے کی اطلاع ہوچکی تھی۔

جیسا کہ قرآن مجید  میں ارشاد  فرماتا ہے۔

" (اےموسیٰ ) ہم نے تیری قوم کوتیرے پیچھے  آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے پس موسیٰ  علیہ السلام سخت غضب ناک ہو کر رنج  کے ساتھ واپس  لوٹے اور  کہنے لگے ۔ اے میری قوم !  تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر اللہ کا غضب نازل ہو کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا"

" اب تم اپنے پیدا کرنے والے  کی طرف رجوع کر و اور  خود کو آپس میں قتل کر  و۔ تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ  کے نزدیک  اسی میں ہے۔ "

 ان میں سے بعض لوگوں  نے بچھڑے کی پوجا کی تھی اور بعض نے نہیں ۔ چناں چہ جو شرک  کے مرتکب ہوئے تھے۔ انہیں قتل کر دیا گیا اور  بنی  اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔

Difference between Bani Israel and Israel


زلزلے اور کڑکتی بجلی کی سزا :۔

بچھڑے کا قصہ  ختم ہوا  اور حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے  اپنے ساتھ کوہِ طورسے لائی ہوئی توریت  کی تختیان پڑھ کرسنائیں تو قوم نے ایک نیا سوال اٹھادیا۔

بولے ( اے موسی )

 ہمیں یہ کیسے معلوم  ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ  کے  احکام ہیں اگر اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہہ دے تو ہم یقین کر  لیں "

چنانچہ رب ذو الجلال  کے حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے قوم میں سے 70 افراد چنے اور وقت مقررہ پر انہیں کو ہ طور پر لے گئے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ، تو کہنے لگے   کہ " خدا جانے کون بول رہا  ہوگا۔ ہم تو اس وقت یقین کر یں گے جب اللہ تعالیٰ  کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں " 

اللہ تعالیٰ نے  اس  گستاخی  کی سزا اس طرح دی کہ زمین میں شدید زلزلے کے ساتھ آسمان سے ایسی بجلی  کڑکی کہ سب ہلاک ہو   گئے یہ صورت حال دیکھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام  نے نہایت گڑ گڑا کر اپنے رب سے ان کی خطا ؤں کومعاف کر دینے کی التجا کی۔  چنانچہ  حضرت موسیٰ علیہ السلام  کی دعا  کی بدولت  وہ لوگ زندہ ہو کر کھڑے  ہو گئے۔

کوہ طور کا معلق ہونا:۔

 یہ 70 افراد  اپنی قوم میں واپس  آ گئے اور  انہوں نے گواہی دی لیکن  اتنی آمیشن کر دی کہ اللہ تعالیٰ   نے آخر یہ فرمایا  کہ  تم سے جدقدر ہو سکے کرنا جو ن ہ ہو سکے  معاف ہے۔  تو کچھ تو جبلی  شرارت  ، کچھ احکام  کی مشقت دراصل چار سو سال  تک قوم فرعون  کے ساتھ رہنے سے  ان کی بہت سی برائیاں ان کے مزاجوں کا حصہ بن کر  ان کی جبلت میں شامل ہو   چکی تھیں۔ چنانچہ انہوں  نے صاف کہہ دیا کہ  ہم اس کتاب پر عمل نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے بس  کی بات نہیں ۔  ان کے انکار  پر حضرت جبریل  علیہ السلام   نے اللہ تعالیٰ   کےحکم سے کوہ ِ طور  کو اٹھا کر  ان کے سروں کے اوپر  ہوا میں معلق کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے فرمایا ۔  تم یا تو  عہد قبول کر لو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے۔ لہٰذا  چارونا چارا نہیں  مانناپڑا

 قوم یہود کا جہاد سے انکار:۔

 حضرت موسی علیہ السلام  نے فرمایا : " اے  میری قوم  ! اس  مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ ۔  جو اللہ تعالیٰ  نے تمہارے نام لکھ دی ہے  اور ( دیکھنا  مقابلے  کےوقت ) پیٹھ نہ پھیر لینا ، ورنہ پھر نقصان  میں پڑ جاؤ  گے" وہ کہنے لگے   " موسیٰ  ! وہاں  تو بڑے  زور  آور اور سرکش  لوگ ( رہنے ) ہیں جب تک وہ اس زمین سےنہ نکل جائیں ۔ ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے  ہاں اگر  وہ وہاں سے  نکل جائین تو ہم بخوشی چلے جائیں گے "

 ان میں سے  دو خدا ترس  لوگوں نے کہا کہ "تم ان کے پاس دروازے  تک تو پہنچ جاؤ  دروازے  میں قدم  رکھتے ہی یقینا ً تم غالب  آ جاؤ گے  اور تم اگر مومن ہو تو اللہ تعالیٰ    ہی پربھروسا رکھنا چاہیے"

 بنی اسرائیل  کے مورث ِ اعلیٰ، حضرت یعقوب  علیہ السلام  کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے  امارت مصر کے زمانے  میں یہ لوگ مصر میں جاکر آباد ہو ئے تھےا ور پھر چار سو سال تک وہ لوگ مصر میں ہی رہے۔ جہاں فرعون  اور اس کی قوم انہیں غلام بنا  کر  ، ظلم و ستم کے پہاڑ  ڈھایا کر تے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ  نے حضرت موسیٰ علیہ السلام  کو ان کی جانب بھیجا ، جو انہیں مصر سے نکال کر لے گئے کوہ  طور پر تورات کے نزول کے بعد حضرت موسیٰ علیہ  السلام    نے اللہ کے حکم سے بیت المقدس  آباد ہونے کا عزم کیا۔ بیت المقدس پر عمالقہ  کی حکومت تھی ۔ جو  ایک  جری ، بہادر اور جنگجو قوم تھی ۔ چنانچہ  ارض مقدس  پر قبضے کے لیے عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے انہیں نصرت الہی کی بشارت سناتے ہوئے یقین دلایا  کہ  وہ جیسے ہی بیت  المقدس   میں داخل ہو  ں گے ۔ اللہ تعالیٰ  انہیں فتح و نصرت سے سرفراز  فرمائے گا۔   لیکن یہ نا فرمان ، منفاق ، سر کش  ، بد عہد  اور ڈرپوک قوم بیت المقدس پر  قابض  قوم  عمالقہ  کی بہادری کی شہرت سے اس قدرت  مرعوب تھی کہ پہلے ہی مرحلے میں ہمت  ہار بیٹھی اور اللہ  کی جانب سے فتح کے وعدے کے باوجود اپنے  نبی کے احسانات  فراموش  کرکے عمالقہ سے لڑنے  سے صاف انکار  کر دیا۔ ۔۔

 تم اور تمہارا رب جا کر لڑو :۔

اور جب انہیں مزید قائل  کر نے کی کوشش کی گئی  تو بولے " اےموسیٰ   ! جب تک وہ وہاں  ہیں تب تک ہم ہر گز  وہاں نہیں جائیں گے۔ اس لیے تم ار تمہارا  پرورگار ہی لڑ  بھڑلو ، ہم تویہیں  بیٹھے ہوئے ہیں"

 بنی اسرائیل  کی اس سخت ترین سر کشی ، حکم عدولی اور  گستاخی  پر مبنی  جواب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام   رنجیدہ ہو  ئے اوربار گاہ الہی میں التجا  کی ۔

" یا الہی !  مجھے تو بجزا اپنے اور اپنے  بھائی ( حضرت ہارون علیہ السلام ) کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں پس تو ہم میں اور  ان نا فرمانوں میں جدائی کر دے "

(سورۃ المائدہ  آیت 25)

who is bani israel


 وادی  تیہ میں قید  کی سزا :۔

ا للہ تعالیٰ  نے جب اپنے محبوب بنی کی فریاد سنی  تو فرمایا  ( اے موسیٰ )   اب وہ ملک ان پر چالیس سال تک کے لیے حرام  کر دیا گیا ہے۔ یہ خانہ بدوش  اِدھر اُدھر  سر گرداں پھرتے رہیں گے۔  اس لیے  تم ان فاسقوں کے لیے غم گین نہ ہو نا"

( سورۃ المائدہ آیت 26)

 وادی تیہ ، مصر اور شام کے  درمیان دس میل  کے رقبے پر   مشتمل  ایک میدان ہے۔ 

روایت  ہے کہ یہ لوگ اپنے وطن، مصر جانے کے لیے دن بھر سفر کر تے،لیکن  جب صبح ہو تی تو یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتے  کہ جہاں سے چلے تھے  واپسی اُسی جگہ پر کھڑے  ہیں۔   اسی طرح  چالیس سال تک یہ لو گ اس میدان  میں بھٹکتے رہے۔

وادی تیہ  ایک کھلا میدان تھا جہاں دھوپ  کی تپش سمیت سردی و گرمی سے بچنے کی کوئی چیز بھی میسر نہ تھی۔ کھانے پینے کے لیے کچھ تھا نہ ہی پینے کے لیے  پانی اور پہننے کے لیے لباس ، حضرت موسیٰ علیہ السلام   اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام    بھی اپنے قوم کے ساتھ  تھے۔  جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں کیں۔  چنانچہ ان  کی دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ  نے اس بیاباں میں بھی اس نا فرمان  قوم کے لیے ضرورت کی  ہر چیز مہیا  کر دی۔ بنی اسرائیل نے دھوپ  کی شکایت  کی ۔اللہ تعالیٰ نے اُن پر   ابَر  کا سایہ  کر دیا۔ وہ جہاں جاتے ،  سایہ ساتھ ہوتا ۔ بھوک کا تقاضا   ہوا تو من و سلویٰ   نازل فرما دیا ۔  پانی کی حاجت  ہو ئی تو رب العالمین نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ پتھر  پر لاٹھی مارو ، چنانچہ  بارہ قبیلوں  کے لیے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ، رات کے   اندھیرے  کی شکایت کی تو رب العزت نے  ان نا شکروں پر غیب سے روشنی کا  بندوبست بھی فرما دیا۔  لباس کی ضرورت ہوئی تو یہ صورت کر دی کہ کپڑ  نہ میلے ہوں اور نہ پٹھیں  اور بچوں کے بدن  کے کپڑے ان کا قد بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہیں ۔

( قصص الانبیاء )

 بنی اسرائیل  کی نا شکری :۔

نا فرمان ، نا شکر اور عہد شکن  بنی اسرائیل  وادی  تیہ میں بھٹکتے  ہوئے چالیس  سال گزرچکے تھے اس عرصے میں  بہت سے لوگ مر کھپ  گئے تھے اب ان کی طرف سے ایک نیا  مطالبہ آیا ۔ 

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

" اور جب تم نے کہا کہ  موسیٰ  ہم سے ایک کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا۔  اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں  اور مسور اور پیاز وغیرہ جو نباتات زمین سے اگتی ہیں ہمارے لیے پیدا کر دے "

  انہوں نے کہا کہ 

" بھلا عمدہ چیزیں  چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو ؟ اب تم  کس شہر میں جا  اترو وہاں مانگتے ہو  وہ مل جائے گا  اور ان پر ذلت و محتاجی  ڈال دی گئی اور وہ اللہ کے غضب  میں گرفتار  ہو گئے"

( سورۃ البقرہ آیت 61)

 حضرت یوشع کی قیادت میں  فتح:۔

ابھی وادی تیہ  کی سزا کی  مدت پوری  بھی نہ  ہو ئی تھی ۔ کہ پہلے  حضرت ہارون علیہ السلام اور پھر ان کے دو سال  بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام   انتقال فرما گئے۔ تاہم  حضرت موسیٰ علیہ السلام   انتقا ل سے  قبل  اپنے خادم خاص ، حضرت  یوشع علیہ السلام  کو اپنا جانشین  اور خلیفہ  مقرر فرما گئے۔ اکثر مفسرین  نے لکھا ہے کہ  انہیں نبوت بھی عطا کی گئی تھی۔ حضرت  یوشع علیہ السلام  کو اس بات کا احسا س تھا کہ  اللہ کے حکم   کے مطابق  ارض مقدس  کو کفار سے آزاد کروانا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ چنانچہ انہوں نے بنی اسرائیل کی  نوجوان نسل کو فنون حرب کی ٹرینگ دینی شروع کی نوجوان  نسل جذبہ جہاد سے سرشار ، اپنے آبا و اجداد کی سرزمین   ، مشرک قوم سے آزاد کروانے کے لیے  نکلی تو  اللہ تعالیٰ نے کام یابی  عطا فرمائی  اور اللہ ذو الجلال نے کنعان ، فلسطین  اور شام تک کا پورا  علاقہ اپنے وعدے کے مطابق بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا۔

علامہ ابن کثیر  تحریر کرتے ہیں کہ  اس جنگ میں  بے شمار  مال و دولت  بنی اسرائیل  کےہاتھ آیا۔ قوم عمالقہ کے بارہ ہزار  مردوں اور عورتوں کو تہ تیغ کیا گیا اور  حضرت یوشع علیہ السلام  نے شام کے اکتیس بادشاہوں پر غلبہ پایا۔

( قصص ، صفحہ 49)

 حکم عدولی  اپنی انتہا پر :۔

 اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا کہ شہر مین نہایت عاجزی کے ساتھ  ، توبہ استغفار  کرتے ہوئے داخل  ہونا۔ لیکن  اپنے آبا ؤ اجداد کی طرح اس نئی پود  نے بھی توبہ اور  معافی کے بجائے گندم اور جو کی فرمائش کر دی۔ اس بات سے ان کی سر تابی و سرکشی  اور احکام الہی سے تمسخر و استہزا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 

رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ

" بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا کہ شہر کے دروازے  میں جھکتے ہوئے اور  " حطتہ" کہتے ہوئے  داخل ہوں یعنی  ( اے اللہ )  میرے گناہوں کو معاف کر دے"

لیکن وہ کولھوں  کے بل گھسٹتے  ہوئے داخل ہوئے۔ اور کلمہ حطتہ کو بھی بدل دیا اور  دل لگی  کے طور پر لگے ۔

" دانہ بالی کےاندر ہونا چاہیے "

( صحیح بخاری حدیث 4479)

History of Bani Israel

 

 

No comments:

Post a Comment