ashab e kahf in urdu
ashab e kahf in urdu
اصحاب ِ کہف
اصحابِ کہف کا
واقعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت ِ مبارکہ سے بیس برس قبل
ایشیائے کوچک کے
شہر " افسوس" میں پیش آیا ، جس کے کھنڈرات آج تک موجود ہیں
" قصص
" جمع ہے قصے کی ۔ اور " قصص القرآن " کا مطلب ہے وہ قصے، جو قرآن
میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے۔ یعنی پہلی امتوں کے احوال ، ابنیائے سابقین ، حادثاتِ اقوام کا ذکر، قوموں ، قبیلو
ں ، شہروں ، بستیوں کے احوال و واقعات قرآن کریم میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں،
انہیں دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول ، جو ماضی سے متعلق ہیں اور دوم جو
مستقبل کے حوالے سے متعلق ہیں۔ ماضی کے واقعات
میں اللہ عزوجل نے کل 27 انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض
نیک، فرماں بردار یا نا فرمان افراد دو اقوام کے قصص و واقعات بھی مختلف جگہوں پر
بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان قصوں کو بیان کرنے سے قرآن کریم کامقصود تاریخ نگاری
نہیں۔ بلکہ وہ ان قصوں کو یاد دلا کر ایک طرف تو تذکیر و موعظت کا سامان مہیا فرماتا ہے۔ اور مسلمانوں
کو انبیائے کرام کی دعوت سے سبق لینے پر مجبور کرتا ہے۔ تو دوسری طرف یہ واضع کر
دینا چاہتا ہے کہ سابقہ قوموں اور امتوں کے یہ بصیرت افراز سچے واقعات اُ س ذاِ
گرامی کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں۔ جو سوفی صد بالکل اُمی ہیں اور انہوں نے آج تک کسی کے پاس رہ کر اس قسم کا کوئی علم
حاصل نہیں کیا ۔اس لیے یقینا انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے باخبر کیا جاتا ہے وہ جو
کلام تلاوت فرماتے ہیں وہ کوئی انسانی کلام نہیں خدائی کلام ہے۔ پھر ان قصوں میں علم و حکمت کے بے
شمار خزانے پوشیدہ ہیں ان سے متعلق اک اک آیت
انسانی زندگی کے اَ ن گنت کے حوالے سے درست اور بہترین رہنمائی عطا کرتی ہے جب کہ دوسری قسم ے واقعات
میں قیامت کی نشانیاں ، قیامت کے احوال ، حشرو
نشر کے مناظر ، دوزخ کی ہول ناکیاں اور جنت کی دل فریبیاں بیان کی گئی ہیں۔
اصحاب ِ کہف کون تھے
کوہ صفا سے بلند ہوتی صدائے حق :۔
غارِ حرا سے
طُلو ع خورشیدِ اسلام کی تاب ناک شُعائیں ابھی پورے طور پر ضو فشاں بھی نہ ہوئی
تھی کہ ایک صبح کو ہ ِ صفا کی چوٹی سے فضا میں بُلند ہوتی صدائے حق کی گونچ نے مکہ
کے دروع دیوار پر لرزہ طاری کر دیا ۔ یوں تو " دارِ ارقم" کی
آغوش میں پروزان چڑھنے والی اس تحریک کی
سُن گُن اہل قریشن کو بہت پہلے سے تھی لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بنو ہاشم کے سر
پرست قریش کے سردار ، خانہ کعبہ کے سب سے
بڑے متولی، جناب عبد المطلب کے پوتے ، ابو طالب کے بھیجتے محمد ﷺ
بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ یوں ببانگ ِدل اپنے آباد ؤ اجداد کے دین کے مقابلے میں ایک
اللہ کی پر ستش کی دعوت عام دیں گے۔ تمام اہل مکہ کی موجودگی میں جبل ِ صفا سے
ہونے والے اس اعلان حق سے جہاں یہود نصاریٰ حیران ہوئے وہاں دُوسری طرف اس اعلان
نے اہل قریشن کو شدید غصے اور سخت تشویش میں متبال کر دیا۔ انہیں یہ خدشہ لا حق ہو
گیا کہ کہیں دین السلام کی یہ باِ صبا اُ ن کی شان و شوکت ، دولت و شہرت ، عزت و
احترام ،مذہبی مناصب ، قبائل سرداری ،
سیاسی و معاشرتی ، چوہداہٹ اور اقتصادی و کاروباری ساکھ سمیت کچھ بہانہ لے جائے کہ
ان کی پر تعیش طرز ، شاہانہ ٹھاٹھ باٹ ،
کرود فر اور جاہ و جلال کا سارا دا رومداد کعبے میں نصب پتھر کے اُن 360 بتوں کے نذرانوں اور چڑھا ووں کے مرہون منت تھا
قریشن کو کوسی طور پر گوارانہ تھا کہ رسوم قبیحہ سے تر کیب پائے فاسقانہ تہذیب کے قدیم
آہنی قفس کو اپنے ہاتھوں سے آباؤ اجداد کے دین
سے بغاوت کر یں اور دعوت محمدی ﷺ کو قبول کر کے اپنی
مادر پدر آزادی کو پایہ زنجیر کر دیں۔
چناں چہ وہ
جذبانی ہیجان کے ساتھ غیظ و غضب کے عالم میں حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی
مخالفت و مزاحمت پر کمر بستہ ہو گہئے ۔ طنزو تمسخر ، استہزاد تحقیر، سازش وشرارت کے
ایک طوفان ِ بد تمیزی کا آغاز کر دیا گیا۔ ظلم و تشدد کی بھٹی کو دہکا دیا
گیا اورا س شیطانی کام پر بیش ترا وباش
نوجوان مور کیے گئے۔
علمائے بہود کے تین سوال:۔
قریش کے لیے سب سے مشکل ترین بات یہ تھی ہ ان کے
مد مقابل ایک ایسی عظیم پاکیزہ شخصیت تھی ۔ جس کی زندگی کے چالیس سالوں کا گزر ا
ہوا ہر ہر لمحہ کھلی کتاب کے صفات کی طرں انکے سامنے تھا جس کے
اوصاف حمیدہ ، اخلاق و خصائل ، عادات و اطوار ، صفات و جمال کے اعلیٰ و ارفع ہونے
کے معترف دہ خود تھے ۔ جن کو صادق و امین،
دانا و حکیم ، طاہر و مطہر ، عادل و منصف کے القابات س وہ خودپکاریں جن کا چہرہ انور چودھویں کے چاند کی طرح رشن و
منور ۔ جب بات کریں تو پھول جھڑیں، اہل قریش جن کی محبت سے سر شاد تھے۔ وہ اب
مخالفت کریں تو کیوں کر؟
جھوٹ کہیں تو
کیسے؟ قریش کے سنجیدہ اور با شور افراد عجیب شش و پنج میں مبتال تھے کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نےمدینے کے یہودی علماء سے
مشورے کا فیصلہ کیا اور اپنے دو افراد نصر بن حارثہ اور عقبہ بن ابی معیط کو ان کے
پاس مدینہ روانہ کیا۔
یہودی علماء نے
انہیں مشورہ دیا کہ تم لوگ ان سے تین سوال
کرو۔ اگر انہوں نے ان سوالوں کا صحیح جواب
دے دیا تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی و رسول ہیں اور اگر نہ دے سکے تو سمجھ لینا
کہ وہ رسول نہیں۔
سوالات
1۔ ان سے پہلا
سوال یہ کرو کہ وہ نوجوان کون تھے جو زمانہ قدیم میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے؟ ان
کا کیا واقعہ ہے؟
2۔ دوسرا یہ کہ
ان سے اس شخص کا حال دریفات کرو جس نے دُنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر
کیا ۔
3۔ تیسرا سوال ان سے روح کے متعلق کرو کہ وہ کیا چیز ہے
؟
یہ دونوں سردار
میدنہ منورہ سے خوشی خوشی واپس آئے اور اہل قریش کو علمائے یہود کی
تجاویز سے آ گاہ کر تے ہوئے کہا اب اس بات کا
فیصلہ ہو جائے گاکہ محمد ﷺ نبی ہیں
یا نہیں۔
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سوالات سُن کر فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا۔
سورہ کہف کا شان نزول:۔
یہ سورہ مبارکہ مشرکیں مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ۔ جبر یل علیہ السلام تینوں سوالات کے مفصل جوابات کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے۔ اکثر علماء تیسرے سوال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سوال دراصل قصہ خضر سے متعلق تھا ۔ نہ کہ روح سے متعلق ۔ یہ تینوں قصے عیسائیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں انکا کوئی چرچا نہ تھا۔ اس لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا۔ تاکہ یہ بات کھل جائے کہ محمد ﷺ کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہ نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جوابد یا بلکہ ان کے اپنے پو چھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا ۔ جو اس وقت مکہ میں کفرو اسلام کے درمیان در پیش تھی ۔
سورہ کہف کی خصوصیات وفضائل:۔
حضرت علی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص جمعے کے
دن سورہ کہف پڑھ لے وہ آٹھ روز تک ہر فتنے
سے محفوظ رہے گا۔ اور اگر دجال نکل آئے
تووہ اس فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔
حضرت ابو دردا ء سے روایت ہے کہ جس شخص نے سورہ کہف کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات یا د کر
لین وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
مسند احمد میں
حضرت سہل کی پہلی اور آخری آیات پڑھ لے اس کے لیے اس کے قدم سے سر تک ایک نور ہو
جاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے اس کے
لیے زمین سے آسمان تک نورہو جاتا ہے جمعے کے دن سورہ کہف کی تلاوت سے ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک کہ سب گناہ معاف کر دئیے جاتے
ہیں
روح المعانی میں
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وآصحابہ وسلم نے فرمیاا کہ " سورہ
کہف پوری کی پوری ایک وقت میں نازل ہوئی
اور ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ آئے جس سے اس کی عظمت ِ شان ظاہر ہو تی ہے۔ ( معارف القرآن 5/546)
کہف در قیم معنی و مطلب :۔
سورہ کہف
کی آیت 9 میں اللہ تبارک و تعالیٰ
نے " اصحابِ کہف اور الرقیم" کے الفاظ سے استعمال فرمائے ۔چناں
چہ انہیں " اصحاب کہف " بھی کہا جاتا ہے اور " اصحاب الرقیم "
بھی ۔ عربی زبان میں کہف و سبع غار کو کہتے ہیں جب کہ الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے ۔ عبض
صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ " یہ اس بستی کا نام ہے
جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا ۔ اور
ایلہ یعنی عقبہ اور فلسطین کے درمیان واقع
تھی ۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ
" اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس
غار پر اصحاب کہف کی یاد گار کے طور پر
لگایا گیا تھا ۔ مولونا ابو الکلام آزاد
نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن " میں
پہلے معنی ک وترجیح دی ہے لیکن صاحب تفہیم
کے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔ ( تفہیم
القرآن 3/11)
ضحاک ، سدی اور
ابن جبیر بہ رحمتہ اللہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس
کے معنی
ایک لکھی ہوئی تختی کے قرار دیتے
ہیں ۔ جس پر بادشاہ وقت نے اصحاب کہف کا
نام کندہ کر کے غار کے دروازے پر لگا دیا
تھا قتادہ عطیہ ، عوفی ، مجاہد کا قول یہ ہے کہ رقیم اس پہاڑ کے نیچے کی وادی کا
نام ہے ۔ جس میں اصحابِ کہف کا غار تھا۔ بعض نے خود اس پہاڑ کو رقیم کہا ہے حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں کہ " میں نے ابن عباس رضی
اللہ تعالیٰ عنہ " سے سُنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ رقیم کسی لکھی
ہوئی تختی کا نام ہے یا کسی بستی کا
" ( معارف القرآن 5/550)
اصحابِ کہف کا واقعہ کہاں پیش آیا؟
جس شہر میں اصحاب ِ کہف کا واقعہ پیش آیا عام مفسرین نے اس کا نام افسوس یا افسس قرار دیا ہے۔ یہ ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رُومیوں کا سب سے بڑا شہر اور
مشہور بندر گاہ تھی جس کے کھنڈرات آج موجودہ ترکیہ کے شہر ازمیر ( سمرنا) سے 20 سے
25 میل دور جنوب میں پائے جاتے ہیں (
تفہیم القرآن 3/12)
بعض علماء نے
اصحاب ِ کہف کی جگہ اور مقام کی
تاریخی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ جس ظالم بادشاہ کے خوف سے
اصحاب ِ کہف نے غار میں پناہ لی تھی اس کا زمانہ 250 عیسوی تھا پھر لگ بھگ تین سو
سال تک یہ لوگ سوتے رہے اس طرح مجموعہ 550 عیسوی ہو گیا اصحابِ کہف کے بے دار ہونے
کا واقعہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت ِ مبارکہ سے بیس سال پہلے پیش آیا ۔
مختلف تفاسیر میں بھی ان کا مقام شہر اِفسوس
یا طر سوس کو قر ار دیا ہے جو ایشیائے
کوچک میں تھا اب اس کے کھنڈرات
موجود ہیں ( معارف القرآن 5/556)
امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ " ہمیں
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے ان
حالات کی خبر دی ۔ جن کا ذکر قرآن میں ہے ۔ تاکہ ہم انہیں سمجیں اور ان کے بارے
میں تدبر کریں اور اس کی خبر نہیں دی کہ یہ کہف کس زمین اور کس شہر میں ہے کیوں کہ اس میں ہما را کوئی
فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شرعی مقصد
اس سے متعلق ہے ۔ ( ابن کثیر 75)
قِصہ اصحابِ کہف :۔
یہ 250 عیسوی
کی بات ہے کہ جب شہر اِفسوس یا طرسوس
پر ایک ظالم و جابر بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ جس کا نام
" دقیانوس " تھا بادشاہ کے حکم کے مطابق ہر سال شہر سے باہر ایک مذہبی میلہ منعقد کیا
جتا تھا۔ جس میں دیگر خرافات کے ساتھ
ساتھ پوجات پاٹ ہو تی اور جانوروں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی تھی بادشاہ سب کو بُت پرستی پر مجبور کرر تا تھا ۔ جو پس و
پیش سے کام لیتا ۔ اُ سے قتل کر دیا جاتا اُ س سال میلے میں چند مسیحی نوجوان بھی
شامل ہوئے جو اپنی قوم کے نمائندے تھے۔ اُن نوجوانوں نے میلے کے دوران قوم کو پتھر
کے بتوں کے آ گے سجدہ کرتے اور ان کے لیے خون کے نذرانے پیش کرتے دیکھا تو انہٰں قوم کی ان احمقانہ حرکتوں پر بڑا
فسوس ہوا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میلے کے ہزاروں لوگوں میں سے چند کے دل مین پوجا پاٹ سے شدید نفرت کے جذبات پیدا فرما دیئے ۔
بھائیو ! میری قوم جن پتھر کے بُتوں کی پو جا کر رہی ہے
یہ سب باطل ہے کفر ہے یہ بے جان بُت ہمارے خدا نہیں ہو سکتے ۔ ہمارا خدا تو صرف ایک ہے جس کا کوئی شریک و ثانی نہیں۔ اس
نوجوان کے یہ الفاظ تو گویا باقی نوجوان کے دل
کی آواز تھی ۔ یوں چند منٹوں ہی میں یہ لوگ ایک دُ وسرے کے دوست اور رفیق
بن گئے پھر انہوں نے قوم سے بغاوت کر کے ایک اللہ کی پیروی کے لیے اپنی ایک خفیہ
عبادت گاہ قائم کر لی ۔ لیکن ان کی یہ عبادت گاہ زیادہ عرصے تک چھپی نہ رہ سکی اور اس کی خبر
سینہ بہ سینہ گردش کرتی ہوئی بادشاہ کے اکوں تک جا پہنچی ۔ بادشاہ نے ان سب کو
دربار میں طلب کر لیا ۔ یہ نوجوان دربار
میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان سے ان کے
عقیدے کے بارے میں سوالات کیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے دل سے ڈرو خوف ختم کر دیا تھا۔
چناں چہ انہوں نے بلا خوف و خطر نہ صرف اپنا عقیدہ بیان کیا بلکہ بادشاہ کو بھی دعوت دے ڈالی ۔ بادشاہ اور اہل
دربار ان نوجوانوں کی بے باکی اور دلیری
پر حیران رہ گئے کیوں کہ یہ نوجوان امیرو کبیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں چند دنوں کی
مہلت دیتے ہوئے حکم سنایا کہ اگر ان چند
دنوں میں تم لوگ راہ ِ راست پر نہ آئے ۔ تو تم سب کو قتل کر دیا جائے گا۔ دقیانوس بادشاہ کی سفا کی مشہور تھی نوجوانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ چند دن بعد انہیں
بے دردی سے قتل کر دیا جائے گا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مومن بندوں کی مدد فرمائی اور اس چند روز مہلت سے
فائدہ اُٹھا تے ہوئے یہ نوجوان شہر سے دور ایک غار میں رو پوش ہو گئے ( معارف
القرآن 5/560)
شہر اِفسوس بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز:۔
جس زمانے میں اصحاب ِ کہف یعنی ان خُدا
پرست نوجوانوں کو آبادی سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی ۔ اُس وقت
شہر اِ فسوس / اِ فسس ایشیائے کوچک میں بُت پرست اور جادُو گری کا سب سے بڑا مرکز
تھا۔ وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت پوری دُنیا میں پھیلی
ہوئی تھی ۔ لوگ دُور دُور سے اس کی پوچا
کے لیے آ تے تھے وہاں کے جادو گر عامل ، فال اور تعویذ نویس دُنیا میں مشہور تھے اُن کا کاروبار شام ، فلسطین اور مصر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی
اچھا خاصا حصہ تھا ۔ جو اپنے فن کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی جانب منسوب کرتے
تھے ۔ ( تفہیم القرآن 14/3)
اللہ تعالیٰ نے
اصحابِ کہف کی دُعا قبول فرما کر اُنپر تین سو نو سال تک کی طویل نیند طاری کر دی
۔اُن کی تازہ دَم آنکھیں دیکھ کر یوں محسوس ہو تا، جیسے ابھی لیٹے ہوں۔
ظالم بادشاہ ، دقیانوس نے اصحاب ِ کہف کو اشتہاری
مجرم قرار دے کر اُن کے نام اور پتے ایک تختی پر لکھوا کے محفوظ کروا دیئے تھے۔
غار میں نوجوانوں کی دعا :۔
جب نوجوانوں نے غار میں پناہ لے لی تو کہنے لگے
" اے ہمارے رب ! تو ہمیں رحمت اور آ سانی عطا فرما اور ہمارے معاملات میں
عافیت کا راستہ اور اپنے خاص خزانہ فضل سے
رحمت کا بندو بست فرما دے"
اللہ تبارک و
تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور غار
کے اندر اُن پر ایک طویل نیند طاری کر دی اور وہ نو اوپر تین سوسالوں تک سوتے رہے ۔
غار کا ہیبت ناک منظر :۔
جس غار میں یہ نوجوان سو رہے تھے وہ ایک سنسان
جگہ پر واقع تھا ۔ جہاں لوگوں کا آنا جانا بالکل نہیں تھا۔ اس غار کا دہانہ شمال کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی اندر روشنی منعکس ہو کر آتی تھی براہ
راستہ روشنی یا دُھوپ نہیں پڑتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے اُن کی نیند کے دوران کروٹیں
بدلنے کا اہتمام بھی فرما یا ہوا تھا۔
یہ غار
اندر سے کافی کشادہ تھا۔ اس کے
دہانے پر ان کا کتا دونوں ہاتھ پھیلا ئے اپنے مخصوص انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ ویرانے اور سنسان جگہ پر ایک اندھیری غار اور اس کی دہلیز پر اپنے بازو
پھیلائے بیٹھا ہوا یک خوف ناک کتا ۔ یہ
ایک ایسا بھیانک منظر تھا کہ جو بھی دیکھتا ڈرکے ماے ہیبت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ
جاتا ۔ ( بیان القرآن 350/4)
دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کرنا:۔
علامہ عماد الدین
ابن کثیر فرماتے ہیں کہ " دین کی حفاظت کے لیے دُوسرے محفوظ مقام پر
ہجرت کر جانا کہ جہاں وہ اپنی عبادت کر سکیں ، تمام انبیاء کی سنت ہے اور اصحاب کہف نے بھی اس سنت پر عمل کیا" حضرت ابو سعید
خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا
کہ " مسلمان اپنے دین کو بچانے کے خاطر فتنوں سے راہِ فرار اختیار کر کے اپنے
مال اور بکریوں کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں اور
بارش کے مقامات پر ہجرت کر جائیں گے " ( صحیح بخاری 19)
اصحاب کہف اللہ کی حفاظت میں:۔
اللہ تعالیٰ
اپنے محبوب بندوں کی حفاظت کس طرح
فرماتا ہے مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ
عام لوگوں کی نصیحت کے لیے اس کا اظہار فرماتا رہتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی کس طرح حفاظت فرما کر فرعونِ وقت کے ہاتھوں پر پروان چڑھا یا ۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آ گ گُل و
گل زار فرما دی۔ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کو دُشمنوں سے محفوظ فرما کر صحیح سلامت
اسمانوں پر ا ٹھایا اللہ کے نبی
حضرت محمد ﷺکے گھر کے بارہ قریش مکہ کے تمام سردار شمشیر برہنہ لیے منتظر ہیں کہ آج قصہ تمام کر
دیا جائے گا۔ لیکن جب حضور پر نور ﷺ گھر سے
باہر تشریف لائے تو اللہ نے ان تمام خون خوار جنگجوؤں کی بینائی سلب فرما دی
اور وہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو حضور پر نور ﷺ کی جگہ سوتے دیکھ کر صبح تک مطمئن کھڑے رہے ۔ مدینہ منورہ
ہجرت کے وقت غار ِ ثور میں اللہ کے نبی ﷺ ، حضرت محمد ﷺ ، سیدنا ابو بکر
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ
تشریف فرما ہیں۔ دُشمن تلاش کرتا ہوا غار ثور کے دہانے پر
پہنچ چکا ہے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرما تے ہیں کہ " میں غار ِ ثور
میں نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ جب میں نے اپنا سر اٹھایا تو کچھ
لوگوں کے پاؤں نظر آئے ۔ میں نے عرض کیا۔
یارسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! اگر ان میں
سے کسی نے بھی اپنی نگاہ نیچی کی ، تو ہمیں دیکھ ل گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو بکر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! خاموش رہو ، ہم د وآدمی ایسے ہیں جن کے ساتھ تیسرا
ہمارا اللہ ہے "
( صحیح بخاری
3922)
حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ روم کے
وقت کہف کی طرف سے گزرتے ہوئے مقام اصحابِ
کہف کے اند داخل ہونے کا ارادہ کیا ۔ حضرت
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جنگ میں ساتھ
تھے ۔ انہوں نے منع کی اور یہ آیت
پڑھ کر سنائی
ترجمہ:۔
"اے سننے والے ، اگر توا نہیں جھانک
کر دیکھ لے تو اُ ن سے پیٹھ پھیر کر بھا گے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے ۔ ( سورہ
کہف 18)
اصحاب ِ کہف کا بے دار نظر آنا :۔
سورہ کہف
میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے
کہ" آپ خیال کرتے ہیں کہ وہ بے دار
ہین حالاں کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور خود ہم ہی انہیں دائین بائین کروٹیں دلایا کر تے تھے " ( سورہ کہف 18)
آیت کی تفسیر میں مفسریں فرماتے ہیں کہ اُن کی
آنکھیں اس طرح کھلی ہو ئی تھیں جس طرح
جاگنے والے شخس کی کھلی ہوتی ہیں اور چون کہ انہیں فرشتے کروٹیں دلوایا کرتے تھے ۔
لہٰذا وہ بےد ا ر نظر آ تے تھے۔ اور اگر کوئی شخص دیکھنے والا ہوتا تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ابھی ابھی
لیٹے ہیں۔
حالانکہ کہ وہ تین
سو نو سال سال تک مستقل سوتے رہے
۔ کروٹیں بدلنے میں حکمت یہ تھی کہ نہ صرف
ہو بے دار نظر آئیں بلکہ ایک ہی کروٹ میں لیٹنے کی وجہ سے مٹی اُن کے جسم کے ایک
حصے کو نہ کھا جائے۔
اصحاب کہف کا کتا:۔
قرآن کریم
میں اصحاب ِ کہف کے کتے کا ذکر ہے جو
اصحابِ کہف کے ساتھ غار میں ایک
طویل مدت تک رہا ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اصحاب ِ کہف نے اپنے ساتھ کتا کیوں رکھا؟
1۔ اس کا ایک
جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ کتا پالنے کی ممانعت
شریعت محمدی ﷺ میں ہو اور ممکن کہ دین مسیح علیہ السلام میں
یہ ممنوع نہ ہو۔
2۔ دُ وسرا یہ قرین قیاس ہے کہ یہ لوگ چوں کہ صاحب جائیداد اور صاحب مویشی بھی تھے اس لیے ان کی حفاظت کے
لیے کتا پالا ہو۔ کیوں کہ کتے کی وفا داری مشہور ہے اس لیے یہ جب شہر سے چلے تو وہ
بھی ساتھ لگ گیا ہو ۔ ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ " میرے والد ماجد نے ابو
الفضل جوہری کا ایک وعظ 469 ہجری میں جامع
مصر کے اندر سنا وہ بر سر منبر یہ فرما
رہے تھے کہ " جو شخص نیک لوگوں سے محبت کر تا ہے اُن کی نیکی کا حصہ اسے بھی
ملتا ہے دیکھو اصحاب کہف کے کتے نے ان سے
محبت کی اور ساتھ ہو لیا ۔ تو اللہ تعالیٰ
نے قرآن کریم میں اس کا ذکر فرمادیا " ( معارف القرآن 568/5)
اصحاب کہف کا ساتھی شہر کے بازار میں:۔
سورہ کہف میں آیت
19 میں اصحاب کہف کے دوبارہ بے دار ہونے اور اشیائے خورو نوش خریدنے کے لیے شہر
جانے کا ذکر ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ" جس طرح ہم نے انہیں اپنی
قدرت سے سے سلایا تھا۔ اُسیطرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انہیں اس حال میں
اُٹھایا کہ اُن کے جسم اسی طرح صحیح سالم
تھے ، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے "
اس لیے بے دار
ہونے کے بعد انہوں نے آپ میں ایک
دُوسرے سے سوال کیا گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے تو صبح کا
پہلا پہر تھا اور جب بے دار ہو ئے تو دن کا آخری پہر تھا۔ یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس
سے کم دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ۔ تاہم کثر ت
نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر انہوں نے معاملہ اللہ پر
چھوڑ دیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے بیدار
ہونے کے بعد انہیں خوراک کا بندوبست کرنے کی فکر ہوئی ۔ چناں چہ پاکیزہ کھانے کی
جستجو اور احتیاط کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اصحاب ِ کہف کا ایک ساتھی چاندی
کا وہ سکہ لے کر شہر کی جانب گیا ، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے
کا تھا اس نے وہ سکی ایک دُکان دار کو دیا
تو کئی سو سال پرانا سکہ دیکھ کر دُکان دار سخت حیران ہوا اُ س نےد وسری دکان ولاے
کو دیکھا وہ بھی دیکھ کر حیران ہوا ۔ چند اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور اُ س سے پوچھ
گچھ شروع کر دی ۔اصحاب ِ کہف کا ساتھی
یہی کہتا رہا کہ میں اسی شہر کا با شندہ ہو ں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں۔ " لین اس کل کو تین صدیاں گزر چکی تھیں
لوگ کس طرح اس کی بات پر یقین کر لیتے ؟ لوگوں کو شبہ ہوا کہ کہیں اس شخص کو مد فون خزانہ نہ ملا
ہوا ۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر بادشاہ کے
دربار میں پیش کر دیا"
( تفسیر ، مولانا
صلاح الدین یوسف 805)
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے نیک بادشاہ کی دعا قبول کر لی:۔
غار میں
اصحاب ِ کہف کے جانے کے وقت جو
ظالم اور مشرک بادشاہ دقیاس اس شہر میں
مسلط تھا۔ اُ سے مرے ہوئے صدیاں بیت گئی
تھیں ۔ اور اس وقت اس مملک پر تو
حید پہ یقین رکھنے والے ایک نیک اور صالح بادشہا کی حکوتم تھی۔ تفسیر مظہری میں اس
بادشاہ کا نام ، " بیدوسیس" لکھا ہے اس کے زمانے میں اتفاقا ً
قیامت اور اس میں سب مردوں کے دوبارہ زندہ
ہونے ے مسئلے پر کچھ اختلافات عوام میں پھیل گئے ۔ ایک فرقہ اس کا منکر ہو
گیا کہ جسم کے گلنے سڑنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانا کیسے ممکن ہے؟
بیدوسس بادشاہ کو فکر لا حق ہوئی کہ کس طرح اُن کے شکوک و
شبہات دور کئے جائیں؟ جب کوئی بھی تدبیر
نہ بن پڑی تو اس نے ٹاٹ ک کپڑے پہنے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ سے دعا اور الحاج وزاری شروع
کر دی کہ " یا اللہ ! تو ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دے کہ جس سے
ان لوگوں کا عقیدہ صحیح ہو جائے اور یہ
راہ راست پر آ جائیں ۔ "
ایک طرف تو یہ
نیک بادشاہ گریہ وزاری اور دعا میں مصروف
تھا دوسری طرف اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُ
س کی دعا کی قبو لیت کا یہ سامان پیدا کر
دیا کہ اصحاب کہف بےد ار ہو گئے اور انہوں نے تملیخا نامی اپنے ایک آدمی کو اُ
نکے بازار میں بھیج دیا ووہ کھانا خریدنے کے لیے دُکان پر پہنچا اور تین سو برس پرانا سہ ، جو بادشاہ
دقیانوس کے زمانے کا تھا ۔ اشیائے خوردو
نوش کے حصول کے لیے قیمتا ً پیش کیا ۔ تو دُکان
دار حیران رہ گیا اُ س نے بازار کے دوسرے دُکا ن داروں کو دکھایا سب نے یہ کہا کہ کہیں سے پرانا خزانہ اس شخص کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اور یہ سکہ اسی خزانے
کا ہے نتیجتا ً اس کے لاکھ انکار کے باوجود
اسے گرفتار کر کے بادشاہ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا ۔ بادشاہ نیک اور صالح تھا ۔ اس نے لسطنت کے
پُرانے خزانے کے آثار قدیمہ میں کہیں وہ تختی
بھی دیکھی تھی جس میں اصحاب ِ کہف
کے نام اور فرار ہو جانے کا واقعہ تحریر تھا۔
بعض رووایات میں
ہے کہ خود ظالم بادشاہ دقیانوس نے اصحابِ
کہف کو اشتہاری مجرم قرار دے کر اُن ے نام اور پتے کی تختی
لکھوا کر محفوظ کر وا دیا تھا کہ یہ جب
کبھی کہیں نظر آئیں تو انہیں گرفتار کر لیاجائے۔
تاہم بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ دربار شاہی میں کچھ ایسے مومن بھی تھے جو
دل سے بُت پر ستی کو برا جانتے اور اصحاب کہف کو حق پر سمجھتے تھے۔ مگر بادشاہ کے
خوف کی وجہ سے وہ یہ بات ظاہر کرنے کی ہمت
نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے یہ تختی بطور
یاد گار لکھ لی تھی ۔ اسی تختی کا نام
رقیم ہے۔ جس کی وجہ سے اصحابِ کہف
رقیم بھی کہا گیا ۔ بادشاہ اصحاب ِکہف کے واقعے سے کسی حد تک واقف تھا اور اس وقت
وہ اپنے ر ب کے حضور اس دُعا میں
مشغول تھا کہ کسی طرح لوگوں کو اس بات کا یقین آجائے کہ مردہ اجسام کو زندہ کر
دینا اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کاملہ
کے سامنے کچھ بعد نہیں۔
بادشاہ نے
تملیخا سے بہت سے سوالات کیے ۔ جن کے جوابات سے اطمیان کے بعد بادشاہ کو یقین ہو
گیا کہ یہ شخص اصحابِ کہف میں سے ہہے اس موقعے پر بادشاہ نے کہا " میں اکثر
اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کر تا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے ملا دے ۔ جو دقیانوس کے خوف سے اپنا ایمان بچا کر بھا گے تھے۔
"
بادشاہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ " شاید اللہ تبارک و
تعالیٰ نے میری دُعا قبول فرما لی اور یہ
واقعہ اپنی آنکھ سے دیکھ کر لوگ یقین کر لیں کہ اللہ تبارک و
تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ زندہ کر نے پر
قادر ہے اور موت و زندگی اس کے ہاتھ میں ہے "
یہ کہہ کر بادشاہ نے اس شخص نے کہا کہ م"
مجھے اس غار پر لے چول جہاں سے تم آئے
ہو" ( معارف القرآن 574/5)
اصحاب کہف کی بادشاہ سے ملاقات اور موت کا واقع ہونا:۔
با دشاہ اہل شہر کے ایک بڑے
مجمع کے ساتھ غار کی جانب روانہ ہوا ۔ جب
غار کے قریب پہنچے تو تملیخا
نے کہا کہ
" آپ ذرا
یہاں ٹھہریں میں اپنے ساتھیوں کو حقیقت
حال سے باخبر کر کے آپ کے آنے کی اطالع دے دوں ایسا نہ ہو کہ اچانک آپ سب کو دیکھ
کر وہ یہ سمجھیں کہ ہمارا دشمن
ہم پر چڑھائی کرنے آ گیا ۔ "
چناں چہ ان سب
کو ذرا دور کھڑا رک کے تملیخا غار کے اندر
گیا اور اپنے ساتھیوں کو تمام حالات سے آ
گاہ کیا اس کے ساتھی یہ سُن کر بڑے حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی وہ باہر آ گئے۔
عزت و احترام کے ساتھ بادشاہ کا استقبال کیا اور پھر اپنے غار میں واپس لوٹ
گئے یہاں پر اہل سیر میں اختلاف رائے ہے
اور مختلف روایات ہیں اکثر مئو رخیں نے لکھا کہ جس وقت تملیخا نے ساتھیوں کو یہ سارا قصہ سنایا ۔ تو اُ سی وقت اُن سب کی موت واقع ہو گئی اور بادشاہ سے
ملاقات نہیں ہو سکی ۔ تفسیر بحر محیط میں ابو حیان نے یہ روایت نقل کی ہے کہ
ملاقات کے بعد اصحابِ کہف نے ابدشاہ اور
اہل شہر سے کہا کہ اب ہم آپ سے رخصت چاہتے
ہیں اور غار کے اندر چلے گئے اور اسی وقت وہ سب وفات پا گئے ۔( معارف القرآن 6/576)
اصحاب ِ کہف کی تعداد :۔
اس سوال کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ حضو ر نبی کریم خاتم النبیین
ﷺ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ
" کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف
تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا
کتا تھا ( یہ لوگ ) غیب کی باتوں میں انکل ( کے تیر تکے ) چلاتے ہیں۔ کچھ کہیں گے کہ وہ ساتھ تھے
اور آٹھوان ان کا کتا ہے
آپ کہہ دیجئے کہ
میرا پرو دگار ان کی تعداد کو بخوبی جاننے والا ہے انہیں بہت ہی کم لوگ جانت ہیں
پس اُ ن کے مقد مے میں صرف سر سری گفتگو
ہی کریں ۔ اور ان میں سے کسی سے اُن
کے بارے میں پوچھ چھ بھی نہیں
کریں" ۔ ( سورہ کہف آیت 22)
بعض مفسرین نے
چند صحابہ کرام کے حوالے سے یہ
اندازہ ظاہر کیا ہے کہ اُن کی تعداد سات
ہوسکتی ہے لیکن اصل حکم وہی ہے کہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وآصحابہ وسلم نے فرما دیا کہ " آپ کہہ دیجیے کہ میرا پرو
ردگار ہی اُن کی تعداد کو بخوبی
جاننے والا ہے " اس کے ساتھ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے بارے میں غیر ضروری گفتگو ، پوچھ گچھ اور چھان بین سے بھی منع فرما دیا۔
چناں چہ اُمت مسلمہ کو بھی چاہیے کہ صرف اتنی ہی ہدایات اور معلومات پر اکتفا کر یں جو اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُ
س کے پیارے حبیب حضور پر نور ﷺ نے فراہم
کیں۔
غار میں قیام کی مدت:۔
سورہ کہف
میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے " وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزار ے"
( سورہ کہف آیت 25)
آیت نمبر 26 میں
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے " اے
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کو
ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخو بی علم ہے آسمانوں اور زمینوں کا غیب صرف
اُ سی کو حاصل ہے " ( سورہ کہف آیت 26)
تفسیر کے مطابق ، اس کا مطہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس مدت سے اختلاف کرے تو آپ اُن سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتائی ہے تو یہی صحیح ہے کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں
رہے؟ کیوں کہ آسمانوں اور زمین کا تمام تر علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
اصحاب ِ کہف کی یادگار :۔
اصحاب ِ کہف کی بزرگی اور تقدس کے تو سب ہی قائل ہو چکے تھے اُن کی وفات کے بعد سب کا خیال ہوا کہ غار کے پاس کوئی عمارت بنا دی جائے شہر میں کچھ بُت پرست بھی تھے ان لوگوں کا مشورہ تھا کہ یہاں بطور یاد گارہ رفاہ عامہ کی کوئی عمارت بنا دی جائے مگر اربابِ حکومت ، بادشاہ اور عوام کی اکثریت اہل کتاب میں سے تھی اور ان ہی کا غلبہ تھا اُن کی رائے یہ تھی کہ یہاں مسجد بنا دی جائے ۔ جو یادگار بھی رہے اور آئندہ بُت پرستی سے بچا نے کا سبب بھی بنے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت 21 میں اس کا تذکرہ فرما دیا ہے۔
مختلف غاروں کے متعلق اصحابِ کہف کے غار ہونے کا گمان:۔
قصہ اصحاب کہف کے تاریخی اور جغرافیائی واقعات میں اہل تفسیر اور مئو رخین میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دین مسیح علیہ السلام میں رہبانیت کو بڑا مقدس مقام حاصل ہے ۔ چناں
چہ جن ممالک میں عیسائیت تھی وہاں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اللہ کی عبادت کی خاطر
اپنی پوری زندگی غاروں میں گزار دی اور
وہیں وفات پا گئے پھر جب کبھی کھدائی یا صفائی کے دوران وہاں سے بو سیدہ لاشیں اور
دیگر سامان ملا تو مئو رخین کو اصحاب کہف
کا گمان ہوا ۔ تفسیر ابن کثر ، ابن جریز ،
ابن ابی حاتم ، قر طبی اور اُندلسی سمیت مستند
تفاسیر میں ایسے بہت سے مئورخین نے اس پر بہت زیادہ غور و فکر اور تحقیق کی ہے لیکن ان کی روایات و حکا ت اور آثار و قرائن اس درجہ
مختلف ہیں کہ اس تحقیق وکاوش کے بعد بھی کوئی قطعی فیصلہ ممکن نہیں۔
جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ، تم بھی مبہم رکھو:۔
اس قصے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صرف ان واقعات کو بیان فرمایا ہے کہ جو
ضروری تھے پھر اللہ کے نبی حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بھی حدیثِ مبارکہ میں اس سے متعلق کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی ۔ آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد
صحابہ کرام رضوان الاجماعین اور تابعین رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اللہ کے احکامات
اور سُنت ِ نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے جو ضابطہ کار اپنا یا اسے علامہ جلال الدین
سیوطی رحمتہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف
" الا تقان فی علوم
القرآن " میں بیان
فرمایا۔
ترجمہ : ۔ جس
غیر ضروری چیز کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے
مبہم رکھا ، تم بھی اسے مبہم رہنے دو، اسلیے کہ اس میں بحث و تحقیق کچھ مفید
نہیں"
علامہ عما د
الدین اب کثیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں تحریر کر تے ہیں کہ " اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں اصحابِ کہف کے حالات کے بارے میں اتنی خبر دی ہے جسے ہم
سمجھیں اور تدبر کریں۔ اس کی خبر نہیں دی
کہ کہف کس زمین اور کس شہر میں ہے کیوں کہ اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں اور نہ
کوئی شرعی مقصد اس سے متعلق ہے۔ ( ابن کثیر 3/75)
No comments:
Post a Comment