لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ گلے ملو گے ۔۔تو تھوڑی سی پکڑ ہوگی ۔۔اللّٰہ کی طرف سے ۔۔۔اب چیخیں کیوں آسمان پر پُہنچ چکی ہے ۔۔۔۔اب اس فلم کو ایوارڈ ملے گا ۔۔۔۔The Goat Life || Real or Fake Story || Indian Movie the Goat Life
دی گوٹ لائف فلم کو
لیکر انڈیا اور پورے گلف ممالک میں ایک مسلسل کنٹروورسی جنگ چھڑی ہوئی ہے یوں
سمجھیں کہ پورا کرکٹ میچ چل رہا ہے کبھی باونسر کبھی بولڈ اور کبھی چھکا دونوں
ملکوں سمیت عالمی میڈیا و سوشل میڈیا بھی اس ڈیجیٹل جنگ میں پوری طرح شریک ہے ۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے
کہ سعودیہ کو ، اس کے سسٹم اور ان میں موجود خامیوں اور غیر انسانی ہونے کو کسی
ایسے بڑے لیول پر ڈسکس کیا جا رہا ہو یا مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
دراصل فلم کی عالمی
پذیرائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تھو تھو سے سعودی بوکھلا گئے ہیں، فلم گلف
ممالک میں بین ہے قطر وغیرہ کو چھوڑ کر اس سے قبل یہ ناول بھی گلف ایریاز میں
پابندی کا شکار ہی رہا ہے جو بعد ازاں سعودیہ کے علاؤہ تقریبا باقی سبھی گلف ممالک
نے ہٹا دی تھی۔
فلم مسلسل سوشل میڈیا ،
بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر اور سیاست کے ایوانوں میں مسلسل ٹروجن
ہارس بنی ہوئی ہے کبھی کسی طرف سے کھینچا تانی کبھی کسی جانب جھکاؤ ۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا
کے ایک انٹرٹینمنٹ گروپ گروپ فلمز سٹریٹ نے دعویٰ کیا کہ
سعودیہ نے فلم میں کفیل
کا ظالمانہ کردار ادا کرنے والے یمنی ایکٹر طالب البلوشی پر سعودیہ میں داخلہ پر
پابندی عائد کر دی ہے جو کہ خود اسی ایکٹر کی جانب سے تردید آ گئی کہ ایسا نہیں
ہوا مجھے کوئی لیٹر نہیں موصول ہوا غالبا یہ بھی آندھی کی طرح اٹھنے والی خبر تھی
جسے سعودیہ نے چپ چاپ دبا جانا ہی ضروری سمجھا۔
ابھی یہ گرد ٹھیک سے
بیٹھی نہیں تھی کہ
کل فلم میں کام کرنے
والے ایک اور اردنی ایکٹر عاکف عجم نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر باقاعدہ پوسٹ کر کے
سعودیوں سے فلم میں کام کرنے پر معافی مانگ لی بقول اس کے میں نے سکرپٹ اچھے سے
نہیں پڑھا تھا اور مجھے نہیں علم تھا کہ اینڈ پراڈکٹ پر یہ فلم سعودیوں کی تھو تھو
پر ختم ہو گی۔ میں سعودیہ کی دل آزاری پر اور اس فلم میں کام کرنے پر معافی مانگتا
ہوں ۔
(بیچارے نے ڈرتے ہوئے ہی معافی مانگ ڈالی
کہ ہمارے مالک بادشاہ سلامت تو ترکی جیسے ملک میں ایک عالمی سطح کے صحافی جمال
خِشوگی کا جو حشر کر چکے ہیں میرے ساتھ جانے کیا کریں.)
(اس کی پوسٹ کے نتیجے میں عربیوں سمیت
لوگوں نے اس کی خوب چھترول کی ہے)
لیکن ایک بات تو طے ہے
کہ سعودیہ نے گزشتہ سالوں میں جتنے بھی لبرل اقدام اٹھا کر سعودیہ کے امیج کو عام
دنیا کے قابل قبول بنانے کی کوشش کی تھی اس پر نجیب کی Goat نے تھوک دیا ہے ۔
اصل کہانی۔
دی گوٹ لائف کی کہانی
نجیب ملیالم انڈین مزدور کے سعودی مہم کے گرد گھومتی کے کہ کیسے وہ مزدوری کرنے
اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کو سعودیہ پہنچ کر اپنے باسز کا منتظر ہوتا ہے تو
ائیر پورٹ سے ہی سعودی مقامی لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اسے دور دراز کے مقام
پر غلاموں کی طرح قید کر کے سالہا سال تک صحرا کے غیر موافق جہنم زدہ ماحول میں
جبری مشقت کرواتے ہیں۔
بلیسی کی ہدایت کاری
میں بننے والی جو ملیالم سینما ہی سے ہدایتکار ہیں 'آدوجیویتھم'Aadujeevitham یا
Goat Life میں پرتھوی راج سوکمارن نے نجیب کا کردار ادا
کیا ہے،پرتھوی ملیالم سینیما کا تگڑا سپر سٹار ہے جو اس سے قبل سالار جیسی فلم
سمیت شاندار فلموں میں اداکاری کر چکا ہے . فلم تارکین وطن کو درپیش مشکلات اور
انسانی جانوں پر معاشی نقل مکانی کے نقصانات کا اخلاقی اور انسانی ہمدردی کی
بنیادوں پر تنقیدی نقطہء نظر پیش کرتی ہے ۔
The Goat Life
فلم دراصل اپنے آپ میں
ہی ایک عجوبہ ہے فلم چونکہ سچے واقعات سے ماخوذ ہے لہذا فلم کا بنایا جانا بھی کئی
طرح کے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا, بنیادی ترین کام کہانی و سکرین پلے ڈرافٹ لکھنے کو
سورس میٹیریل نجیب تھا یا اس پر لکھا گیا ناول Aadujeevitham ۔
نجیب جب کسی طرح قسمت
کی مہربانی سے واپس انڈیا پہنچا تو اس نے اپنی کہانی یعنی ہڈ بیتی بنیامین نامی
ملیالم کیرالہ کے رہنے والے رائٹر بنیامین کو سنائی ، جس نے اس پر ون آف بیسٹ سیلر
ناول اسی نام سے یعنی Aadujeevitham جس کے معانی Goat Life کے بنتے
ہیں شائع کیا اور اسی سے فلم کا مین سکرین پلے اور بنیادی معلومات نجیب سے ریویو
کروانے کے بعد فلم کا حصہ بنی ۔
فلم کوویڈ کی وباء کی
وجہ سے لیٹ ہوئی، اور کانز فلم فیسٹیول فرانس یا وینس فلم فیسٹیول میں سکریننگ کے
مواقع حاصل کرنے کو مینج نا کر سکی ۔
فلم کا میوزک عرصے بعد
دوبارہ تامل فلموں میں واپسی کرنیوالے لیجنڈری آسکر یافتہ موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دیا ہے جسے ملیالم اور ہندی دونوں زبانوں میں الگ سے
ترتیب دیا گیا ہے اور اے آر رحمان کی ذندگی کے اب تک کے بہترین کاموں میں سے ایک
ہے۔
فلم میں شامل ساونڈ ٹریکس میں نمایاں
0.28 - Khatti Si Woh Imli
5.57 - Meharbaan O Rahmaan
11.23 - Hope Song
15.00 - Badaweih
21.31 - Benevolent Breeze (instrumental)
26.50 - Istigfar
شامل ہیں فلم کی
سینماٹوگرافی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے صحرائی مناظر اور جذباتیت کو جس طرح پینٹ
کیا گیا ہے اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
بہرحال اس سب میں
پاکستانیوں نے ہمیشہ کی طرح پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے والا کردار ہی ادا کیا
ہے بلکہ ہر بار کی طرح ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ ڈالے، کسی بیوقوف نے کسی خود ساختہ
یوٹیوب ویڈیو کی بات کر کے اہل ایمان سعودیہ کو سفید لباس پہنانے کی پوری کوشش کی
ہے جو اگرچہ خاصی بیوقوفانہ ہے کہ اس کو رہائی دلانے کے لئے سعودیوں نے چندہ اکٹھا
کیا یا پھر کہ وہ حسن اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا
اطلاعا عرض ہے کہ وہ
بیچارہ پہلے ہی پیدائشی مسلمان تھا ۔
ہالیووڈ بالیووڈ کے دن
گئے اب آسمان پر بس ساؤتھ چمکے گا۔
انسان کی خواہشات بعض
اوقات اتنی سادہ اور حقیقی جزبات سے بھرپور ہوتی ہیں کہ وہ موقع ملنے پر کوئی بھی
قدم اٹھا دیتا ہے حالانکہ اسے نہیں پتا ہوتا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے یہ اس کے
بھولے پن کی نشانی ہوتی ہے ایسا انسان اپنےکچھ گنے چنے رشتوں کے ساتھ ہی رہے تو بہت
خوش رہتا ہے لیکن دوسروں کے ساتھ وہ بہت معصوم لگتا ہے
Film: Aadujeevitham' The Goat Life
IBDM" 8.4/10
میرا بس چلے تو میں دس
میں سے آٹھ عشاریہ چار کی ریٹنگ دینے والوں کے ہاتھ کاٹ دوں
میں اپنے گھر سے صرف
تیس کلو میٹر دور رہتا ہوں لیکن پھر بھی مجھے ہتا ہے کہ کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے یہ
تو پھربارڈر پار کی کہانی ہے
سچے واقع پر مبنی ایک
فلم
فلم ایک ایسے انسان کی
ہے جو روزی کی لالچ میں سعودیہ چلا جاتا ہے اس کو بتایا جاتا ہے کہ کمپنی میں
نوکری اور کھانا پانی ملے گا
لیکن اسکا کفیل جو کہ
ایک بدمعاش ہوتا ہے اسے لیجا کر ایک صحرا میں بھیڑ بکریوں کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے
جہاں چاروں طرف بکریوں کے علاوہ کوئی ذی روح نہیں ہوتی وہاں اسے کھانے کے نام پر
آٹے کی موٹی روٹی دی جاتی ہے جو اسے نا چاہتے ہوئے بھی نگلنی پڑتی ہے پانی کی
قلت(اتنی کہ جب وہ منہ پر پانی ڈالے تو کراہنے لگ جائے)اور انسانوں سے دور رکھتے
ہوئے بھی اس پر ظلم کیا جاتا ہے
جب وہ بھاگنے کی کوشش
کرتا ہے تو اس کے پاؤں توڑ دئے جاتے ہیں
تن تنہا انسان جس کو
کسی کے نا ہوتے ہوئے بکریوں سے ہی انسیت ہو جائے
باقی وہ وہاں کیا کیا
مصیبتیں جھیلتا ہے اور کیسے سروائیو کرتا ہے یہ آپ کو فلم دیکھ کر پتا چلے گا
مجھے پتا ہے کہ یہ چند
الفاظ اس دردکی ترجمانی نہیں کر سکتے جو اس فلم میں دکھایا گیا ہے
فلم کے لیڈ کریکٹر
پرتھوی راج سوکومارن(نجیب) ہیں پہلے ان کو سالار میں دیکھا تھا اور اب یہ ان کی
دوسری فلم دیکھی ہے ایک ہی فلم میں سٹارٹنگ سے لے کر اینڈ تک پرتھوی راج نے جس طرح
خود کو ٹرانسفرم کیا ہے آپ یقین نہیں کریں گے کہ یہ سیم انسان ہے۔اگر خود اصل نجیب
بھی دیکھ لے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوں جائیں تین گھنٹے کی فلم ایک سو اسی منٹ
کیمرہ صرف ایک انسان پر جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اٹھو مت بس مجھے دیکھو
ایکٹنگ سولہ آنے فیس
ایکسپریشن،ٹوٹی ٹانگوں سے چلتے وقت باڈی لینگویج اور پانی کا نام لیتے وقت کراہنا
ایک بھی غلطی نہیں ڈھونڈ پاؤ گے
اس جیسے کردار کو
نبھانا اور اتنے پرفیکٹ طریقے سے نبھانا شائد پوری انڈسٹری میں دو تیں ایکٹر ہی کر
پائیں گے پوری فلم کو پچاس فیصد کریڈٹ پرتھوی راج کو اور پچاس فیصد ڈائریکٹر بلیسی
کو دینا چاہیے
ایک کہانی بنانا آسان
ہے لیکن اس کے اندر گھس کر اسے جینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں نا کوئی کلر فل سیٹ
نا پانچ چھ سو کروڑ والے وی ایف ایکس سب کچھ کہانی کے حساب سے سمپل
آپ اسے ایک مکمل معیاری
فلم کہہ سکتے ہیں
ہالیووڈ کی ایک مووی
دیکھی تھی دا ریویننٹ سیم پیٹرن پر ایک سروائول فلم تھی لیونارڈو ڈی کیپریو کو
آسکر ملا تھا اس کیلئے۔ اور آج یہ دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ پرتھوی نے اس کو
پوری ٹکر دی ہے بلکل شانہ بشانہ چلے ہیں بیشک آسکر نا ملے لیکن اب کوئی کہہ نہیں
سکتا کہ اس جیسی فلم و ایکٹنگ کوئی نہیں کر سکا
میں ایک بار پھر کہہ
رہا ہوں کہ میرے چند الفاظ پوری فلم کی ترجمانی نہیں کر سکتے..
عوامی رائے
ہر جگہ ہر آدمی مکمل
نہیں ہوتا ۔ کمی بیشی ہر معاشرے میں ہوتی ہے اچھے اور برے رویے ہر جگہ پائے جاتے ہیں
۔ لیکن یہ سٹوری یک طرفہ ہے ۔ لاکھوں سعودی کفیل ہیں جنہوں نے اپنے ورکروں کی مدد
بھی ہے ۔ ورکروں کی اپنے ممالک میں پریشانیوں کو حل بھی کیا ہے ۔ رمضان میں بھی مدد
کرتے ہیں ۔
لیکن چونکہ معاشرہ کسی
کے بارے میں منفی اپروچ کو بہت جلد اٹھا لیتا ہے اور وہ ملک مسلمان ہو تو پھر
بدنام کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا ۔ حقیقت میں یہ سب بدنسل ہوتے ہیں ۔
ایک کروڑ سعودی کفیلوں
کی بدولت کروڑوں بھوکے ننگے اپنے خاندانوں بلکہ ملکوں کو پال رہے ہیں
ایک کی برائی کو اتنا
اجاگر کرو تاکہ کروڑوں کی اچھائیاں دب جائیں
شرم کرو
سعودی عرب میں تیل
نکلنے سے پہلے انڈیا پاکستان سری لنکا بنگلہ دیش
فلپائن چین انڈونیشیا
اور بہت سے ممالک میں
پہننے کیلئے سال میں ایک جوتا اور ایک کپڑوں کا جوڑا قسمت سے ہی نصیب ہوتا تھا
کچے گھر ہوتے تھے
اور دو وقت کھانا ملتا
تھا لیکن ایک وقت اچار یا پیاز کے ساتھ روٹی کھاتے تھے
اپنے بوڑھے ماں باپ سے
ان کے بچپن کے دنوں کی کہانیاں پوچھو
یہ دولت کی بارش نہیں
ہوئی تھی
پچاس سالوں سے جو ریال
تمہارے ملکوں کو سعودی عرب سے بھیجے گئے ہیں ان کو جمع کرکے دیکھو قارون کا خزانہ
چھوٹا لگے گا
سعودی عرب کے عوام سے
معذرت
ہم محسن کش لوگ ہیں
No comments:
Post a Comment