World War || Nuclear Policy between America, Russia, Chain and Iran || Donald Trump Return to American Senate - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Wednesday, May 1, 2024

World War || Nuclear Policy between America, Russia, Chain and Iran || Donald Trump Return to American Senate

World War || Nuclear Policy between America, Russia, Chain and Iran || Donald Trump Return to American Senate

World War || Nuclear Policy between America, Russia, Chain and Iran || Donald Trump Return to American Senate
A hypothetical world war involving America, China, and Russia would be catastrophic, with global repercussions. The conflict's scale, advanced weaponry, economic impact, and geopolitical shifts would reshape the world order dramatically.

world biggest nuclear power country America, China and Russia announcement to control of Nuclear weapons


 چین ، ایران اور روس سے نئی محاذ آرائی ، مسلمان تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کے خدشات

ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی ،  میدن، سیاست کا کوئی عجونہ نہیں اور نہ ہی پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاست دان ، ایک بار اقتدار میں رہنے کے بعددوبارہ نہ صرف انتخاب لڑ رہا ہے بلکہ عوامی مقبولیت میں بھی سب سے آ گے ہو ،  جب کہ ٹرمپ  تو پاپولزم  کی سیاست  کےماہر ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نااہلی سے متعلق میڈیا  میں تواتر  سے پھیلا ئے گئے خدشات  ختم کر دیئے فیصلے کے بعد ٹرمپ اس سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی  انتخاب لڑنے کے قانونی طور پر  اہل ہو چکے ہیں۔ جب کہ سیاسی اور عوامی میدان میں تو وہ پہلے ہی سب سے  آ گے ہیں ۔ اس فیصلے کی  ایک اہم بات  یہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کسی بھی صوبائی عدالت کو اختیار نہیں۔ کہ وہ وفاقی صدارتی  عہدے کے کسی امید وار کی نا  اہلی کا فیصلہ  دے۔ اُدھر  سیاسی میدان میں قسمت ایک مرتبہ پھر ٹرمپ  کا ساتھ دے رہی ہے۔ کہ 15 میں سے 14 پرائمری  مقابلوں میں انہوں نے تقریبا  کلین سویپ کر لیا ہے اور اپنی مقابل  امیدوار ( نکی ہیلے ) کو اس  بُری طرح شکست دی کہ وہ صدارتی اُمیداوار کے مقابلے  ہی سے دست بردار ہو گئیں۔  دوسری طرف  صدر جو بائیڈن نے بھی  اپنی جماعت کی طرف سے پندرہ میں سے  پندرہ ریاستوں  میں برتری حاصل کر لی۔ اور یوں  نام زَدگی  کے تقاضے پورے  کر لیے ۔ اس طرح یہ بات تقریبا  یقینی  ہے کہ سال کے آخر میں  ہونے والی امریکی صدارتی  مقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ اور  جو بائیڈن  کے درمیان ہو گا۔ عموما ً کہا جاتا ہے کہ امریکا یا مغربی ممالک میں کوئی بھی اقتدار میں آئے   ، جائے ،لانگ ٹرم پالیسیز کا تسلسل  بر قرار  رہتا ہے۔ تاہم یہ مفروضا  ٹرمپ  کےمعاملے میں تو بالکل بھی لاگو  نہیں کیا جاسکتا ۔  اپنے  پہلے دور ِ صدارت میں  بھی انہوں نے کئی خارجہ اور  اندرونی پالیسیز  یک سر  تبدیل کر  دی  تھیں۔ میڈیا ماہرین کےتمام تر  تجزیوں اور دبا ؤ کےباوجود  اپنی پالیسی  خود مختیار رکھی ۔ جس پر  آج تک امریکا  ہی نہیں ، مغرب کا آزاد اور طاقت  ور میڈیا بھی ان سے ناراض   ہے اور اُن  کےمخالف کو مسلسل  سپورٹ کر  رہا ہے۔ ویسے بھی میڈیا  کی ہر ملک میں یہی  خواہش ہو تی ہےکہ حکومت  اُس  کے مشورں پر چلے ، وگرنہ تنقید کے لیے تیار رہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ  76 سال کی عمر کے ہیں۔ جب کہ جو بائیڈن80  سے اوپر  کےدیکھا جائے  تو امریکی عوام جہاں دیدہ ، تجربہ کار اور پیرانہ  سال سر براہ پسند  کرتے  ہیں ۔  ویسے ٹرمپ غیر روایتی  سیاست کر تے ہیں جب  وہ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو  کہا گیا کہ امریکا کی 275 سالہ  جمہوری تاریخ میں وہ منفرد ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی، امریکیوں کو پسند آئی   قوم پرستی  کی پالیسی تھی  اور انکے نعرے " امریکا  فرسٹ "   کی گونج اب بھی عوام کے  کانوں کو بھاتی ہے۔ امریکی شہری  عالمی  مالیاتی  بحران اور کورونا  کے بعد معاشی دبا ؤ سے بہت پریشان ہیں  ان کی خواہش  ہے کہ وہ نہ صرف فوجی ، سیاسی بلکہ  معاشی طور پر بھی  عالمی معامات کی قیادت کریں اِسی لیے انہیں ا س کی بہت کم پر وا ہے  کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہےاور  افانستان  کیسے چل رہا ہے۔ یہ ان  کے  لیے انسانی حقوق سے  متعلق  معمول کے معاملات اور بیا نات سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ تو  ہم جیسے تیسری  دنیا کے   ممالک کے ماہرین ہیں جو ایسے بیانات کو انتہائی سنجیدہ   لیتے ہیں  اور میڈیا  انہیں  شہ سرخیوں میں لیتا ہے۔

امریکہ اور غزہ:۔ 

یہی دیکھے   غزوہ پر اسرائیلی  جارحیت کو پانچ ماہ سے زائد ہو چکے ہیں لیکن سوائے چند ایک انفرادی آوازوں کے امریکا میں بہت کم لوگوں کو اس معاملے کی پروا ہے۔  شاید کچھ تجزیہ  کار سمجھتے ہیں کہ  یہ آوازین ویت نام معاملے کی طرف پالییسیز پر اثر انداز ہو ں گی  لیکن وہ بھول گئے کہ یہ سرد جنگ کا زمانہ ہے  اور نہ ہی یہ علاقہ انڈو پیسیفک  ہے  اسرائیل  کے ساتھ جو بائیڈن بھی کھڑے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس معاملے میں امریکی پالیسی  میں تسلسل  پایا جاتا ہے بکہ ٹرمپ تو  عربوں اور   اسرائیل کو قریب لانے میں ذاتی طور پر اہم  کردار ادا کر چکے ہین۔  ان کے داماد ان مذکرات کے  رو ح ِ  رواں تھے۔ جو ان ممالک  کے درمیان ٹرمپ دور کے آخری دنوں میں ہو ئے ۔

امریکہ ، ایران نیو کلیئر پلان :۔

پھر ایک اہم معاملہ  ایران کے ساتھ  نیو کلیئر  ڈیل  کی بحالی کا بھی ہے۔ یہ ڈیل ٹرمپ ختم کر گئے تھے اور پھر جو بائیڈن دور میں ایران کی تمام تر خواہشات  ، ڈیمو کر یٹک  حکومت سے  پس ِ پردہ  اچھے تعلقات اور یور پتی یونین سے ہم آہنگی کےباوجود  یہ ڈیل  بحال نہ ہو سکی۔ اب اگر ٹرمپ  دوبارہ اقتدار  میں آ تے ہیں تو   اس ڈیل کی بحالی  مزید مشکل ہو   گی۔ شاید  اسی لیے  چین نے ایران  اور سعودی عرب کے درمیان  معاہدہ کروا کے سا کے منفی  اثرات کم کر نے کی کوشش  کی ہے لیکن غز ہ کی جنگ  نے ایران کی مشکلات  میں اضافہ  کردیا  ہے۔ عام تا ثر یہ ہے کہ اس لڑائی مین شامل حماس ، حزب اللہ ، حوثی ، شامی اور عراقی گروپس ایران کی مشرق  وسطیٰ کی پرا کسیز ہیں جنہیں  وہ عرب اور مغرب پر دبا ؤ  کے لیے استعمال کر تا ہے۔ فوجی ماہرین ایک اور  غلطی کی جانب بھی اشارہ  کرتے ہیں کہ غزہ جنگ میں  تمام مسلح تنظیمیں  اسرائیل ، امریکا اور مغرب  کا ہدف بنیں  اور سب سے نقصان اٹھایا ۔ اس کی مثال حزب اللہ اور حوثی باغیوں کی سمندری کاروائیاں  ہیں جو  جواب ملنے پر  خامو ش ہیں۔ افغانستان  سے امریکا کی واپسی سے قبل پاکستان  کا کچھ کردا ر تھا۔  جواب بالکل  ختم ہو گیا۔  اِ سی لیے غز ہ کے معاملے میں کسی بھی عرب ممالک  یا امریکا نے  اسلام اباد سے مشورہ تک  کرنا پسند نہیں کیا۔  علاوہ ازیں  پاکستان کی کم زور معیشت نے اسے اسلامی دنیا میں غیر فعال کر  دیا ہے۔  اسی لیے ضروری  ہے کہ اگر یہاں کے  عوام مشرق وسطیٰ یا اسلامی بلاک میں کسی اہم کردار کے خواہش مند  ہیں تو   انہیں جذبات کی بجائے  معیشت  پر توجہ دینی ہوگی۔

امریکا ڈائریکٹ  ان ڈائریکٹ  چین اور روس سے ٹکر :۔

 تاریخ شاہد کے کہ ہمیشہ  ان ڈا ئریکٹرلی ہی چین سے اور روس سے  ٹکر لی لیکن ٹرمپ کے دور حکومت میں  امریکا نے ڈائریکٹ  چین اور روس سے ٹکر  لیتے ہیں  کہ وہاں بھی  صدر  شی جن پنگ ار صدر پیوٹن جیسے نیشنلسٹ لیڈر ہیں۔ لیکن ایک تاجر ہونے کے ناتے ٹرمپ  چین کو  بڑا مقابل سمجھتے یہں ۔ انہوں نے  پہلے بھی چین پر بہت سے  تجارتی ٹیرف  لگائے تھے۔  انکا یقین  ہےکہ چین کی تجارتی  برتری کی وجہ سے  امریکی اکانومی دبا ؤ میں  آتی ہے  گزشتہ الیکشن  میں وہ امریکا  ، چین دو طرفہ تجارت  میں تین  ارب ڈالرز کے تجارتی  خسارے کو امریکی معیشت ، خاص  طور پر روز گار  کے مواقع میں کمی کا ذمے دار قرار  دیتے ہیں ۔  اس سے ظاہر  ہوتا ہے کہ  وہ چین  کی معاشی بر تری کو کھلا  راستہ نہیں   دینا  چاہیے۔  اب تک صدارتی مقابلے  کے بنیاد  قومی نکات  پر  بحث شروع نہیں ہوئی لیکن ٹرمپ  کی چین سے  متعلق  سوچ نہیں  بدلی ۔ تاہم امریکا  کی ٹاپ  قیادت چاہیے  کیسی  ہی سوچ کی حامل  کیوں نہ  ہو ۔ وہ کبھی بھی ملک   وقوم کے مفاد کے  خلاف نہیں جاتی ۔

امریکا کا  روس  پر میزائل حملہ :۔   

ٹرمپ نہ صرف چین ے خلاف ہیں بلکہ پیوٹن اورروس کو بھی  بہت باندھ  کے رکھا۔ ناہوں نے  شام میں روسی تنصیبات پر  بحر روم سے  میزائل حملے کروا  کے انہیں تہس نہس کر دیا اور روس کچھ نہ کر سکا۔  ٹرمپ  کے خیالات اپنے اتحادیوں سے متعلق  بھی بالکل مختلف ہیں ان کا کہنا  ہے کہ اقتدار  میں آکر  یو کرین کی امداد  بند کر وا دوں گا ۔ کیوں کہ یہ  یورپ  کی جنگ ہے اور سرمایہ اسے ہی خرچ کرنا چاہیے اپنے پہلے دور میں انہوں نے نیٹو کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یورپی اتحادیوں کو نیٹو کے دفاعی  اخراجات میں اپنا  حصہ ادا کر  نے پر مجبور  کیا۔  ان کا کہنا تھا  کہ امریکا  کیوں یورپ   کی دفاعی ذمے داریاں  مفت میں  پوری  کر ے۔ جب اس قدر قریبی  اتحادیوں سے متعلق ٹرمپ کے ایسے خیالات  ہیں تو اندازہ  لگایا جا سکتا ہے  کہ وہ دوسروں کے بارے میں  کیسے خیالات  رکھتے ہیں  ٹرمپ  نے  صرف  پیسیفک ریجن میں امن  کو ترجیح دی ۔

World War || Nuclear Policy between America, Russia, Chain and Iran || Donald Trump Return to American Senate


امریکا کی پالیسی اور   شمالی کوریا:۔

 کیونکہ اب یہ امریکا  کی قومی پالیسی  ہے کہ اس کی تمام  تر  بر تری اسی علاقے میں  ہو گی۔ اپنے دور میں جسے  وہ فائر اور  فیوری سے  مٹا نے کی دھمکیاں دیتے تھے۔  اسی شمالی کوریا کو لیڈر کم جونگ سے دو مرتبہ ملاقات کر کے جزیرہ نما کوریا کو نیو کلیئر  فری زون کے  طور پر منوایا ۔  جو ان کی ایک بڑی  کامیابی  مانی جاتی ہے۔

تارکین وطن اور ڈونلڈ ٹرمپ :۔

 صدر ٹرمپ  تارکین وطن کے سخت دشمن ہیں اور وہ بار بار کہتے ہیں اگر ان کا  بس چلے تو  وہ انہیں فورا  ملک سے  نکال باہر کریں۔ کیوں کہ  ان کے مطابق  یہ  تارکین وطن امریکی   مفادات  ، خاص طورپر  اس کی معیشت  اور پالیسی نفاذ  کے لیے سخت مشکلات  کا باعث ہیں۔  وہ میڈیا  کی آزادی کے قائل نہیں ہیں جب کہ کئی سوشل میڈیا پلیٹ  فارمز کو امریکا  کا سخت  دشمن گردانتے ہیں جیسے ٹک ٹاک، جو چینی   ہے اور امریکی نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔   اسی طرح وہ  فیس بک  کو بھی امریکا مخالف سمجھتے ہیں ۔

یاد رہے کہ  ایکس ( ٹوئٹر )  کے سابقہ مالک نے تو ان کااکاؤنٹ  ہی بند کر دیا تھا جسے ایلون مسک  نے آکر کھولا ۔  یہاں یہ بھی بتاتے چلیں  کہ امریکا میں آزادی رائے کا بہت  ذکر ہوتا ہے۔  حالاں کہ امریکی  نیشنل  سیکیوریٹی انٹیلی جینس  کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا  گیا کہ چینی حکومت ٹک ٹاک کے ذریعے امریکی  لیڈر شپ سے متعلق  شکوک   وشبہات  پیدا کرتی ہے۔  اور جمہوریت  کو نقصان پہنچاتی ہے رپورٹ  میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک 2022 ء کےضمنی  انتخابات  میں امیدواروں  کو ٹارگٹ کرتی رہی۔ ٹرمپ  ٹک ٹاک اور فیس بک  دونوں کو قومی سلامتی کے لیے تھریٹ قرار دیتے ہیں ہمارے ہاں اگر کچھ دیر کے لیے انٹر نیٹ  بند ہو جائے۔ ٹک ٹاک  یا فیس  بک پر ملک  مخالف پروپیگنڈے  کےخلاف کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس پر ایسا واویلا  مچتا ہے گویا جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ 

امریکا اور  سوشل میڈیا:۔

امریکا  جمہوریت  انسانی   حقوق اور  سوشل میڈ یا کا بانی ہے   مگر وہاں کے صدر  ان معاملات پر کیا رائے رکھتے ہیں اور کیا اقدامات  کرتے ہیں وہ بھی ہمیں جان  لیتے چاہئیں ۔ ویسے صدر جو بائیڈن  بھی سوشل  میڈیا  پر مختلف پابندیوں سے متعلق بل پر دست خط کرنے والے ہیں کیوں کہ کانگریس بھاری اکثریت سےبل منظور کر چکی ہے جس سے یہ  بھی اندازہ لگایا  جا سکتا ہے۔ کہ جب ان کا اپنا  معاملہ ہو تو  کانگریس  کی آزادی  رائے پر کیا سوچ  ہوتی ہے۔ جمہوریت  یا آزادی کے بھا شن تو صرف ہم  جیسے  کمز ور ممالک  کے لیے ہیں۔

پاکستان کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار کون ہیں:۔ 

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ممالک خاص طور پر پاکستان کمزور کیوں ہے جبکہ 1980 سے پہلے پہلے  پاکستان میں بہت بڑی کپڑے ، سوئی ، روئی  آئرن ، اور دیگر بڑے بڑے برینڈ موجود تھے لیکن صرف22 خاندانوں نے  پاکستانی کی تباہی و بربادی میں کوئی قصر نہ چھوڑی ۔ اور آج ملک کی یہ صورت حال  ہےکہ قرضے پر قرضہ مانگ مانگ کر  ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا گیا ہےجبکہ دوسری طرف بعد میں بننے والا  بنگلہ دیش ملک اور  چین ہم سے کافی آ گے گزر چکے ہیں ۔ لیکن یہ بات اس عوام کو  سمجھ نہیں آ رہی  کہ اس ملک کی تباہی و بربادتی کی ذمہ داری صرف اورصرف آج کے موجودہ حکمران نواز خاندان اور  زرداری خاندا ن ہیں۔ جبکہ ان کو کنٹرول کرنے  کے لیے عمران خان نے سخت اقدامات اٹھائے تو ملک کے دیگر اداروں میں جن میں خاص طورپر فوج ملوث ہوئی اور عمران خان کی حکومت کو گرا دیا گیا جو کہ اس ملک کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی و  نا انصافی ہے۔

امریکی مسلمان تارکین اور  ڈونلڈ ٹرمپ :۔

 امریکی مسلمان  تارکین وطن  نے ٹرمپ کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ بلکہ وہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ یہی حال پاکستانی  تارکین  کا ہے۔ لیکن ہم بار ہا بتاچکے ہیں کہ پاکستانی  تارکین وطن کی تعداد بمشکل  پانچ لاکھ  ہے۔ اور ان میں سے بھی اکثریت جس طرح امریکا منتقل ہوئی وہ عمل  قابل رشک نہیں ہے اور  یہ بات  ٹرمپ   جیسے    تارکین وطن کے مخالفین  اچھی طرح جانتے ہیں۔ امریکا  کی انسانی  حقوق کی باتیں  تو دنیا  نے غزہ میں دیکھ لیں  اس لیے نئے منظر نامے میں بہت  پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر   اپنے ملک کی سیاست  تو  وہاں بالکل  بھی نہیں کرنی چاہیے۔ 

امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ء:۔

افغانستان سے امریکی انخلا ء کا کریڈٹ صرف  اور صرف عمران کو جاتا ہے عمران خان کی معاشی و سیاسی پالیسوں کو ملک کو ایک نیا رخ دیا جس بدولت ملک قرضوں سے نجات حاصل کرنے لگا اور ملک  کامیابی کی طرف گامزن ہو گیا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال لیتے ہیں کہ سابقہ وزیر اعظم عمران خان نے  آئی ایم ایف سے 46 ملین  قرض لیا اور اس میں  سے 19 ملین قرض اتار اور اس 19 ملین پر لگا ہوا 6 ملین سود بھی اسی قرض میں سے ادا کیے گئے اور بقیہ بچ جانے والی رقم میں سے آدھے انڈسٹریل ایریا کو دیئے جس میں پاکستان میں تاریخ میں پہلی مرتبہ 33 سال بعد فیصل آباد کی دھاگہ انڈسٹری اور  کپڑے کی انڈسٹری دوبارہ اوپن ہوئی اس کے علاوہ عمران خان کی  کروونا پالیسی نے پوری دنیا میں پاکستان کی تعریف کی ۔

لیکن سازش ، دشمنی اور ذاتی انا  کی بنیاد پر  پاکستان نے ایک ہیرے جیسے لیڈر کو گنوا دیا اگر ٹرمپ کی حکومت دوبارہ آتی ہے  تو پھر چانس ہیں کہ عمران خان صاحب  اقتدار میں دوبارہ انٹری کریں۔ کیونکہ پاکستان میں وہی ہوتا ہے جو امریکا چاہتا ہے۔

بقول جنرل حمید گل صاحب پاکستان میں بننے والے آرمی چیف سے لیکر  صدر اور وزیر اعظم تک  امریکا  کے من پسندیدہ لوگ ہی لگتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment