History of Yahoodi and Bani Israel || Who Owned The land of First Israel or Palestine || History of Palestine - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Monday, April 29, 2024

History of Yahoodi and Bani Israel || Who Owned The land of First Israel or Palestine || History of Palestine

HISTORY OF YAHOODI AND BANI ISREAIL WHO OWNED THE LAND FIRST ISRAEL OR PALESTINE | HISTORY OF PALESTINE


History of Yahoodi and Bani Isreail

قبل ازیں ہم متعدد مضامین میں قوم بنی اسرائیل اور ان کی روایتی اسلام دشمنی کا تفصیلا ذکر  کر چکے ہیں۔ اب حالیہ اسرائیل، فلسطین جنگ کے تناظر میں قصہ یہود ریاست کے قیام کا "  کے عنوان سےمختلف ادوار مین بنی اسرائیل کی ریاست کی تشکیل  کےحوالے سے ایک مختصر تاریخ پیش خدمت ہے۔

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات :۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جس قدر احسانات کیے،شاید ہی کسی اور قوم کو انعامات و اکرامات کا اتنا  وافر حصہ عنایت فرمایا  ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ:۔  اے بنی اسرائیل ! میری اس نعمت کویاد کرو  جو میں نے تم پرانعام کی اورمیرے  عہد کو پورا  کرو"

( سورۃ البقرہ  40)

 ایک اور جگہ فرمایا:۔

ترجمہ:۔ " اے بنی اسرائیل! میری  اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر بطور انعام کی ، اور میں نے  تمہیں  تمام جہانوں پر فضیلت دی"

(سورۃ البقرہ  47)

 اس آیت  مبارکہ میں ایک انعام یہ بھی یاد دلایا جا رہا ہےکہ ہم نے تمہیں سارے جہانوں پرفضیلت دی تھی۔ یعنی امت  محمدیہ ﷺ سے پہلے "  افضل العالمین" ہونے کی یہ فضیلت  بنی اسرائیل کو حاصل تھی ۔ جو انہوں نے معصیت الہی کا رتکاب کر کے گنوا دی۔ چنانچہ امت محمدیہﷺ کو " خیر امہ" کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان و عمل کی محرومی پر  سلب بھی کر لیے جاتے ہیں۔ جس طرح امت محمدیہ ﷺ کی اکثریت  بدعملیوں کے ارتکاب کی وجہ سے " خیر امہ " کے بجائے شر شرامہ" بنی ہوئی ہے۔ اس کی جیگتی جاگتی مثلا آپ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے لے لیں۔

بنی اسرائیل کی فتح:۔

ابھی بنی اسرائیل وادی تیہ میں قید تھےکہ پہلے حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوااور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام  بھی وفات پا گئے۔تاہم اپنے  انتقال سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے حضرت یو شع بن نون علیہ السلام  کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر  فرما دیا تھا۔ صحرائئے تیہ میں قید  کے چالیس سال پورے ہو ئے ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل  کو ساتھ لے کرارض مقدس  کی جانب جا ؤ اور جہاد کرکے قوم  عمالقہ سے اپنے آبا ؤ اجداد کی سر زمین کو آزاد کرواؤ ۔ ان چالیس  برسوں میں بنی اسرائیل کے بوڑھے مرکھپ گئے۔ جب کہ نئی نوجوان نسل کو اپنےبڑوں  کے جہاد سے انکار کی غلطی اور اس کی پاداش میں قید  کا اھساس تھا۔  پھر بیت المقدس تو ان  کا اپنا وطن تھا ۔ حضرت یوشع کے ساتھ چھے لاکھ سے زیاد ہ نوجوان کی فوج تھی اور وہ سب سے پہلے ارض کنعان کے ہلے  شہر، اریجا کی جانب بڑھے  طویل محاصرے اور  گھمسان  کی جنگ  کےبعد اریجا شہر فتح کیا اور کنعان کے دوسرے شہروں کو فتح  کرتے ہوئے ارض فلسطین  میں داخل ہو گئے اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر تے ہوئے کنعان ، فلسطین اور شام تک کا پورا علاقہ بنی اسرائیل   کے حوالے کر دیا ۔ علامہ ابن کثیر  لکھتے ہیں کہ ان فتوحات  میں  بے شمار مال ودولت ہاتھ آیا۔ بارہ ہزار افراد موت کے گھاٹ اتارے  گئے حضرت یوشع  علیہ السلام نے قوم عمالقہ  سمیت گردو پیش کے اکیس  بادشاہوں پر غلبہ پایا  ۔

(قصص الا نبیاء  ، علامہ ابن کثیر صفحہ 490)

حضرت  شموئیل علیہ السلام  سے حضرت سلیمان  علیہ ا لسلام تک :۔

حضرت یو شع  علیہ السلام  کو اللہ تعالیٰ  نے عظیم  کامیابیوں  سے سرفراز  فرمایا ۔ بنی اسرائیل  پر قبضہ مستحکم ہو گیا اور  وہ امن و سکون سے رہنے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے بعد آپ  27 سال تک بنی اسرائیل کے ساتھ رہے پھر آپ کو 127 سال کی عمر میں اللہ نے واپس بلوالیا۔ حضرت یوشع علیہ السلام   کی وفات  کے بعد  بھی بہت سے انبیاء ، بنی اسرائیل  میں  آئے جن میں حضرت حزقیل علیہ السلام ، حضرت الیاس علیہ السلام ، اور حضڑت  شموئیل  علیہ السلام  زیادہ معروف ہیں۔  لیکن حقیقت میں  حضرت یوشع علیہ السلام  کی وفات کے بعد بنی اسرائیل توحید کی تعلیم فراموش کر بیٹھے ۔ بُتوں کی پوجا سمیت بہت سی نئی بد عتیں ایجاد کر لیں ابنیائے کرام  کے روکنے کے باوجود  کفرو شرک سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ  نے اُن پر  دشمنوں کو مسلط کر دیا ۔ کبھی ان پر قوم عمالقہ قابض  ہو جاتی ۔ کبھی فسلطینی حملہ آور ہو  تے اور  کبھی آرامی ۔ یہ بنی اسرائیل  کے لیے بڑی آزمائش  کا دور تھا۔

یہودیوں کی بر بادی  کی مختصر داستان :۔

حضرت  سلیمان علیہ السلام  کی وفات کے بعد  حسب عادت بنی اسرائیل  ایک بار پھر  پرانی ڈگر پر آ گئے ۔  سر کشی ، کفرو شرک  ، بغض و عناد ، دوبارہ  عود کرآیا۔ اُس دور میں ان لوگوں نے شیطانی  قوتوں سے  جادو سیکھا اور  اس فن میں مہارت حاصل کر لی۔ لیکن پھر جلد ہی ان کی آپس کی رنجشیں اس قدر بڑھ گئیں  کہ ان کی عظیم سلطنت  دو حصوں میں  تقسیم ہو گئیں ۔ 

دونوں  ریاستیں باہم دست و گریباں رہیں ۔ یہاں تک کہ بابل کے بادشاہ، بخت نصر نے پورے ملک کی اینت سے اینٹ  بجا کر ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا۔ بخت نصر  کے انتقال کے بعد ایران   کے بادشاہ سائرس ( خسرو)   نے قبضہ کر لیا اور یہودیوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ پھر 332  قبلِ مسیح میں  سکندر اعظم نے اس علاقے کو یونان  کی سلطنت میں شامل کر لی اور یہودیوں  کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ 65 قبل مسیح میں   رومی افواج  نے بزور ِ طاقت  ایک بار پھر فسلطین پر قبضہ کر کے اسے رومی سلطنت کا حصہ   بنا دیا۔ 70 عیسویٰ میں یہود ایک بار پھر بغاوت کے مرتکب ہو ئے ۔ چنانچہ  اس بغاوت  کو کچلنے  کے لیے  جنرل ٹائٹس  کی زیر کما ن  فو ج  کا ایک بڑا لشکر ارض فسلطین بھیجا گیا  اور انہوں نے بزور ِ شمشیر  پرقبضہ کر لیا ۔جنرل ٹائٹس  نے مشرق سے مغرب تک پورے ملک میں  ہل چلوا د یئے ۔ ہیکل سلیمانی  سمیت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام  کے زمانے  کی ایک ایک  عمارت  مسما ر کر کے ریاست  سے بنی اسرائیل  کی سابقہ تاریخ  کا ہر نام ونشان  مٹا دیا۔  کئی سال تک جنرل ٹائٹس  کی فوج کی  بر بریت اپنے عروج  پر رہی ۔

اس عرصے میں چن چن کے یہودیون کو قتل کیا گیا۔ اس دوران ارض فلسطین سے بنی  اسرائیل  کے عمل  دخل کو مکمل طور پر اس طرح ختم کیا  گیا کہ پھر وہ بیسویں صدی کے  شروع تک یعنی پونے دو ہزار  سال تک جلا وطنی  اور انتشار  کی حالت میں   مارے مارے  پھرتے رہے بعد کے ادوار میں اتنا ضرور  ہوا کہ محدود  تعداد میں  ان  کے لوگوں کو صرف  مقدس دنون میں داخلے کی اجازت  ہو تی تھی ۔ جس میں یہ لوگ  مقدس مقامات کے کھنڈرات کی زیارت کر تے ۔ ان کھنڈرات میں صرف ایک دیوار بچی تھی ۔ چنانچہ  یہودی جب  یہاں آتے  ، تو ماضی کو یاد کر  کے  گریہ وزاری کر تے۔ اس لیے اس دیوار کو " دیوار گریہ" نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دیوار مسجد ِ اقصی  کے باہر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ مسلمان  اسے " دیوار براق " کہتے ہیں۔

روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے شب معراج یہاں  اپنا براق باندھا تھا۔  دیوار ِ گریہ پر آ ہ زاری  کرنےو الے یہودی جب واپس جاتے ہیں تو دوبارہ گناہوں کے کاموں میں مشغول ہو  جاتے ہیں اور  کچھ ایسا ہی حال آج کے مسلمانوں کا بھی ہے۔  دوران حج و عمرہ  حرم شریف میں زارو قطار  روتے  ہیں۔ گناہون کی معافیاں  مانگتے ہیں   دوبارہ گناہ نہ کرنے کے وعدے کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ  معاف بھی کر  دیتا ہے۔ لیکن یہ بنگانِ خدا جب واپس آ تے ہیں  تو دوبارہ گناہوں  کی گٹھری بھر نی شروع کر  دیتے ہیں۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔ بیت المقدس میں

 16 ہجری 647 ء میں مدائن اور انطاکیہ کی فتحکے بعد مسلمان فوجین فلسطین  میں داخل ہو  گئیں اور بیت المقدس میں  قلعہ بند عیسائی افواج  کا محاصرہ کر لیا۔ اپنی یقینی شکست دیکھتے ہوئے  عیسائی فوج کے سالار نے یہ شرط رکھی  کہ ہم خلیفتہ المسلمین  کے آ گے ہتھیار  ڈالیں گے۔  چنانچہ مسلمانونں کے سپہ سالار ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کشت و خون سے بچنے کے  لیے  حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو تفصیلی  خط لکھ  کر بیت المقدس آنے کی درخواست دی ۔ دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے

 سر براہ  جب بیت المقدس کے دروازے پر پہنچے تو   لوگوں نے دیکھا کہ غلام اونٹ پر سوار ہے اور خلیفہ المسلمین  اونٹ کی مہار پکڑے پیدل چل رہے ہیں آپ  کے جسم پر پیوند  لگے کپڑے تھے۔ جو سفر کے دوران  بوسیدہ وہ چکے تھے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی  اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استقبال کیا۔  بیت المقدس کے نگران ، مذہبی پیشوا  نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہر  کی چابیاں دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ اس کے  فوری بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیادہ پا بیت المقدس میں داخل ہو ئے۔ سب سے پہلے  مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ جہاں محراد داؤد  علیہ السلام  کے پاس  نماز شکر ادا  کی اور یہودیوں  کو شہر میں آنے کی اجازت   دی ۔ اس سے پہلے  عیسائیوں نے یہودیوں   سے حد درجہ بغض  کی بنا ءپر  نہ صرف  یہودیوں کو شہر میں داخلے پر پابندی  عائد کر رکھی تھی بلکہ ان کے مقدس  قبضہ الضحرہ  کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک  دیا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے ہاتھوں سے وہاں سے کچرا  صاف کیا ۔

ایک روایت  کے مطابق معراج کی رات  آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مسجدِ اقصٰ  سے آسمانوں کا سفر  اسی چٹان سے  شروع کیا تھا۔ جس پر " قبتہ الصخرہ"  تعمیر  ہے  حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت  سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ  مسجد  ( ہیکل سلیمانی )  کے کھنڈرات  پر فوری طور  پر مسجد  تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ  یہاں سسادہ مستطیل نما لکڑی  کی مسجد  تعمیر ہو  ئی پھر اموی خلیفہ  عبد الملک بن مروان  نے دوبارہ   اس  جگہ پر  ایک شان  دار مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔ جس کی 

تعمیران کے فرزند ، ولید بن عبد الملک کے دور  حکمرانی  میں مکمل ہو ئی۔

who owned the land of


صلیبی جنگوں کا آغاز:۔

مسیحیوں کے روحانی پیشوا ،  پوپ اربن ثانی نے 1095 ء میں مسلمانون کے خلاف صلیبی  جنگوں کا اعلان کر دیا۔  اس ن مذہبی  فریضہ  قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ  القدس  سمیت مسلمانوں  سے دیگر مقدس  مقامات  بزور تلوار چھین لیے جا ئیں  پوپ  کے اس جذبانی  حکم سے مسیحوں   کا مذہبی  جنون عروج پر پہنچ  گیا ۔  صلیب کے نام پر لڑی جانے والی یہ جنگیں " صلیبی جنگوں" کے نام سے مشہور ہوئیں۔  15 جولائی 1099 ء کو عیسائیوں نے القدس پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں  70 ہزار مسلمانوں کو باب دا ؤد علیہ السلام اور  شہر قدس میں قتل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ  شہر کے  گلی کوچے مسلمانوں  کے خون سے  سرخ ہو  چکے تھے۔  مسلح عیسائی  متواتر آٹھ  دن تک مسلمانوں کا قتل  عام  کرتے  رہے ۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کے گھوڑے  ٹخنوں  تک مسلمانوں  کے خون میں ڈوبے  ہوئے تھے۔ یوں فلسطین اور متعلقہ  علاقوں پر  عیسائیوں کا  قبضہ 90  برس  تک رہا۔ 1175 ء میں  سلطان  صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ  نے  مصر میں فاطمی  حکم  رانوں کا تختہ الٹ کر سلطنت  سنبھا لی ۔  اس نے سب سے  پہلے  دنیا کے مسلم ممالک کو متحد کیا۔  جن میں  مصر، شام ، لبنان اور شمالی عراق  ، خا ص طور پر    شامل تھے۔ 1183 ء میں اس نے دمشق کو اپنا  دار الحکومت  بنایا اور  1187 ء میں بیت المقدس  فتح کر لیا۔

1095 ء م سے 1291 ء تک صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔  1187ء سے 1917 ء تک  یعنی 730 سال تک بیت المقدس پر مسلمانوں کی حکم رانی رہی اور  اگر حضرت  عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور خلافت   سے شمار کریں تو فسلطین 637 عیسوی میں آزاد  ہوا تھا۔  اور 1918 ء تک یعنی 1282 سال  تک فلسطین  پر مسلمانوں  کی حکومت رہی  ۔ اس میں مسیحیوں  کی حکم رانی  کے 90 سال بھی شامل ہیں   فلسطین  کے آخری  حکم راں ، عثمانی خلفا ئ  تھے جنہوں نے 1917 ء تک یہاں حکومت  کی۔ جنگ عظیم ِاول  کے دوران 1917 ء میں فلسطین ، سلطنت  برطانیہ کا حصہ بن گیا۔  سلطنت عثمانیہ کے خاتمے میں انگریزوں کے علاوہ  یہودیوں اور عرب مسلمانوں کا بھی بڑا ہاتھ  ہے۔ اور خاص طور پر سلطنت عثمانیہ کوکمزور کرنے میں  عرب ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور یہود کا ساتھ دیتے ہوئے چھپے  راستے اور بعض جگہوں پر سر عام مخالفت کی۔

History of


سلطنت عثمانیہ کے خاتمے میں یہودیوں کا کردار :۔

 ایک عشاریہ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع  ، جنرل موخاز کا  ایکبیان شائع ہوا جس میں   اس نے عراق  سمیت دیگر ممالک کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ " دنیا کی سپر پاور ، سلطنت عثمانیہ  کے خلیفہ  سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ  دینے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ  ہم نے نہ سرف ان کی حکومت ختم  کر دی بلکہ پوری عثمانی  خلافت کا خاتمہ کر یدا۔ اب جو بھی اسرائیل  کی راہ میں مزاحم ہو گا۔ اسے ایسے ہی انجام دے دو چار ہونا پڑے گا۔ "

سلطان عبد الحمید  ثانی  اپنی  یادداشتوں مین تحریر  کرتے ہیں کہ عالمی  یہودی تنظیم کا ایک وفد ان کے پاس آیا اور ان سے فلسطین  میں مستقل طورپر رہائش  کی اجازت مانگی ۔  چوں کہ سلطنت عثمانیہ کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین  میں ایک بڑی  یونیورسٹی قائم کرنے کی پیش کش  کی جس کا مقصد وری  دنیاسے  یہودی سائنس دانوں کو جمع کر  کےسائنس اور ٹیکنالوجی  کے میدان میں بہ ظاہر سلطنت عثمانیہ کو بلند مقام دلانا مقصود تھا۔  سلطان  عبد الحمید  ، یہودیوں کے اس عالمی پلان سے با خبر تھے۔ جس میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل  سلیمانی  کی تعمیر ا ور گریٹر  صیہونی  حکومت  کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر نا مقصود تھا۔  چنانچہ سلطان نے فلسطین  کے علاوہ کسیا ور شہر میں یونیورسٹی قائم کرنے پر آ مادگی کا اظہار کیا۔ کچھ عرصے بعد ایک بار پھر عالمی  صیہونی تنظٰم کے  سنیئر رہنما ، سلطان کی  کی خدمت میں ہوئے اور  پیش کش  کی کہ اگر سلطان یہودیوں کو محدود پیمانے  پر فلسطین میں رہنے کی اجازت عنایت فرمائیں تو  ہم منہ مانگی دولت دینے کو  تیار ہیں ۔  رقم کی بات  سن کر   سلطان  آگ  بگولا ہو گئے  اور انہیں  فوری طور پر محل سے  نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے  آئندہ ملاقات  پر پابندی عا ئد کر دی ۔ سلطان کے  ساتھ اس آخری تلخ  ملاقات کے  بعد صیہونی تنظیم  کے بڑے پیمانے پر  سلطنت عثمانیہ کی مخالفت شروع کر دی ۔ جو جلد ہی دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔

سلطنت عثمانیہ سے مایوسی  کے بعد اب ان کی امید کا مرکز   ومحو بر طانوی سامراج  تھا۔ لیکن چرچ کے پادریوں  سمیت عیسائیوں کی اکثریت  یہودیوں کو  حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی موت کا ذمہ داری  سمجھتی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ ظاہر  ی طورپر یہودی عیسائی مذہب اختیار  کر لینے کےباوجود  بھی اندر سے  یہودی ہی رہتے اور  دنیا پر حکومت  سمیت ایک عظیم یہودی ریاست  کا تصور  ان کے خواب  و خیال میں ہمیشہ  رہتا۔ چنانچہ  ایک یہودی  جب دوسرے یہودی سے جدا ہوتا تو اس کا آخری جملہ یہ ہوتا کہ " اگلے سال ملیں گے یرو شلم میں" گویا ایک طرح سےیہ ان کے  دعائیہ  الفاظ ہو تے ۔ 1890 ء میں فرانس  میں روس کی خفیہ پولیس  کے اہل کار نے یہ دعویٰ کیا کہ یہودی پوری  دنیا پر قبضہ کر نے کی سازش کر رہے ہیں ثبوت کے طورپر عالمی  یہودی  رہنماؤں کی ایک خفیہ  میٹنگ  کے منٹس منظر عام پر لائے گئے۔ جن میں یہودیوں کی جانب سے  پوری دنیا پر قابض ہونے کے منصوبوں کو حتمی  شکل دی گئی تھی ۔ عیسائی تنظمیوں نے اس خبر کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی ۔ جس نے عیسائی دنیا اور یہودیوں کے درمیان نفرت کی خلیج کو مزید وسعت دی۔

 


No comments:

Post a Comment