Gul G Computer

Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Breaking

Monday, April 29, 2024

History of Yahoodi and Bani Israel || Who Owned The land of First Israel or Palestine || History of Palestine

April 29, 2024 0
History of Yahoodi and Bani Israel ||  Who Owned The land of First Israel or Palestine ||  History of Palestine

HISTORY OF YAHOODI AND BANI ISREAIL WHO OWNED THE LAND FIRST ISRAEL OR PALESTINE | HISTORY OF PALESTINE


History of Yahoodi and Bani Isreail

قبل ازیں ہم متعدد مضامین میں قوم بنی اسرائیل اور ان کی روایتی اسلام دشمنی کا تفصیلا ذکر  کر چکے ہیں۔ اب حالیہ اسرائیل، فلسطین جنگ کے تناظر میں قصہ یہود ریاست کے قیام کا "  کے عنوان سےمختلف ادوار مین بنی اسرائیل کی ریاست کی تشکیل  کےحوالے سے ایک مختصر تاریخ پیش خدمت ہے۔

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات :۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جس قدر احسانات کیے،شاید ہی کسی اور قوم کو انعامات و اکرامات کا اتنا  وافر حصہ عنایت فرمایا  ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ:۔  اے بنی اسرائیل ! میری اس نعمت کویاد کرو  جو میں نے تم پرانعام کی اورمیرے  عہد کو پورا  کرو"

( سورۃ البقرہ  40)

 ایک اور جگہ فرمایا:۔

ترجمہ:۔ " اے بنی اسرائیل! میری  اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر بطور انعام کی ، اور میں نے  تمہیں  تمام جہانوں پر فضیلت دی"

(سورۃ البقرہ  47)

 اس آیت  مبارکہ میں ایک انعام یہ بھی یاد دلایا جا رہا ہےکہ ہم نے تمہیں سارے جہانوں پرفضیلت دی تھی۔ یعنی امت  محمدیہ ﷺ سے پہلے "  افضل العالمین" ہونے کی یہ فضیلت  بنی اسرائیل کو حاصل تھی ۔ جو انہوں نے معصیت الہی کا رتکاب کر کے گنوا دی۔ چنانچہ امت محمدیہﷺ کو " خیر امہ" کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان و عمل کی محرومی پر  سلب بھی کر لیے جاتے ہیں۔ جس طرح امت محمدیہ ﷺ کی اکثریت  بدعملیوں کے ارتکاب کی وجہ سے " خیر امہ " کے بجائے شر شرامہ" بنی ہوئی ہے۔ اس کی جیگتی جاگتی مثلا آپ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے لے لیں۔

بنی اسرائیل کی فتح:۔

ابھی بنی اسرائیل وادی تیہ میں قید تھےکہ پہلے حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوااور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام  بھی وفات پا گئے۔تاہم اپنے  انتقال سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے حضرت یو شع بن نون علیہ السلام  کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر  فرما دیا تھا۔ صحرائئے تیہ میں قید  کے چالیس سال پورے ہو ئے ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل  کو ساتھ لے کرارض مقدس  کی جانب جا ؤ اور جہاد کرکے قوم  عمالقہ سے اپنے آبا ؤ اجداد کی سر زمین کو آزاد کرواؤ ۔ ان چالیس  برسوں میں بنی اسرائیل کے بوڑھے مرکھپ گئے۔ جب کہ نئی نوجوان نسل کو اپنےبڑوں  کے جہاد سے انکار کی غلطی اور اس کی پاداش میں قید  کا اھساس تھا۔  پھر بیت المقدس تو ان  کا اپنا وطن تھا ۔ حضرت یوشع کے ساتھ چھے لاکھ سے زیاد ہ نوجوان کی فوج تھی اور وہ سب سے پہلے ارض کنعان کے ہلے  شہر، اریجا کی جانب بڑھے  طویل محاصرے اور  گھمسان  کی جنگ  کےبعد اریجا شہر فتح کیا اور کنعان کے دوسرے شہروں کو فتح  کرتے ہوئے ارض فلسطین  میں داخل ہو گئے اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر تے ہوئے کنعان ، فلسطین اور شام تک کا پورا علاقہ بنی اسرائیل   کے حوالے کر دیا ۔ علامہ ابن کثیر  لکھتے ہیں کہ ان فتوحات  میں  بے شمار مال ودولت ہاتھ آیا۔ بارہ ہزار افراد موت کے گھاٹ اتارے  گئے حضرت یوشع  علیہ السلام نے قوم عمالقہ  سمیت گردو پیش کے اکیس  بادشاہوں پر غلبہ پایا  ۔

(قصص الا نبیاء  ، علامہ ابن کثیر صفحہ 490)

حضرت  شموئیل علیہ السلام  سے حضرت سلیمان  علیہ ا لسلام تک :۔

حضرت یو شع  علیہ السلام  کو اللہ تعالیٰ  نے عظیم  کامیابیوں  سے سرفراز  فرمایا ۔ بنی اسرائیل  پر قبضہ مستحکم ہو گیا اور  وہ امن و سکون سے رہنے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے بعد آپ  27 سال تک بنی اسرائیل کے ساتھ رہے پھر آپ کو 127 سال کی عمر میں اللہ نے واپس بلوالیا۔ حضرت یوشع علیہ السلام   کی وفات  کے بعد  بھی بہت سے انبیاء ، بنی اسرائیل  میں  آئے جن میں حضرت حزقیل علیہ السلام ، حضرت الیاس علیہ السلام ، اور حضڑت  شموئیل  علیہ السلام  زیادہ معروف ہیں۔  لیکن حقیقت میں  حضرت یوشع علیہ السلام  کی وفات کے بعد بنی اسرائیل توحید کی تعلیم فراموش کر بیٹھے ۔ بُتوں کی پوجا سمیت بہت سی نئی بد عتیں ایجاد کر لیں ابنیائے کرام  کے روکنے کے باوجود  کفرو شرک سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ  نے اُن پر  دشمنوں کو مسلط کر دیا ۔ کبھی ان پر قوم عمالقہ قابض  ہو جاتی ۔ کبھی فسلطینی حملہ آور ہو  تے اور  کبھی آرامی ۔ یہ بنی اسرائیل  کے لیے بڑی آزمائش  کا دور تھا۔

یہودیوں کی بر بادی  کی مختصر داستان :۔

حضرت  سلیمان علیہ السلام  کی وفات کے بعد  حسب عادت بنی اسرائیل  ایک بار پھر  پرانی ڈگر پر آ گئے ۔  سر کشی ، کفرو شرک  ، بغض و عناد ، دوبارہ  عود کرآیا۔ اُس دور میں ان لوگوں نے شیطانی  قوتوں سے  جادو سیکھا اور  اس فن میں مہارت حاصل کر لی۔ لیکن پھر جلد ہی ان کی آپس کی رنجشیں اس قدر بڑھ گئیں  کہ ان کی عظیم سلطنت  دو حصوں میں  تقسیم ہو گئیں ۔ 

دونوں  ریاستیں باہم دست و گریباں رہیں ۔ یہاں تک کہ بابل کے بادشاہ، بخت نصر نے پورے ملک کی اینت سے اینٹ  بجا کر ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا۔ بخت نصر  کے انتقال کے بعد ایران   کے بادشاہ سائرس ( خسرو)   نے قبضہ کر لیا اور یہودیوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ پھر 332  قبلِ مسیح میں  سکندر اعظم نے اس علاقے کو یونان  کی سلطنت میں شامل کر لی اور یہودیوں  کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ 65 قبل مسیح میں   رومی افواج  نے بزور ِ طاقت  ایک بار پھر فسلطین پر قبضہ کر کے اسے رومی سلطنت کا حصہ   بنا دیا۔ 70 عیسویٰ میں یہود ایک بار پھر بغاوت کے مرتکب ہو ئے ۔ چنانچہ  اس بغاوت  کو کچلنے  کے لیے  جنرل ٹائٹس  کی زیر کما ن  فو ج  کا ایک بڑا لشکر ارض فسلطین بھیجا گیا  اور انہوں نے بزور ِ شمشیر  پرقبضہ کر لیا ۔جنرل ٹائٹس  نے مشرق سے مغرب تک پورے ملک میں  ہل چلوا د یئے ۔ ہیکل سلیمانی  سمیت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام  کے زمانے  کی ایک ایک  عمارت  مسما ر کر کے ریاست  سے بنی اسرائیل  کی سابقہ تاریخ  کا ہر نام ونشان  مٹا دیا۔  کئی سال تک جنرل ٹائٹس  کی فوج کی  بر بریت اپنے عروج  پر رہی ۔

اس عرصے میں چن چن کے یہودیون کو قتل کیا گیا۔ اس دوران ارض فلسطین سے بنی  اسرائیل  کے عمل  دخل کو مکمل طور پر اس طرح ختم کیا  گیا کہ پھر وہ بیسویں صدی کے  شروع تک یعنی پونے دو ہزار  سال تک جلا وطنی  اور انتشار  کی حالت میں   مارے مارے  پھرتے رہے بعد کے ادوار میں اتنا ضرور  ہوا کہ محدود  تعداد میں  ان  کے لوگوں کو صرف  مقدس دنون میں داخلے کی اجازت  ہو تی تھی ۔ جس میں یہ لوگ  مقدس مقامات کے کھنڈرات کی زیارت کر تے ۔ ان کھنڈرات میں صرف ایک دیوار بچی تھی ۔ چنانچہ  یہودی جب  یہاں آتے  ، تو ماضی کو یاد کر  کے  گریہ وزاری کر تے۔ اس لیے اس دیوار کو " دیوار گریہ" نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دیوار مسجد ِ اقصی  کے باہر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ مسلمان  اسے " دیوار براق " کہتے ہیں۔

روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے شب معراج یہاں  اپنا براق باندھا تھا۔  دیوار ِ گریہ پر آ ہ زاری  کرنےو الے یہودی جب واپس جاتے ہیں تو دوبارہ گناہوں کے کاموں میں مشغول ہو  جاتے ہیں اور  کچھ ایسا ہی حال آج کے مسلمانوں کا بھی ہے۔  دوران حج و عمرہ  حرم شریف میں زارو قطار  روتے  ہیں۔ گناہون کی معافیاں  مانگتے ہیں   دوبارہ گناہ نہ کرنے کے وعدے کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ  معاف بھی کر  دیتا ہے۔ لیکن یہ بنگانِ خدا جب واپس آ تے ہیں  تو دوبارہ گناہوں  کی گٹھری بھر نی شروع کر  دیتے ہیں۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔ بیت المقدس میں

 16 ہجری 647 ء میں مدائن اور انطاکیہ کی فتحکے بعد مسلمان فوجین فلسطین  میں داخل ہو  گئیں اور بیت المقدس میں  قلعہ بند عیسائی افواج  کا محاصرہ کر لیا۔ اپنی یقینی شکست دیکھتے ہوئے  عیسائی فوج کے سالار نے یہ شرط رکھی  کہ ہم خلیفتہ المسلمین  کے آ گے ہتھیار  ڈالیں گے۔  چنانچہ مسلمانونں کے سپہ سالار ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کشت و خون سے بچنے کے  لیے  حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو تفصیلی  خط لکھ  کر بیت المقدس آنے کی درخواست دی ۔ دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے

 سر براہ  جب بیت المقدس کے دروازے پر پہنچے تو   لوگوں نے دیکھا کہ غلام اونٹ پر سوار ہے اور خلیفہ المسلمین  اونٹ کی مہار پکڑے پیدل چل رہے ہیں آپ  کے جسم پر پیوند  لگے کپڑے تھے۔ جو سفر کے دوران  بوسیدہ وہ چکے تھے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی  اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استقبال کیا۔  بیت المقدس کے نگران ، مذہبی پیشوا  نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہر  کی چابیاں دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ اس کے  فوری بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیادہ پا بیت المقدس میں داخل ہو ئے۔ سب سے پہلے  مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ جہاں محراد داؤد  علیہ السلام  کے پاس  نماز شکر ادا  کی اور یہودیوں  کو شہر میں آنے کی اجازت   دی ۔ اس سے پہلے  عیسائیوں نے یہودیوں   سے حد درجہ بغض  کی بنا ءپر  نہ صرف  یہودیوں کو شہر میں داخلے پر پابندی  عائد کر رکھی تھی بلکہ ان کے مقدس  قبضہ الضحرہ  کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک  دیا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے ہاتھوں سے وہاں سے کچرا  صاف کیا ۔

ایک روایت  کے مطابق معراج کی رات  آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مسجدِ اقصٰ  سے آسمانوں کا سفر  اسی چٹان سے  شروع کیا تھا۔ جس پر " قبتہ الصخرہ"  تعمیر  ہے  حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت  سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ  مسجد  ( ہیکل سلیمانی )  کے کھنڈرات  پر فوری طور  پر مسجد  تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ  یہاں سسادہ مستطیل نما لکڑی  کی مسجد  تعمیر ہو  ئی پھر اموی خلیفہ  عبد الملک بن مروان  نے دوبارہ   اس  جگہ پر  ایک شان  دار مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔ جس کی 

تعمیران کے فرزند ، ولید بن عبد الملک کے دور  حکمرانی  میں مکمل ہو ئی۔

who owned the land of


صلیبی جنگوں کا آغاز:۔

مسیحیوں کے روحانی پیشوا ،  پوپ اربن ثانی نے 1095 ء میں مسلمانون کے خلاف صلیبی  جنگوں کا اعلان کر دیا۔  اس ن مذہبی  فریضہ  قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ  القدس  سمیت مسلمانوں  سے دیگر مقدس  مقامات  بزور تلوار چھین لیے جا ئیں  پوپ  کے اس جذبانی  حکم سے مسیحوں   کا مذہبی  جنون عروج پر پہنچ  گیا ۔  صلیب کے نام پر لڑی جانے والی یہ جنگیں " صلیبی جنگوں" کے نام سے مشہور ہوئیں۔  15 جولائی 1099 ء کو عیسائیوں نے القدس پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں  70 ہزار مسلمانوں کو باب دا ؤد علیہ السلام اور  شہر قدس میں قتل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ  شہر کے  گلی کوچے مسلمانوں  کے خون سے  سرخ ہو  چکے تھے۔  مسلح عیسائی  متواتر آٹھ  دن تک مسلمانوں کا قتل  عام  کرتے  رہے ۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کے گھوڑے  ٹخنوں  تک مسلمانوں  کے خون میں ڈوبے  ہوئے تھے۔ یوں فلسطین اور متعلقہ  علاقوں پر  عیسائیوں کا  قبضہ 90  برس  تک رہا۔ 1175 ء میں  سلطان  صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ  نے  مصر میں فاطمی  حکم  رانوں کا تختہ الٹ کر سلطنت  سنبھا لی ۔  اس نے سب سے  پہلے  دنیا کے مسلم ممالک کو متحد کیا۔  جن میں  مصر، شام ، لبنان اور شمالی عراق  ، خا ص طور پر    شامل تھے۔ 1183 ء میں اس نے دمشق کو اپنا  دار الحکومت  بنایا اور  1187 ء میں بیت المقدس  فتح کر لیا۔

1095 ء م سے 1291 ء تک صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔  1187ء سے 1917 ء تک  یعنی 730 سال تک بیت المقدس پر مسلمانوں کی حکم رانی رہی اور  اگر حضرت  عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور خلافت   سے شمار کریں تو فسلطین 637 عیسوی میں آزاد  ہوا تھا۔  اور 1918 ء تک یعنی 1282 سال  تک فلسطین  پر مسلمانوں  کی حکومت رہی  ۔ اس میں مسیحیوں  کی حکم رانی  کے 90 سال بھی شامل ہیں   فلسطین  کے آخری  حکم راں ، عثمانی خلفا ئ  تھے جنہوں نے 1917 ء تک یہاں حکومت  کی۔ جنگ عظیم ِاول  کے دوران 1917 ء میں فلسطین ، سلطنت  برطانیہ کا حصہ بن گیا۔  سلطنت عثمانیہ کے خاتمے میں انگریزوں کے علاوہ  یہودیوں اور عرب مسلمانوں کا بھی بڑا ہاتھ  ہے۔ اور خاص طور پر سلطنت عثمانیہ کوکمزور کرنے میں  عرب ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور یہود کا ساتھ دیتے ہوئے چھپے  راستے اور بعض جگہوں پر سر عام مخالفت کی۔

History of


سلطنت عثمانیہ کے خاتمے میں یہودیوں کا کردار :۔

 ایک عشاریہ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع  ، جنرل موخاز کا  ایکبیان شائع ہوا جس میں   اس نے عراق  سمیت دیگر ممالک کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ " دنیا کی سپر پاور ، سلطنت عثمانیہ  کے خلیفہ  سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ  دینے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ  ہم نے نہ سرف ان کی حکومت ختم  کر دی بلکہ پوری عثمانی  خلافت کا خاتمہ کر یدا۔ اب جو بھی اسرائیل  کی راہ میں مزاحم ہو گا۔ اسے ایسے ہی انجام دے دو چار ہونا پڑے گا۔ "

سلطان عبد الحمید  ثانی  اپنی  یادداشتوں مین تحریر  کرتے ہیں کہ عالمی  یہودی تنظیم کا ایک وفد ان کے پاس آیا اور ان سے فلسطین  میں مستقل طورپر رہائش  کی اجازت مانگی ۔  چوں کہ سلطنت عثمانیہ کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین  میں ایک بڑی  یونیورسٹی قائم کرنے کی پیش کش  کی جس کا مقصد وری  دنیاسے  یہودی سائنس دانوں کو جمع کر  کےسائنس اور ٹیکنالوجی  کے میدان میں بہ ظاہر سلطنت عثمانیہ کو بلند مقام دلانا مقصود تھا۔  سلطان  عبد الحمید  ، یہودیوں کے اس عالمی پلان سے با خبر تھے۔ جس میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل  سلیمانی  کی تعمیر ا ور گریٹر  صیہونی  حکومت  کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر نا مقصود تھا۔  چنانچہ سلطان نے فلسطین  کے علاوہ کسیا ور شہر میں یونیورسٹی قائم کرنے پر آ مادگی کا اظہار کیا۔ کچھ عرصے بعد ایک بار پھر عالمی  صیہونی تنظٰم کے  سنیئر رہنما ، سلطان کی  کی خدمت میں ہوئے اور  پیش کش  کی کہ اگر سلطان یہودیوں کو محدود پیمانے  پر فلسطین میں رہنے کی اجازت عنایت فرمائیں تو  ہم منہ مانگی دولت دینے کو  تیار ہیں ۔  رقم کی بات  سن کر   سلطان  آگ  بگولا ہو گئے  اور انہیں  فوری طور پر محل سے  نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے  آئندہ ملاقات  پر پابندی عا ئد کر دی ۔ سلطان کے  ساتھ اس آخری تلخ  ملاقات کے  بعد صیہونی تنظیم  کے بڑے پیمانے پر  سلطنت عثمانیہ کی مخالفت شروع کر دی ۔ جو جلد ہی دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔

سلطنت عثمانیہ سے مایوسی  کے بعد اب ان کی امید کا مرکز   ومحو بر طانوی سامراج  تھا۔ لیکن چرچ کے پادریوں  سمیت عیسائیوں کی اکثریت  یہودیوں کو  حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی موت کا ذمہ داری  سمجھتی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ ظاہر  ی طورپر یہودی عیسائی مذہب اختیار  کر لینے کےباوجود  بھی اندر سے  یہودی ہی رہتے اور  دنیا پر حکومت  سمیت ایک عظیم یہودی ریاست  کا تصور  ان کے خواب  و خیال میں ہمیشہ  رہتا۔ چنانچہ  ایک یہودی  جب دوسرے یہودی سے جدا ہوتا تو اس کا آخری جملہ یہ ہوتا کہ " اگلے سال ملیں گے یرو شلم میں" گویا ایک طرح سےیہ ان کے  دعائیہ  الفاظ ہو تے ۔ 1890 ء میں فرانس  میں روس کی خفیہ پولیس  کے اہل کار نے یہ دعویٰ کیا کہ یہودی پوری  دنیا پر قبضہ کر نے کی سازش کر رہے ہیں ثبوت کے طورپر عالمی  یہودی  رہنماؤں کی ایک خفیہ  میٹنگ  کے منٹس منظر عام پر لائے گئے۔ جن میں یہودیوں کی جانب سے  پوری دنیا پر قابض ہونے کے منصوبوں کو حتمی  شکل دی گئی تھی ۔ عیسائی تنظمیوں نے اس خبر کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی ۔ جس نے عیسائی دنیا اور یہودیوں کے درمیان نفرت کی خلیج کو مزید وسعت دی۔

 


Sunday, February 25, 2024

شب براءَت کی حقیقت ، شب براءت کہاں سے ثابت ھے؟ اس رات قبرستان جانا، رات میں عبادت کرنا اور دن میں روزہ کہاں لکھا ھوا

February 25, 2024 0
شب براءَت کی حقیقت ، شب براءت کہاں سے ثابت ھے؟ اس رات قبرستان جانا، رات میں عبادت کرنا اور دن میں روزہ کہاں لکھا ھوا

*شب براءت کی حقیقت*



*سوال:* شب براءت کہاں سے ثابت ھے؟ اس رات قبرستان جانا، رات میں عبادت کرنا اور دن میں روزہ کہاں لکھا ھوا ھے؟

الجواب:

*جواب سے قبل یہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ بعض لوگوں کا مقصد فقط الجھنا اور بھولے بھالے مسلمانوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ پہلے تو اولیائے کرام کے مزارات پر جانے، ان سے مدد مانگنے سے منع کیا جاتا ہے، لیکن اب یہ سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں کہ فلاں وقت میں اللہ کی بارگاہ میں سرِ نیاز جھکانا، نوافل ادا کرنا، ذکر اذکار کرنا، اللہ سے مانگنا کہاں سے ثابت ہے....*Description: ‼️

*ان کا مطالبہ کس حد تک درست ہے، ہر ذی شعود سمجھ سکتا ہے۔*

بہرحال ذیل میں چند احادیث و معتبر کتب کے حوالہ جات سے خاص شبِ براءت میں عبادت وغیرہ کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

*شبِ براءت کیا ہے؟*

یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ایک" *شب* "جس کا معنی ہے"رات" اور دوسرا " *براءت* "اس کا معنی ہے "چھٹکارا اور آزادی".

اسے شبِ براءت اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس رات اللہ تعالی بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنم سے چھٹکارا عطا فرماتا ہے۔

(جامع ترمذی/739)

*مغفرت کی رات:*

حدیث میں ھے: إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ فِيهَا الذُّنُوبَ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ

بے شک اللہ تبارک و تعالی 15 شعبان (شب براءت) کی رات کو اپنی شان کے مطابق نزول فرماتا ہے اور تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک کے اور سوائے اس کے کہ جو(ناحق)بغض و کینہ عداوت رکھے

(سنن ابن ماجه، حدیث1390)

*معافی کی اصل:*

واضح ہے کہ بغض و کینہ عداوت و ناراضگی رکھنے والوں کی بخشش نہیں ہوتی اس لیے اس رات یا اس رات سے پہلے پہلے سچی معافی تلافی کی جاتی ہے، لہذا جس سے ناراضی ہو، اس کا حق تلف کیا ھو، اس سے باقاعدہ صلح کی جائے، حقوق ادا کیے جائیں یا معاف کروائے جائیں.

*الحدیث:*

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ

ترجمہ:

بے شک اللہ عزوجل پندرہ شعبان(شب براءت) کی رات کو اپنی شان کے مطابق نزول فرماتا ہے اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے بالوں کی تعداد سے بڑھ کر لوگوں کو بخش دیتا ہے

(سنن الترمذي، حدیث739)

*دعا کی رات:*

فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول: ألا مستغفر فأغفر له؟ ألا مسترزق فأرزقه؟ ألا مبتلى فأعافيه؟ ألا سائل فأعطيه؟ ألا كذا ألا كذا؟ حتى يطلع الفجر

ترجمہ:

بے شک اللہ تبارک و تعالی اپنی شان کے مطابق 15 شعبان(شب براءت) کی رات نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش کے طلب گار کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی رزق کا طلب گار کہ اسے رزق دوں، ہے کوئی تکالیف و مسائل سے دوچار کہ اسے عافیت دوں، ہے کوئی سائل کہ جسے میں عطا کروں،اسی طرح بہت کچھ فرماتا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ھو.

(شعب الإيمان ,5/354)

(سنن ابن ماجه ,1/444)

*شب براءت کو قبرستان جانا:*

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا، تو تلاش میں نکلی، تو

*فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو*

میں نے دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بقیع قبرستان میں ہاتھ اٹھائے دعا فرما رہے تھے..

(پھر فرمایا: نصف شعبان کی اس رات اللہ عزوجل بنی کلب کی بکریوں سے زیادہ کے گناہ بخش دیتا ھے).

(المصنف,6/108حدیث29858)

*شب براءت میں شب بیداری اور دن میں روزہ رکھنا*

الحدیث:

" إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَھا

ترجمہ:

جب پندرہ شعبان(شب براءت) آئے تو اس رات قیام اللیل (رات میں عبادت) کرو اور اس دن کا روزہ رکھو۔

(ابن ماجہ حدیث1388) (شعب الإيمان ,5/354حدیث3542)

حضرتِ اسامہ بن زید کہتے ہیں، میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ معلوم کی،تو فرمایا:«ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين، فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم»

یعنی رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے، لوگ اس سے غافل ہیں،اس میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالی کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے پسند ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔

(سننِ نسائی/2357)

*شرح حدیث:*

ليلة نصف شعبان روي في فضلها من الأخبار والآثار ما يقتضي أنها مفضلة ومن السلف من خصها بالصلاة فيها وصوم۔۔۔ ترجمہ: 15 شعبان یعنی شب براءت کی فضیلت کے متعلق احادیث وغیرہ وارد ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس رات کی بڑی فضیلت ہے اسی لیے اسلاف اس رات نوافل پڑھتے تھے روزہ رکھتے تھے

[فيض القدير ,2/316]

*فقہ حنفی سے چند حوالہ جات:*

النصف من شعبان لإحيائها وعظم شأنها

ترجمہ:

پندرہ شعبان کی رات یعنی شب براءت کو شب بیداری کرنا مستحب و ثواب ہے، کیونکہ اس رات کی بڑی شان ہے

(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص48)

.

وَمِنْ الْمَنْدُوبَاتِ إحْيَاءُ لَيَالِي الْعَشْرِ مِنْ رَمَضَانَ وَلَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ وَلَيَالِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ كَمَا وَرَدَتْ بِهِ الْأَحَادِيثُ وَذَكَرَهَا فِي التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ مُفَصَّلَةً وَالْمُرَادُ بِإِحْيَاءِ اللَّيْلِ قِيَامُهُ

رمضان شریف کی آخری دس راتیں اور عیدین کی راتیں اور عشرہ ذوالحجہ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی راتیں ، ان راتوں کو شب بیداری کرنا ثواب ہے۔۔۔شب بیداری سے مراد یہ ہے کہ عبادات نیکیوں وغیرہ کے ساتھ رات گزاری جائے

(الرائق شرح كنز الدقائق ,2/56)

.

وَإِحْيَاءُ لَيْلَةِ الْعِيدَيْنِ، وَالنِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَالْعَشْرِ الْأَخِيرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَالْأُوَلُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَكُونُ بِكُلِّ عِبَادَةٍ تَعُمُّ اللَّيْلَ أَوْ أَكْثَرَهُ.

عیدوں کی راتوں کو اور نصف شعبان کی رات یعنی شب براءت کو اور رمضان کی آخری عشرہ کو اور ذوالحج کے پہلے عشرہ کو شب بیداری کرنا مستحب و ثواب ہے... شب داری سے مراد یہ ہے کہ پوری رات عبادت کی جائے یا اکثر رات عبادت کی جائے

(رد المحتار فتاوی شامی ,2/25)

.

وليلة النصف من شعبان، ولا خفاء أنه يكون في كل عبادة تستوعب الليل أو أكثره

15 شعبان یعنی شب براءت کو شب بیداری کرنا جائز ثواب ہے یعنی ساری رات یا اکثر رات کا حصہ نیکیوں میں عبادات میں گزارا جائے

(النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,1/297)

*اللہ کریم سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین*

 

History of Shab-e-Barat Aur Nawafal || Complete History of Shabebarat

February 25, 2024 0
History of Shab-e-Barat Aur Nawafal || Complete History of Shabebarat

History of Shab-e-Barat Aur Nawafal || Complete History of Shabebarat

 

شب برات توبہ کا دروازہ اور گناہوں کا کفارہ

ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اسے بخش دیا جائے۔۔۔

ارشاد ربانی ہے :۔

"حمٰ ، اس  روشن کتاب کی قسم ، بے شک، ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ، بےشک ہم ڈر سنانے والے ہیں  اس ( رات ) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہےہماری بار گاہ کے حکم سے ،بےشک ، ہم  ہی بھیجنے والےہیں ۔ (یہ) آپ کے رب کی جانب سے رحمت ہے۔ بے شک وہ  خوب سننے والا خواب جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا  اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ( اس کا) پرو ردگار ہے۔ بشرط یہ کہ تم یقین رکھنے والے ہو، اس کے  سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندگی دیتا اور موت دیتا ہے( وہ) تمہارا ( بھی) رب ہے اور تمہارے آ باؤ اجداد  کا (بھی) رب ہے"

حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا شعبان شھری و رمضان شھر اللہ ( شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ) مزید فرمایا کہ جو شعبان میں اچھی تیاری کرے گا۔ اس کا رمضان اچھا گزرے گا اور وہ ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں سےلطف اندواز اور بہرہ مند ہو گا۔ شعبان المعظم با برکت و با سعادت اور حرمت و تعظیم والا مہینہ ہے لیکن اس مہینے کو بطور خاص  کچھ فضیلتیں امتیازات اور شرف عطا کئے گئے یہ مہینہ  " شہر التوبہ" بھی کہلاتا ہے۔ اسلیےکہ توبہ کی قبولیت اس ماہ میں بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں پر برکتوں کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔

اس لیے یہ ماہِ مبارک اس کا حقدار ہےکہ دیگر مہینوں سےبڑھ کر اس میں اللہ کی اطاعت و عبادت اختیار کی جائے۔ بزر گان دین نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی جان کو اس مہینے میں ریاضت و محنت پر تیار کرلیں گے۔ وہ ماہِ رمضان المبارک کی جملہ برکتوں اور سعادتوں کو کامیابی کےساتھ حاصل کر یں گے۔ اس بناء پر حضور پر نور ﷺ ماہ رمضان کےبعد سال کے بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزے اس ماہ رکھتے تھے۔ اس ماہ کی ایک  امتیازی خصوصیت پندرہ ہویں شعبان المعظم کی رات ہے اسے اللہ نے " لیلئہ مبارکہ " برکت والی رات کہا ہے۔ علماء ، مشائخ ، مفسرین کی اکثریت کا نقطہ نظریہ ہے کہ شب قدر کے بعد سال کے بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ افضل شب براءَت ہے۔

ارشاد فرمایا:

"اس ( رات ) میں ہر حکمت والے کا م کا ( جدا جدا ) فیصلہ کر دیا جاتا ہے"

یعنی تمام حکمت والے ،فیصلہ کن، نافذ العمل ہونے والے امور کی تنفیذ کا فیصلہ اس رات کیا جاتا ہے۔ حضرت عطاء بن یساررحمتہ اللہ علیہ  سے روایت ہےکہ حضور پر نور ﷺ نے فرمایا ۔ جب پندرہویں شعبان کی رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت کو اگلے سال کے لیے موت و حیات کے امور نفاظ و اجرا ء کے لیے سپر د فرمادیتا ہے"

حضور پر نور ﷺ  نے فرمایا " کچھ لوگ ایسے ہیں کہ پندرہویں شعبان المعظم کی رات بھی اپنے ظلم میں مصروف ہو تے ہیں یا ظلم و ستم ڈھانے کے لیے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کا نام مرنے والوں کی فہرست میں آچکا ہوتا ہے۔ "

غرض افراد ایسے منصوبوں میں مصروف ہوتے ہیں جن کےنتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں حالانکہ اس اگلے سال میں ان کی موت لکھ دی جاتی ہے۔ یعنی ہر امر الہی نفاذ کے لیےسپرد کر دیا جاتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :۔ شعبان  کو شعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے لیے اس  سے خیر کثیر پھوٹ کر نکلتی ہیں۔

ام المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کا محبوب ترین مہینہ شعبان کا تھا ۔ آپ ﷺ اس ماہِ مبارک کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے نفل روزوں سے متعلق دریافت کیا گیا تو رحمت دو عالم ﷺ نے فرمایا : رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کے روزے رکھنا، شعبان محبوب رب جلیل کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ  نے اس مہینے کی ایک شب کو " شب برات" قرار دیا  اور گناہوں سے چھٹکارے کی رات  کے ساتھ اس شب کو نزول عطائے رب بھی بنا دیا ۔



" شعبان المعظم" کی پندرہویں شب کو " شب برات" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی با برکت ، قدرو منزلت اور فضیلت والی رات ہے۔ طبرانی اور  ابن حبان  نے حضرت معاذ  بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ۔ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے اس میں اللہ تعالیٰ جہنم  سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے۔ جتنے قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کےبال ہیں۔، مگر اللہ تعالیٰ مشرک ، عداوت والے  ، رشتہ توڑنے والے، والدین کی نافرمانی  کرنے والے اور شراب پینے والے کی طرف نظر رحمت نہیں  فرماتا ۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں مذکورہ ہے کہ شعبان کے دنوں میں روزے رکھنے کا ثواب یہ ہے کہ آتش دوز اس کے بدن پر حرام ہوتی ہے آج وہ مبارک شب ہے جسے شب برات اور شب رحمت و نصرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کے متعلق قرآن حکیم اعلان فرماتا ہے اس روشن کتاب کی قسم ، ہم نے  اسے برکت والی رات میں اتارا ، ہم ڈر سنا نے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔

(سورہ دخان )

 بعض مفسریں کرام کے نزدیک لیلئہ مبارکہ سے شب برا ت مراد ہے جس میں خدا وند ذوالجلال کی مخصوص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں انعام و اکرام کی بار ش ہوتی ہے۔ تمام وہ امور جو آئندہ سال ہونے والے ہیں ہر محکمے سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کو تفویض کر دیے جاتے ہیں اس شب کی برکات میں سب سے نفیس ترین برکب رب تعالیٰ کا جمال ہے۔ جو عرش سے تحت الثریٰ تک اپنے عموم فیض سے ہر ذرے کو نوازتا ہے۔ ربانی تجلیات فاور ایزدی  فیوض و برکات  متوجہ ہوتی ہے۔ انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے اور وہ پاک بے نیاز آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زائد افراد امت کی بخشش ہوتی ہے۔

(ابن ماجہ )

 اسی شب حضرت جبرائیل  علیہ السلام بحکم رب جنت میں جاتےہ یں اور رب العزت کا یہ حکم سناتے ہیں کہ جنت کو آراستہ کر دیا جائے اور غلامان مصطفیٰ ﷺ کے لیے اسے خوب سجایا جائے ۔ کیوں کہ اس مقدس شب میں اللہ تعالیٰ آسمان کے ستاروں کے شمار اور دنیا کے روز شب کی مقدار درختوں کے پتوں  کی گنتی اور پہاڑوں کے وزن کے برابر اور ریت کے ذروں کے موافق بندوں کو  دوزخ سے آزاد فرمائے گا۔

(ما ثبت بالسنہ)

اس شب اُمت کی مغفرت ہوتی ہے سائلوں کو عطا کیا جاتا ہے، گناہ معاف ہوتے ہیں۔ توجہ قبل ہوتی ہے اور رب العزت اپنی مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے اور ان کے درجے بلند کرتا ہے سب کو اپنی آغوش رحمت میں لیتا ہے۔

اللہ کا مقرب بننے کے لیے ضروری ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کیے جائیں ۔ چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے بصدق دل توبہ کی جائے۔ ماں با پ اگر نا راض ہوں تو ان کے قدموں میں پڑ کر معافی مانگی جائے ۔ مسلمان آپس میں گلے ملیں اور دنیوی رنجشوں اور عداوتوں کو ختم کر دیں، تاکہ اس شب کا برکات و  حسنات سے مالا پامال ہوں۔


History of shab-e-barat Nawafal in Urdu

February 25, 2024 0
History of shab-e-barat  Nawafal in Urdu

shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

 

شعبان المعظم کے نوافل

شعبان المعظم  اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ جو خاص انفرادیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ رسول رحمت  ﷺ نے شعبان المعظم کو اپنا  مہینہ قرار دیا ہے اس لیے اس مبارک مہینے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شعبان المعظم کی 15ویں شب کومغفرت اور بخشش کی رات قرار دیا گیا۔ اسی رات آئندہ سال کے لیے زندگی اور موت  کے فیصلے لکھے جاتے ہیں اس رات کی خصوصی فضیلت کے باعث اسے شب برات کہا گیا ہے شب برات کی فضیلت  کے بارے میں تفصیلات قارئین کرام کے لیے پیش خدمت ہے۔

پندرہویں شب تجلی:۔

ام المو منین  حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ تاج دارِ رسالت ، سراپا رحمت ﷺ نے فرمایا  :اللہ عزوجل شعبان کی 15 وین شب میں تجلی فرماتا ہے استغفار یعنی توبہ کرنے والوں کو بخش دیتا اور طالب رحمت پر رحم فرماتا اور عداوت  والوں کو جس حالت میں ہیں اسی پر چھوڑ دیا ہے۔

(شعب الایمان جلد 3)

عداوت کرنے والے کی شامت:۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ سلطان مدینہ ﷺ فرماتے ہیں شعبان کی 15 وین شب میں اللہ عزوجل تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا اور اسے بخش دیتا ہے مگر کافر اور عداوت والے کو نہیں بخشتا ۔

شب برات میں  محروم رہنے والے افراد:۔

 سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے حضور سراپا  نور ﷺ نے فرمایا  میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ یہ شعبان کی 15 ویں رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنوں کو آزاد  فرماتا ہے۔ جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافر اور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور ( تکبر کے ساتھ ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نا فرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر نہیں فرماتا ۔

شب برات میں جو چاہو ، مانگ لو:۔

امیر المو منین حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے نبی پاک صاحب  لولاک ﷺ فرماتے ہیں جب شعبان کی 15 وین رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ رب تبارک وتعالیٰ  غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ اسے بخش دوں ، ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی دوں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اُسے عافیت بخشوں ! ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا اور یہ طلوع فجر تک فرماتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ)

شب برات کی تعظیم:۔

شامی تابعین علیہم الرضوان شب برات کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادات بجالاتے ، انہی سے  دیگر مسلمانوں نے اس رات کی تعظیم سیکھی ۔ بعض علمائے کرام شام  نے فرمایا ۔ شب برات میں مسجد کے اندر اجتماعی  عبادت کرنا مستحب ہے۔ حضرت خالد و لقمان اور دیگر تابعین کرام علیہم الرضوان اس رات ( کی تعظیم کے لیے ) بہترین کپڑے زیب تن فرماتے ، سرمہ اور خوشبو لگاتے ، مسجد میں نفل نمازیں ادا فرماتے ۔

بھلائیوں والی راتیں:۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئےسنا ، اللہ تعالیٰ ( خاص طور پر ) چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔

1۔ بقر عید کی رات

2۔ عید الفطر کی رات

3۔ شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور ( اس سال) حج کرنے والوں کےنام لکھے جاتے ہیں۔

4۔ عرفہ کی ( یعنی 8 اور 9 ذوالحجہ کی درمیانی ) رات

سال بھر کے معاملات کی تقسیم:۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں " ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ مُردوں میں اٹھایا ہوا ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الدخان کی آیت 3 اور 4 تلاوت کی ۔

"بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اُتارا ، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ، اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے"

(کنز الایمان)

مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ

مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ  مذکورہ آیاتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں۔ اس رات سے مراد یا شب  قدر ہے ستائیسویں رات یا شب معراج یا شب برات شعبان کی پندرہویں رات ، لیلتہ القدر میں پورا قرآن لوح محفوظ سے دنیاوی آسمان کی طرف اُتار ا گیا، پھر وہاں سے تئیس سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا حضور پر نور ﷺ پر اُترا ۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس رات قرآن اُترا وہ مبارک ہے تو جس رات میں صاحب قرآن ﷺ دنیا میں تشریف لائے وہ بھی مبارک ہے اس رات میں سال بھر کے رزو، موت ، زندگی ، عزت و ذلت ، غرض تمام انتظامی امور لوح محفوظ سے فرشتوں کے صحیفوں میں نقل کرکےہر صحیفہ اس محکمے کے فرشتوں کو دے دیا جاتا ہے۔ جیسے ملک الموت کو تمام مرنے والوں فہرست وغیرہ ۔

(نور العرفان ص 790)

نازک فیصلے :۔

شعبان المعظم  کی 15 ویں رات کتنی نازک ہے! نہ جانے قسمت میں کیا لکھ دیا جائے ۔ آہ ! بعض اوقات بندہ غفلت میں پڑا رہ جاتا ہے اور اُس کے بارے میں کچھ کا کچھ ہو چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ غنیتہ الطالبین میں ہے۔ بہت سے لوگوں کے کفن دُ ھل کر تیار ہوتے ہیں مگر کفن  پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں متعدد افراد ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہو تی ہیں مگر اُن میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں کئی لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ اُن کی ہلاکت کا وقت قریب آ چکا ہوتا ہے۔ نہ نجانے کتنے ہی مکانات کی تعمیرات مکملک ہونے والی ہوتی  ہے مگر مالک مکان کی موت کا وقت بھی قریب آ چکا ہوتا ہے۔

قابلِ توجہ:۔

شب برات میں اعمال اٹھائے جاتےہیں لہٰذا ممکن ہوتو چودہویں شعبان المعظم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے اور اس دن عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے ٹھہرا جائے تاکہ  اعمال اٹھائے جانے والی رات آنے سےپہلے  کے لمحات میں روزہ ، مسجد کی حاضری اور اعتکاف وغیرہ لکھا جائے اور شب برات کا آغاز مسجد کی رحمت بھری فضاؤں میں ہو۔

الحمد اللہ ( راقم الحروف) کا سالہا سال سے شب برات میں چھ نوافل و تلاوت وغیرہ کا معمول ہے ( رسالہ آقا کا مہینہ  کے صفحہ 16 پر ملاحظہ فرمائیں ) مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عبادت نفلی ہے فرض و واجب نہیں اور نماز مغرب کے بعد نوافل و تلاوت کی شریعت میں کہیں ممانعت بھی نہیں ممکن ہو تو تمام اسلامی بھائی اپنی اپنی مساجد میں بعد مغرب چھ نوافل وغیرہ کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں اسلامی بہنیں اپنے اپنے گھر میں یہ نوافل ادا فرمائیں۔

نوافل پڑھنے کا طریقہ:۔

اولیائے کرام رحمتہ اللہ علیہم کے معمولات سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد 6 رکعت نفل دو، دو رکعت کر کے ادا کئے جائیں۔

  • ۔ 2 رکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے۔ یا اللہ پاک ! ان و رکعتوں کی برکت سے مجھے درازی عمر بالخیر عطا فرما
  • ۔ 2 درکعتوں سے پہلے یہ نیت فرما ئیے۔ یا اللہ پاک ! ان 2 رکعتوں کی برکت سےبلاؤں سےمیری حفاظت فرما
  • ۔ 2 رکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے  یا اللہ پاک ان 2 رکعتوں کی برکتسے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر

 ان 6 رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد جو چاہیں وہ سورتیں پڑھ سکتی ہیں چاہیں تو ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد 3 بار سورۃ الاخلاص پڑھ لیجئے۔ ہر 2 رکعت کے21 بار "قُل ھُوَا للہُ اَحَد (پوری سورت) یا ایک بار سورہ یٰس شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے ۔ ہر بار یٰس شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھیے ۔

اللہ پاک اسکے پاس 100  فرشتے بھیجے گا۔ 30 فرشتے اسے جنت کی بشارت دیں گے۔ 30 فرشتے اسے عذاب سے بچائیں گے 30 فرشتے اس سے دنیوی آفات دور کریں گے اور باقی 10 فرشتے اسے شیطان کے مکرو فریب سےبچائیں گے۔

علامہ ضیاء الدین  دیرینی رحمتہ اللہ علیہ انہی 100 نوافل کے متعلق فرماتے ہیں

اللہ پاک کے نیک بندے شب براءَت میں 100 رکعت نماز اس طرح ادا کرتے تھے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد 10 مرتبہ سورۃ اخلاص ( قل ھو اللہ احد) پڑھتے ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ  علیہ فرماتے مجھے 30 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے حدیث بیان فرمائی کہ جس نے یہ نماز پڑھی ، اللہ پاک اس کی طرف 70 مرتبہ نگاہِ کرم فرماتا ہے۔ اور ہر نگاہِ کرم کے بدلے اس کی 70 حاجات پوری فرماتا ہے ان میں سےایک حاجت یہ ہے کہ اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔

(طہارۃ القلوب ص 136)

صلوٰ ۃُالتسبیح پڑھنے کا طریقہ :۔

حضرت علامہ علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بہتر یہ ہے کہ شب براءَت میں صلوٰ ۃ والتسبیح بھی ادا کی جائے ۔ صلوٰ ۃ التسبیح  بہت فضیلت والی نماز ہے۔

ابو داؤد شریف کی حدیث پاک میں ہے نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا جان حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ  کو صلوٰ ۃ التسبیح سکھائی اور فرمایا: چچا جان ! اگر آپ روزانہ یہ نماز ادا کر سکیں تو ضرور کریں اگر ہر روز نہ ہو سکے تو ہر جمعہ کو ، ایسا بھی نہ کرپائین تو ہر مہینے ، یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک مرتبہ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور صلوٰ ۃ التسبیح ادا کریں۔

shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

February 25, 2024 0
shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

shab-e-barat

 

ماہ ِ شعبان کی پندرہویں شب  فضیلت

اس رات رحمتون کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں

برکتوں کا نزول ہوتا ہے خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے

  1. شعبان کی پندرہویں شب کو عام  بول چال میں "شب برات" کہا جاتا ہے یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں  سے بری کر دیا جاتا ہے اس رات کے بعض فضائل و برکات نبی کریم ﷺ سے منقول ہیں پہلے ہم اس سلسلے کی روایات نفل کرتے ہیں اورپھر ان روایات کی روشنی میں اس شب کے اعمال کا تذکرہ کریں گے۔
  2. ترمذی شریف  میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات  میں نے رسول ﷺ کو نہ پایا تو آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی ۔ آپ ﷺ جنت البقیع مین تھے آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبا کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے اور بنو کلب کی بکریون کے بالوں  سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں"
  3. یعنی شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ ل شانہ کی رحمت کاملہ کا فیضان اس  بیکراں طور پر ہوتا ہے کہ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے ریوڑ  کے جتنے بال  ہیں اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دیئے جا تے ہیں ۔ لہٰذا یہ وقت چونکہ برکات ربانی اور تجلیات رحمانی کے اترنےکا ہے اس لیے میں نے چاہا کہ ایسے بابرکت  اور مقدس  وقت میں اپنی امت کے لوگوں کی بخشش کی دعا کروں ۔ چنانچہ میں اپنے پروردگار سے مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہو گیا۔
  4. اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں  ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی  عنہا سےمنقول ہےکہ سرکار دو عالم ﷺ نے (مجھ سے فرمایا ) " کیا تم  جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نےع رض کیا " یا رسول اللہ ﷺ (مجھے تو معلوم نہیں آپ ہی بتا ئیے کہ ) کیا ہوتا ہے؟
  5. آپ ﷺ نے فرمایا  بنی آ دم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے ۔  اس رات کو اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس مرنے والا ہوتا ہے۔ اس رات  میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اس رات بندوں کے اعمال ( اوپر ) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات بندوں کے رزق اترتے ہیں۔ نیز سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں صحابی رسول حضرت ابو موسیٰ  اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا  : اللہ جل شانہ ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برات ) کو دنیا  والوں کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور مشرک اور کینہ  رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے ۔
  6. حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  اس با برکت اور مقدس رات کو اپنی رحمت کا ملہ کے ساتھ دنیا والوں پر متوجہ ہوتا ہے  تو اس کا دریائے رحمت اتنے جوش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو بھی معاف کر دیتا ہے۔ اپنی بندگی و عبادت اور اطاعت و فرماں بر داری میں سر زد ہوئی کو تاہیوں اور لغزشوں سے در گزر فرماتا ہے۔ مگر کفرو شرک کو معاف نہیں فرماتا اور ان کے معاملے میں اتنی مہلت دیتا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے اور اگر توبہ نہ کریں اور اپنی بد اعتقادی اور بد عملی سے باز نہ آئیں تو انہیں عذات میں مبتلا کیا جائے گا۔

سنن ابن ماجہ  کی ایک روایت  میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ  نے فرمایا

"جب نصف شعبا کی رات ہو(یعنی شب برات) تو اس رات  کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں ( یعنی پندرہویں شب کو ) روزہ رکھو ۔، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات آفتاب چھپنے کے وقت آ سمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے ) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہے کہ

  •  آ گاہ رہو  !( ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اسے بخشوں؟)
  • آ گاہ رہو ! ( ہے کوئی روز مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟)
  • آ گاہ رہو ! (ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟)
  • آ گاہ رہو ! ( ہے کوئی ایسا اور ایسا یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے ندوں کو پکارتا رہتا ہے؟)

مثلا فرماتا ہے کہ

  1. (کوئی مانگنے والا ہےکہ میں اسے عطا کروں؟ )
  2. (ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟)وغیرہ وغیرہ  

یہاں تک کہ فجر طلوح ہو جاتی ہے ان تمام احادیث کریمہ نیز صحابہ کرام اور بزرگان دین کے عمل سےیہ  ہوتا ہے کہ اس رات میں مندرجہ ذیل تین کام کرنے کے ہیں۔

1۔ مرحومین کے لیے ایصال ثواب اور بخشش کی دعا کرنا ۔

یا  د رہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوری حیات مبارکہ میں سرف ایک بار شب بارت میں جنت البقیع جانا ثابت ہے ۔ اس لیے اگر کوئی شخص زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی اتباع سنت پوری جو جائے گی اور اجرو ثواب حاصل ہوگا۔ جو چیز نبی کریم ﷺ سے جس درجے میں ثابت ہے اسے اسی درجے میں رکھنا چاہیے اس کا نام اتباع اور دین ہے۔

2۔ اس رات میں نوافل ، تلاوت اور ذکر و اذکار کا اہتمام  کرنا

اس بارے میں یہ واضح رے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی اور خلوت مطلوب ہے اسکے ذریعے  انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھر میں ادا کرکے اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔ نوافل کی جماعت اور مخصوص طریقہ اپنانا ثابت نہیں ہے ۔ یہ فضیلت والی راتیں شورو شغب ، میلے اور اجتماع منعقد کرنےاور دنیاوی باتوں میں گزارنے والی نہیں بلکہ مساجد کو آباد کرنے اور محافل کا انعقاد کرنے یا پھر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ سے تعلق استوار کرنے کے قیمتی لمحات ہیں انہیں ضائع ہونے سے بچائیں۔

3۔ دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے۔

ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم ﷺ ہر ماہ ایام بیض ( یعنی تیرہ ، چودہ ، پندرہ تاریخ ) کے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔ لہٰذا  اس نیت سے روزہ رکھا جائے تو موجب اجرو ثواب ہوگا۔ باقی اس رات میں پٹاخے پھوڑنا ، آتش بازی کرنا یہ سب گناہ کےکام ہیں۔

شیطان ا  ن فضولیات میں انسان کو مشغول کر کےاللہ کی مغفرت اور عبادت سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔ اور یہی شیطان کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برات کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں اور عبادت و بندگی کا مخلصانہ نذرانہ پرورگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کے ان بندوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں جن کی مبارک رات میں مغفرت کر دی جا تی ہے۔