Rajab Tayyab Erdogan | Presidents of Tarkiya 2023 | khilafat e usmania | history of Khilafat e Usmania - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Monday, June 12, 2023

Rajab Tayyab Erdogan | Presidents of Tarkiya 2023 | khilafat e usmania | history of Khilafat e Usmania

Rajab Tayyab Erdogan  | Presidents of Tarkiya 2023  | khilafat e usmania | history of Khilafat e Usmania

Rajab Tayyab Erdogan  | Presidents of Tarkiya 2023  | Khilafat e Usmania | History of Khilafat e Usmania 

اردوان کی فتح

سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی کی بازگشت

عرب لیگ میں شام کی واپسی سے مسلم دنیا کی  ایک بڑے تنازعے سے جان چھُو ٹ گئی

طیب اردوان نے توقع کے عین مطابق تُرکیہ کے صدراتی انتخابات  کے دوسرے مرحلے میں فیصلہ کُن کام یابی حاصل کی اور وہ اب 2028 ء تک تُر کیہ کی سر براہی  کا فریضہ انجام دیں گے ۔ اُنہوں نے 52.16 فیصد ووٹ ھاصل کر کے اپنے سیاسی  مد مقابل کلیچ اردوغلو کو  شکست دی جنہوں نے اُن سے پانچ فی صد کم ووٹ حاصل کیے۔ اِس طرح اردوان تُرکیہ  میں سب سے طویل عرصے تک حکم رانی کرنے کا بھی اعزاز حاصل کر چکے ہیں کہ تقریباً 22 سال سے اقتدار میں ہیں وہ پہلی مرتبہ 2001 ء میں وزیر اعظم منتخب ہوئے  تھے جب اُنہوں نے  جسٹس پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تھا۔ پھر تین مرتبہ اس عُہدے پر فائز رہنے کے بعد اُنہوں نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے تُر کی کے آئین کو صدرا تی نظام میں بدل دیا ۔ جس کےبعد 2014ء سے 20 صدر کے عُہدے پر فائز ہیں ۔ تُرکیہ  جغرافیائی ہی نہیں ، سیاسی اور معاشی لحاظ سے بھی دنیا میں ایک اہم مقام کا حامل ہے۔  صدر اردوان کی طویل عرصے کی حکم رانی  نے اُنہیں اور اُن کے مُلک کو عالمی سیاست میں اہم کردار سے نوازا ۔ لیکن اُن کی حالیہ فتح کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تُرکیہ کے عوام نے کسی تبدیلی یا انقلاب کو ووٹ نہیں دیا بلکہ کہا جاسکتا ہے۔ کہ اُنہوں نے تبدیلی کو مسترد کر  دیا کہ اُن کی مخالف جماعت  تو تُرکیہ کو واپس پارلیمانی جمہوریت میں لے جانے  کی بات کر رہی تھی۔د ر حقیقت ، عوام نے معیشت اور استحکام  ہی کو ووٹ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اِس وقت تُرکیہ  معاشی صُورت حال سے دو چار ہے۔ بڑھتی مہنگائی ، افراطِ زر اور لیرا کی گراوٹ جیسے مسائل  کے ساتھ فروری میں آنے والے زلزلے نے حالات  مزید ابتر کر دئیے جس کے نتیجے میں 46 ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے اردوان اِ ن مسائل سے مسلسل نبرد آزما ہیں لیکن اُن کی فتح در حقیقت عوام کے اس اعتماد  کی مظۃر ہے کہ وہ اپنی تجربہ کاری سے اِ س  مشکل وقت سے کام یابی سے گزر جائیں گے اور اِس اعتماد کی وجہ اُن کی ماضی میں اپنائی گئی کام یاب اور زبردست معاشی پالیسی ہے۔ انہوں نے وزیر اظم بننے کے بعد تُرکیہ کو جدید تر باننے پر توجہ  مرکوز رکھی اُن کے بڑے بڑے اور غیر معمولی منصوبوں نے تُرکیہ کو عالمی سطح پر نمایاں کیا۔ اُن کا ایک بڑا منصوبہ سمندری پل کے ذریعے یورپ اور ایشیا کو ملانا تھا۔ جس سے تجارت سیاست اور  عالمی رابطوں کو فروغ ملا اور دنیا تُرکیہ کی شکر گزار ہوئی ۔ انہوں نے تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کی بجائے اپنے کام سے ووٹرز کو اپنا  گرویدہ  بنایا ، جو اُن کے بس سالہ دور میں حقیقی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں پہلے تُر کی ایک ترقی پذیر ملک تھا اور اب اردوان کے بڑے ترقیا تی منصوبوں کی بدولت  ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو  چکا ہے۔ آج وہاں ملک کا تعارف بھی بن چکا ہے۔ تُرکیہ کے  عوام نے اردوان کو وٹ دے کر دنیا کو بتا دیا کہ وہ دنیا میں ہ صرف  موجود ہیں ، بلکہ اُس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آ گے بڑھنے کے لیے بھی تیار ہیں وہ اِس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ محض خالی خولی نعروں اور سحر انگیز  تقاریر  سے کچھ نہیں ہوتا جو پارٹی یا لیڈر کچھ کرنا چاہتے ہیں  اُن کا کام زمین پر نظر آتا ہے۔ شخصی مقبولیت کچھ نہیں ، اگر اُسے ٹھوس  کام کی سپورٹ حاصل نہ ہو ، وگرنہ ملک اور عوام بس  خواب ہی دیکھتےرہتے ہیں  اِ س امر میں دورائے نہیں ہو سکتی کہ آج کے زمانے  کی تبدیلی اور انقلاب ، معاشی تر قی ہی ہے۔ آج کی آزادی ، معاشی معاملات کی آزادی ہے۔ عوام ، سیاسی لیڈر شپ، اہل دانش اور  میڈیا کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ جوان جذبات یا اُبلتی توانائی جب تک تخلیقی کاموں نہ ڈھل جائے، تب تک یہ فضول ہے اور خطر ناک بھی ۔ یہ سانحات اور حادثات کو جنم دے سکتی ہیں۔ جس سے ملک کو ناقابلِ یقین نقصان پہنچتا ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ کی  بنیاد

صدر طیب رجب اردوان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں لاکھوں تُرک عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ " یہ سلطنتِ عثمانیہ  جیسا ٹرننگ  پوائنٹ ہے ہم مِل کر اسے تُرکیہ کی صدری بنائیں گے"

بہت سے لوگ ، بلکہ ہمارے کچھ میڈیا  دانش ور بھی، ان الفاظ کا یہ مطلب لے رہے ہیں کہ شاید صدر اردوان سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی کی بات کر رہے ہیں۔ نیز اِس خیال کو تقویت دینے کے لیے اُس جشن کا بھی حوالہ دیا جا رہا ہے۔ جو چند روز قبل  عثمانی سلطنت  کے 570 سال مکمل ہونے  پر منایا گیا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تُرکی ، عثمانی دور میں ایک سپُر پاور تھا ، اُس  نے یورپ کے ایک اہم حصے، پورے افریقا  اور مشرق وسطی پر راج کیا، بحر روم  اُس کا مکمل تسلط تھا ، اُس کی خوش حالی اور بہتر  نظام حکوت کی یورپ میں مثالیں دی جاتی تھیں اور فرانس  و جرمنی  جیسی  طاقتیں اس دوستی  پر فخر محسوس کرتیں۔ ہمارے  ہاں کچھ اِس قسم کی خیالی باتیں کی جاتی ہیں کہ تُرکیہ کی ترقی کا مطلب ، ترک خلافت کا زمانہ واپس لانا ہے ۔ معاہدہ  لوزان کے ایک  سو سال پورے ہونے کا مطلب بھی یہ بتایا جتا ہے کہ اب وہ تمام علاقے تُرکیہ کو خود بخود دوبارہ مل جائیں گے، جو کبھی سلطنت ِ عثمانیہ کا حصہ ہوا کرتے تھےتاہم ، معمولی سے  غور فکر سے بھی اس نتیجے پر ہہنچا جا سکتا ہے کہ اب ایسا کچھ ہونا ممکن نہیں۔ اِ س وقت امریکا، روس ، چین ، جاپان اور یورپ سمیت کئی بڑی طاقتیں موجود ہیں۔ ٹیکنالوجی نے دنیا  کو کہاں سے کہا پہنچا دیا  ہے چین جو آج دنیا کی فیکٹری بن چکا ہے  کیا وہ ختم ہو جائے گا ایٹمی طاقتین نسیت و نابود ہو جائیں گی ۔ تجارت کا عالمی نظام ختم اور  طاقت کا نیا توازن بھک سے   اُڑ جا ئے گا۔ سلطنتِ عثمانیہ  کے خاتمے کے بعد جو مملکتیں دنیا کے نقشے پر اُبھریں وہ سب دوبارہ تُرکیہ کے صوبے بن جائیں گی۔ جمہوریت ختم اور بادشاہ شروع ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو کوئی بھی  ہوش مند شخص  نہیں کہہ سکتا۔ ایسا کبھی دنیا میں ہوا ہے جواب ہوگا؟ سمجھ نہیں آتا کہ یہ خوابوں کے سوداگر اور تھیویز  یز گھڑنے والے جانے کون سی دنیا میں رہتے ہیں اور اس سے زیادہ حیرت تو اُن پڑھے لکھے لوگوں پر ہوتی ہے جو اس قسم کے خیالی پلاؤ  پر یقین کر لیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے کہ ہم ہی میں سے کچھ لوگ اب بھی ایسی تصوراتی  دنیا میں رہتے ہیں جو کبھی حقیقت نہیں بن سکے گی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک آج تک کسی منزل کا تعین نہیں کر سکا۔ کیوں کہ انہیں ہمیشہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اور وہ بے منزل  دوڑتے رہتے ہیں جب اردوان نے تُرک سلطنت کا ذکر کیا تو اُن کی مراد یہی تھی کہ وہ تُرکیہ کو پھر سے ترقی کے کمال درجے پر لا کر سپر پاور بنائیں گے ۔ جہاں جدید تر قی کا دور دورہ ہوا اس کا پھر  سے بڑی اور ترقی یافتہ طاقتوں میں شمار ہوا۔ ہمارے مُلک میں عثمانی سلطنت  کے ریفرنس کے کچھ اور ہی معنی لیے جاتے ہیں ہم ماضی میں چلے جاتے ہیں اور خواب دیکھنے لگتے ہیں وہ خواب جو زیادہ تر ہماری خوش خیالی پر مبنی ہیں ۔ لیکن جو ترک عوام  اور اُن  کی لیڈر  شپ کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہیں۔ یہ معاملہ دوسری جنگ  عظیم سے پہلے چلنے والی تحریک ِ خلافت کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تُرک  قوم ایک سپر پاور تھی اور اُس میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ پھر سے یہ مقام حاصل کر لے ۔ اس کے پاس ٹیکنالوجی سے اُن کی لیڈر شپ سے اِ س کمی  کو اپنی رہنمائی اور عوام کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دور کر لیا۔ اس میں صدر اردوان کے دورِ حکومت  کا بڑا کردار ہے انہوں نے اپنے معاشی پر و گرامز  اور کام یاب منصوبوں  سے اپنی قوم کو دوبارہ اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں سے وہ لڑھک گئی تھی اب اُس  کے  سامنے  کُھلا آسمان اور ایک تجربہ کار لیڈر شپ ہے جسے بخوبی علم ہے کہ تُرک  قوم کو بلندیوں تک کس طرح لے جانا ہے اسی لیے دنیا بھر  کی لیڈر شپ نے صدر اردوان کی فتح پر انہیں مبارک باد دی۔ پاکستان اور تُرکیہ کے بہت ہی قریبی اور بردرانہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے رشتے بھی لازوال ہیں۔ پاکستا ن اور تُرکیہ  خطے میں ہونے والی تبدیلیوں میں مل کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور یہ تبدیلیاں مشرق وسطیٰ میں بہت تیزی سے  رو نما ہو رہی ہیں تُرکیہ ، مشرقِ وسطیٰ کے مغرب میں ہے اور پاکستان مشرق میں ۔ دونوں کے پاس ایک تعلیم یافتہ اور نوجوان آبادی ہے تُرکیہ نے تو اپنی لیڈر شپ چُن لی ۔ اب پاکستان عوام کی باری ہے کہ وہ ترقی  اور تعمیر کو اہمیت  دیتے ہیں یا صرف نعرے  بازی اور خوابوں ہی پر اکتفا کر یں گے۔ وہ بار بار نئی  لیڈر شپ کے  نام پر تجربوں سے گزر  نا چاہتے ہیں یا مستحکم اور تجربہ کاررہنمائی  سے آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ بہت تیزی سے بدل رہا ہے ۔ امریکا کے وہاں سے جانے کے بعد طاقت کا توازن تبدیل ہوا اور یوں لگتا ہے کہ اب لیڈنگ کردار سعودی عرب کے پاس آ گیا ہے جس میں ولی عہد ، شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیز  نے اہم کردار ادا کیا، عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کیے ۔ یہ اتنی بڑی اور انقلابی تبدیلی ہے جس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے اور اس پر تنقید کی بھی گنجائش ہے ۔ لیکن اس کے  اثرات نظر انداز کرنا ممکن نہیں اِسی لیے صدر اردوان نے جو دو سال پہلے تک اسرائیل کے مخالف تھے ، نہ صرف اُس سے سفارتی  تعلقات بحال کیے۔ بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم  کو اپنے ہاں مدعو بھی کیا ۔ یہ دورہ اس سال جنوری میں ہوا ۔ یعنی  الیکشن سے صرف پانچ ماہ قبل اور اس پر کوئی عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا ، لہٰذا  کسی بھی ملک کو مشرق وسطیٰ سے کسی قسم کی توقعات  وابستہ کرنے سے قبل یہ معاملہ سامنے رکھنا پڑے گا۔ اسرائیل اور عربون کے نہ صرف امریکا ، چین ، روس اور یورپ سے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔ بلکہ اُن کی بھارت سے بھی گہری دوستی ہے۔ ہمیں اس پر افسوس تو ہو سکتا ہے لیکن کچھ معاملات ہمارے بس سے باہر ہیں اور انہیں جُون کا تُون قبول کرنا پڑتا ہے ہم ایران سے تو زیادہ اسرائیل کے مخالف نہیں ، لیکن اس کے باوجود سعودی ، ایران معاہدہ ہوا اور  دونوں  میں سفارتی تعلقات قائم ہوئے، جنہیں اس صدی کی بڑی تبدیلی کہا جا رہا ہے ایک اہم تبدیلی یہ بھی ہے کہ عرب لیگ میں شام کی رُکنیت بحال کر دی گئی ہے۔ صدر بشار الا سد سے شہزادہ محمد بن سلمان نے تفصیلی  ملاقات کی ، جس کے بعد بشار الا سد نے مِصر کا بھی دورہ کیا اور اس سے دس سال بعد تعلقات بحال ہوئے۔ شام گزشتہ دس برسوں سے عرب دنیا کا   سب سے بڑا تنازع رہا اور سعودی عرب، ایران کی مشرق وسطیٰ میں برتریکی جنگ کا مرکزی  نقطہ بھی ۔ اِس  صدی میں مسلم دنیا کی سب سے بڑی  تباہی شام میں ہوئی ، جہاں پانچ لاکھ شہری ہلاک اور ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہوئے شام کے تقریبا  تمام بڑے شہر اسد افواج اور روسی بم باری کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیئے۔ اس کے اثرات یورپ پر بھی  مرتب ہوئے اور شامی مہاجرین کی آباد کاری کے معاملات جرمنی کی مرکل جیسی مضبوط رہنما کا سیاسی کیئر یئر ختم کر نے کا باعث بھی بنے۔ خود شامی شہریوں پر کیا گزری ، کتنا ظلم ہوا۔ یہ داستان   عرصے تک خون کے آنسو رلاتی رہیں گی ۔ لیکن مسلم دنیا میں یہ کوئی اَن  ہونی بات نہیں۔ ایران  نے بر تریکی اِ س جنگ میں اپنا بہت کچھ جھونک دیا ، جس میں فوجی امداد سے لے کر مکمل پشت پناہی تک  شامل تھی ۔ پھر روس اس میں آدھمکا ۔ اُس نے اپنی فضائیہ کا بے بس شامی شہریوں اور ان کے شہروں پر بے دریغ استعمال کیا ( ایسا وہ اپنے نئے دشمن اور یورپی  پڑوسی ، یو کرین میں نہیں کر رہا ، بس کسی روز اچانک ڈرون حملہ کر دیتا ہے) سعودی ، ایران معاہدے کے بعد یہ بات بند ہو گیا۔ غالباً  تمام  فریقین کو اندازہ ہو گیا کہ اس تنازعے اور خانہ  جنگی کا کوئی بھی متحمل نہیں ہو سکتا ۔ پھر ایران کی گرتی  معیشت ، تُرکیہ  کی مہنگائی اور زلزلہ ، روس کا یوکرین کی دلدل میں پھنسنا  اور سعودی  عرب کی یمن تنازعے کے  خاتمے کی خواہش جیسے عوامل نے مل کر صدر  اسد کی عرب  لیگ میں بحالی کی راہیں کھول دیں۔ مشرق وسطیٰ کے مُلک  پر توجہ دینے کی فرصت ملے گی ویسے بھی کورونا وبا ، تیل کی قیمتوں کے اُتار چڑھا ؤ اور یوکرین جنگ کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی نے اُنہیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کسی بھی تنازعے کو مزید برداشت کر سکیں ۔ شام کا المیہ  عرب اور مسلم دنیا کا ایک اور سیاہ باب ہے جس کا جواب اسد حکومت ، بڑی اور  علاقائی طاقتوں کو دینا پڑے گا۔ اس نے یہ ثا بت کیا کہ بے دردی سے استعمال ہونے والی طاقت آج بھی فاتح  ہے اور یہ بھی کہ چھوٹے ملک اگر اپنی اوقات سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن  کے عوام کے ساتھ دینے وا لا کوئی نہیں ہوتا ۔ انسانی حقوق کی باتیں ، بس باتیں ہی ہو تی ہیں شام ، عرب اسپرنگ  کی ایک اور مکمل نا کامی ہے ۔ اِس لیے جو بھی سوشل میڈیا اور اس قسم کے طریقوں سے انقلاب لانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے لیے اس میں بڑا  سبق پوشیدہ ہے ۔ صدر اسد  کی عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت سے  تُرکیہ کے مسائل بھی کم ہو سکتے ہیں شامی مہاجرین کی واپسی انتخابات کا ایک اہم موضوع تھا۔ نیز مسلم دنیا  کی بھی اس بحران سے جان  چھوٹی کہ انہیں او آئی سی اور دیگر فورمز  پر خاصی مشکلات پیش آ  رہی تھی۔ اگر اِ س تناظر میں پاکستان کو دیکھا جا ئے تو مشرق و سطی میں تنازعات کے خاتمے سے اس کے لیے تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی ۔ لیکن اس  کے لیے ہمارے پاس معاشی نظریئے کی حامل لیڈر شپ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ لیکن تا حال پاکستان میں اس طرح کی کوئی لیڈر شپ معہ سوائے عمران خان صاحب کے کہیں نظر نہیں آ رہی ۔

No comments:

Post a Comment