History of Palestine || Israel Attack to Ghaza || Iran 300 Missiles with Drone Target to Israel || World war - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Thursday, May 2, 2024

History of Palestine || Israel Attack to Ghaza || Iran 300 Missiles with Drone Target to Israel || World war

 History of Palestine || Israel Attack to Ghaza || Iran 300 Missiles with Drone Target to Israel || World war

Iran 300 Missiles with Drone Target to Israel


فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم

امن کی علم بردار عالمی طاقتوں کا ضمیر آخر کب بیدا ر ہو گا؟

اسرائیل کا غزہ پر حملہ:۔

ایک سفاک اور ظالم قوم جب کسی شہر پر حملہ کرتی ہے تو وہاں پر موجود ہر شے کو تباہ برباد کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی ۔اس کو علم کی کمی کہنا نہیں بلکہ جان بوجھ کر اور سوچی سمجھی سازش کہنا بہتر ہوگا۔ چند دن قبل اسی طرح کے کارمانے اسرائیلی فوج نے غزہ میں کیے ۔ بوڑھوں ،بچوں اور شیر خوار اور عورتوں کو نشنانہ بنانا اور پھر زخمیوں  کو لے جانے والی ایمبولینسسز اور ہسپتالوں پر حملہ کرنا اسرائیل کی پالیسی کا حصہ تھا۔ چھوٹے اور معصوم بچوں کا قتل عام اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ہزار ہا کیس سامنے آئے لیکن تاحال کسی بھی علم بردار ملک نے  اس پر دھیان دینا مناسب نہ سمجھا ۔

نسل کشی:۔

چند دن  قبل ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر  ایک اسرائیلی فوج کے سپاہی کا بیان جاری ہوا جس میں اس نے واضع طور پر کہا کہ پچھلے ہفتے جس علاقہ میں ہم نے حملہ کیا تھا اس میں  ہماری تلاش چھوٹے اور معصوم بچوں کی تھی تاکہ انکو قتل کر  نسل کشی کی جائے لیکن ہمیں کوئی چھوٹا بچہ یا بچی نہیں ملا اور جس بچی کو ہم نے قتل کیا اس کی عمر لگ بھگ 12 سال تھی اس انٹرویو کے بعد واضع  ہو گیا کہ اسرائیل کی غزہ نسل کشی کی مکمل کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس پر  عالمی برادری  بے غیرت بن کر سوئی ہوئی ہے۔

یہودیوں کی فقہ کی کتاب :۔

یہودیوں کی فقہ کی کتاب جس کے مطالعہ  سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ پوری دنیا میں اوراس ارض مقدس فلسطین میں جتنے بھی یہودی آباد ہیں صرف یہ یہودی انسان ہیں اور باقی پوری دنیا کے مذاہب اور لوگ انسان نما حیوان ہیں ان کے ساتھ جیسا بھی سلوک کیا جائے انکو  کوئی پروا نہیں۔اور نہ ہی کوئی گناہ ہے۔ ان کی کوئی حیثیت اوروقعت نہیں ۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہودی اور بنی اسرائیل ایسی قوم گزری ہے جو انتہائی لا پروا ، منافق ، وعدہ خلاف اور نا شکری قوم کہلاتی ہے۔

یہودیوں کی بر بادی  کی مختصر داستان :۔

حضرت  سلیمان علیہ السلام  کی وفات کے بعد  حسب عادت بنی اسرائیل  ایک بار پھر  پرانی ڈگر پر آ گئے ۔  سر کشی ، کفرو شرک  ، بغض و عناد ، دوبارہ  عود کرآیا۔ اُس دور میں ان لوگوں نے شیطانی  قوتوں سے  جادو سیکھا اور  اس فن میں مہارت حاصل کر لی۔ لیکن پھر جلد ہی ان کی آپس کی رنجشیں اس قدر بڑھ گئیں  کہ ان کی عظیم سلطنت  دو حصوں میں  تقسیم ہو گئیں ۔ 

دونوں  ریاستیں باہم دست و گریباں رہیں ۔ یہاں تک کہ بابل کے بادشاہ، بخت نصر نے پورے ملک کی اینت سے اینٹ  بجا کر ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا۔ بخت نصر  کے انتقال کے بعد ایران   کے بادشاہ سائرس ( خسرو)   نے قبضہ کر لیا اور یہودیوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ پھر 332  قبلِ مسیح میں  سکندر اعظم نے اس علاقے کو یونان  کی سلطنت میں شامل کر لی اور یہودیوں  کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ 65 قبل مسیح میں   رومی افواج  نے بزور ِ طاقت  ایک بار پھر فسلطین پر قبضہ کر کے اسے رومی سلطنت کا حصہ   بنا دیا۔ 70 عیسویٰ میں یہود ایک بار پھر بغاوت کے مرتکب ہو ئے ۔ چنانچہ  اس بغاوت  کو کچلنے  کے لیے  جنرل ٹائٹس  کی زیر کما ن  فو ج  کا ایک بڑا لشکر ارض فسلطین بھیجا گیا  اور انہوں نے بزور ِ شمشیر  پرقبضہ کر لیا ۔جنرل ٹائٹس  نے مشرق سے مغرب تک پورے ملک میں  ہل چلوا د یئے ۔ ہیکل سلیمانی  سمیت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام  کے زمانے  کی ایک ایک  عمارت  مسما ر کر کے ریاست  سے بنی اسرائیل  کی سابقہ تاریخ  کا ہر نام ونشان  مٹا دیا۔  کئی سال تک جنرل ٹائٹس  کی فوج کی  بر بریت اپنے عروج  پر رہی ۔

اس عرصے میں چن چن کے یہودیون کو قتل کیا گیا۔ اس دوران ارض فلسطین سے بنی  اسرائیل  کے عمل  دخل کو مکمل طور پر اس طرح ختم کیا  گیا کہ پھر وہ بیسویں صدی کے  شروع تک یعنی پونے دو ہزار  سال تک جلا وطنی  اور انتشار  کی حالت میں   مارے مارے  پھرتے رہے بعد کے ادوار میں اتنا ضرور  ہوا کہ محدود  تعداد میں  ان  کے لوگوں کو صرف  مقدس دنون میں داخلے کی اجازت  ہو تی تھی ۔ جس میں یہ لوگ  مقدس مقامات کے کھنڈرات کی زیارت کر تے ۔ ان کھنڈرات میں صرف ایک دیوار بچی تھی ۔ چنانچہ  یہودی جب  یہاں آتے  ، تو ماضی کو یاد کر  کے  گریہ وزاری کر تے۔ اس لیے اس دیوار کو " دیوار گریہ" نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دیوار مسجد ِ اقصی  کے باہر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ مسلمان  اسے " دیوار براق " کہتے ہیں۔

روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے شب معراج یہاں  اپنا براق باندھا تھا۔  دیوار ِ گریہ پر آ ہ زاری  کرنےو الے یہودی جب واپس جاتے ہیں تو دوبارہ گناہوں کے کاموں میں مشغول ہو  جاتے ہیں اور  کچھ ایسا ہی حال آج کے مسلمانوں کا بھی ہے۔  دوران حج و عمرہ  حرم شریف میں زارو قطار  روتے  ہیں۔ گناہون کی معافیاں  مانگتے ہیں   دوبارہ گناہ نہ کرنے کے وعدے کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ  معاف بھی کر  دیتا ہے۔ لیکن یہ بنگانِ خدا جب واپس آ تے ہیں  تو دوبارہ گناہوں  کی گٹھری بھر نی شروع کر  دیتے ہیں۔

سر زمین فلسطین :۔

 ہلکے زرد اور  سیاہ زیتون کے نرم  و نازک اور سر سبز  درختوں  کی سر زمین " ارض فلسطین" آج آگ  و خون میں  ڈوبی ہوئی ہے اور اسرائیلی حکومت  فلسطینی مسلمانوں کو اپنے وطن ہی میں اجنبی  بنانے کی کوشش میں مصروف ہے واضح رہے  کہ  فلسطین ، انبیاء کرام علیہ السلام کی  سرزمین ہے جہاں حضڑت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام کی  قبور  مبارک ہیں اور یہی سر زمین  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی تھی ۔یہیں شمالی محراب ولاے کونے ہیں۔ حضرت مریم علیہ السلام  عبادت میں مشغول تھیں کہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں ظاہر ہوا اور آپ  علیہ السلام کو  حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی غیر معمولی پیدائش کی خبر دی۔  فلسطین ہی وہ  سر زمین  ہے  کہ جہاں مسجد صخری ٰ ، مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں کا قبہ اول بیت المقدس  واقع ہے۔   مسجد اقصیٰ  کو یہ غیر معمولی اعزاد حاصل ہے کہ یہاں معراج  کی رات ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ   کی امامت میں  تمام انبیائے کرام  علیہ السلام نے  نماز ادا کی اور پھر آپ   صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سوئے منتہیٰ روانہ ہوئے۔ نیز ، یہیں وہ  چٹان بھی واقع ہے  جس سے معراج کی رات براق  کو باندھا گیا تھا۔

 ارض فلسطین  تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں ، عیسائیوں اور  یہودیوں  کے لیے یک ساں محترم ہے۔ تاہم عالمی طاقتوں کی ملی بھگت اور عسکری  امداد کے  ذریعے  یہاں اسرائیل  نامی یہودی ریاست  کی بنیاد رکھی گئی ۔  گرچہ اسرائیلی ریاست کا قیام مئی 1948 ء میں  ہوکوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد عمل میں آیا ۔  لیکن اسرائیلوں اور  فلسطینیوں  کے درمیان جاری تنازع  کی تاریخ اس سے بھی خاصی پرانی ہے۔ البتہ تاریخ کا یہ باب کب شروع   ہوا۔ اس بارے میں مئورخین اور  مبصرین  کی آرا مختلف  ہیں۔ الجزیرہ پر اپنی  سیریز  النقبہ 2008 ء میں دستاویزی فلم  ساز روان الضامن نے اپنی کہانی کا آغاز  نپولین  بونا پارٹ  سے کیا  جس نے سلطنت عثمانیہ  کے خلاف اپنی جنگ کے دوران  محاصرہ عکہ کے تناظر میں 1799ء میں فلسطین  میں یہودی  وطن کی تجویز  پیش کی تھی ۔فرانسیسی کمانڈر کو  بالآ خر  شکست ہوئی لیکن مشرق وسطیٰ مین یورپی مضبوط  گڑھ قائم کر نے کی اس کی کوشش کو41 سال بعد برطانیہ نے پھر دہرایا  کہ جب وزیر خارجہ لارڈ پالمر سٹس نے استنبول  میں اپنے  سفیر کو خط لکھا ۔ جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ سلطان پر  زور دیں کہ وہ مصر کے گورنر ،محمد علی کے اثرو ر سوخ کا مقابلہ  کرنے کے لیے فسلطین کو یہودی  تارکین وطن کے لیے کھول دے۔ گرچہ اُس وقت   فلسطین میں صرف 3 ہزار یہودی رہتے تھے ۔ لیکن فرانسیسی  اشرافیہ بیرن ایڈ منڈ اور جیمز  روتھشیلڈ جیسے امیر لوگوں نے یورپ سے دیگر کو ان کے ساتھ شامل ہونے اور بستیاں قائم کرنے  کے لیے اسپانسر کرنا شروع کیا   جن میں  سب سے قابل ذکر ( شہر) یشون لتسیون ہے ۔ جس کی بنیاد  1882 ء میں رکھی  گئی تھی۔ آسٹریا کےمصنف ، نیتھن برن بام نے 1885 میں " صیہونیت"  کی  اصطلاح  اُس وقت ایجاد  کی  کہ جب یہودی ، خاص  طور پر مشرقی  یورپ  سے فلسطین  میں مسلسل آتے رہے۔ آسٹریا اور  ہنگری کے صحافی  ، ڈاکٹر  تھیوڈ ور ہرزل کی کتاب " دی جیوشن اسٹیٹ"  ایک دہائی بعد  منظر عام پر آئی۔ جس میں 20 ویں صدی  کی آمد  کے ساتھ ااس طرح کے ملک کے قیام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے عسکری کاروائیوں اور امریکا سمیت   دنیا کے دیگر طاقت ور ممالک  کی مدد سے بتدریج فلسطینی باشندوں کی زمین پر قبضہ کرتے ہوئے  انہیں غزہ کی پٹی تک محدود محصور کر دیا اور فلسطینی  مسلمانوں  کو بیت المقدس جانے اور  نماز ادا کرنے کی بھی  بہ مشکل اجازت دی جاتی ہے۔

 آج مغربی  دنیا خود کو سب سے زیادہ تہذب  یافتہ اور امن کی علم  بردار  قرار دیتی ہے۔ امریکا  اور مغربی  طاقتوں  کی ایما پر  اقوام متحدہ جنگوں میں انسانی  حقوق کی خلاف ورزیوں  پر آواز بلند کر تی ہے۔ جب کہ یونیسیف  سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچوں  کی فلاح و بہود  کے نام پر بے تحاشا  رقم خرچ  کرتے ہیں۔  لیکن فلسطین   میں کم وبیش  گزشتہ 6 ماہ سے  زائد  اسرائیل کی وحشیانہ  بم باری  کے نتیجے میں  30 ہزار سے  زائد امواب  پر جن میں خواتین   اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے مغربی طاقتوں  ان سے   وابستہ مذکورہ بالا  اداروں کا مصلحت آمیز رویہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔  فلسطینی مسلمانوں پر وحشیا نہ بم باری کے علاوہ فلسطین  میں موجود اسرایلی فوج بھی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے۔   اسرائیلی فوجی آئے روز نہتے ، معصوم   مسلمانوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہو  جاتے ہیں۔  اور گھروںمیں گھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ  خواتین  ، بچوں اور  بزرگوں  کو زدو کوب بھی کرتے ہیں  علاوہ ازیں معصوم  لڑکوں اور نوجوانوں کو کسی جرم  کے بغیر ہی گرفتار کر لیتے ہیں  اور ان پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔

فلسطین اور غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد:۔ 

گزشتہ برس 7 اکتوبر سے فلسطین پر شروع ہو  نے والی اسرائیل کی وحشیانہ  بم باری آج بھی جاری ہے۔ جس کےنتیجے میں شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ حالیہ اعداد  و شمار کے مطابق فلسطینی  آبادیوں  پر کی جانےو الی بم باری کے سبب اب تک 30 ہزار   سے زائد فلسطینی  جان بحق ۔ جب کہ  50 ہزار سے زائد  زخمی ہو چکے ہیں۔  اور اس وقت فلسطین  میں اک قیامت صغریٰ  برپا ہے  اسرائیل  کے  بم بار طیاروں نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں ان ہسپتالوں  کو بھی ملبے کے ڈھیر میں  تبدیل کر دیا   گیا جہاں زخمیوں کا  علاج جاری تھا۔ علاوہ ازیں ، غزہ کی پوری بستی مسمار کر دی گئی اور اس دوران  معصوم بچے  ملبے تلے  دب گئے ۔ جب کہ دوسری جانب اسرائیلی فورسسز  مظلوم  فلسطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی میں بھی رکاوٹیں کھڑی  کر رہی ہے۔

پاکستان کا کردار :۔

اس وقت اگر دیکھا جائے ایک طرف فلسطین میں ہونے والے مسلمانوں پر مظالم اور دوسری طرف اسرائیل کو مکمل سپورٹ کرنے والے ادارے مکڈونلڈ کی سب سے زیادہ سیل اینڈ پر چیز پاکستان عوام اور حکمرانوں کے لیے منہ پر کسی تھپٹر کے برابر نہیں۔(پی ایس ایل) کی سپانسر شپ بھی اس سال مکمل طور پر مکڈونلڈ نے کی اور یہودیوں اور اسرائیل کی مکمل حمایت کرنے والے  ادارے اور پرو ڈکٹ کا بھی پاکستان میں خوب بزنس چمکا ۔

یہ انتہائی نازک صورت حال ہے کہ ایک طرف فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے اور دوسری طرف مسلمان ہی  اسرائیل کی حمایت ان ڈائریکٹلی کر رہے ہیں۔ صرف مساجد میں فلسطین غزہ کے لیے دعائین کرنا اور  اللہ سے دعا کرنا کہ ان  کی غیبی مدد فرما ۔یہ نہ ممکن ہے صرف غزوہ بدر میں  غیبی مدد حاصل ہوئی تھی جس کا تاریخ میں واضح ثبوت بھی ملتا ہےلیکن اس کے بعد غیبی مدد کی کوئی دلیل نہیں اگر آپ نے  اسرائیل اور  بڑے بڑے ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو ان کے ساتھ برابر  کام کریں اگر وہ ٹیکنالوجی میں آ گے ہیں تو آپ کو بھی ان کے برابر ٹیکنالوجی میں برابر ہونا چاہیے اگر وہ معاش میں  آپ سے  آگے ہین تو آپ کو بھی سوچنا چاہیے ۔لیکن پاکستان کی 75 سالہ تاریخ اور اس کے علاوہ آخری 30 سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کو دیمک کی طرح کھانے والے شریف خاندان اور زرداری خان کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے ادارے ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔  


Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning, Jobs, Admission, Online,

No comments:

Post a Comment