what is AI? | How does it work | Definition, Example and type Complete Article in Urdu - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Friday, June 2, 2023

what is AI? | How does it work | Definition, Example and type Complete Article in Urdu

What is AI? | How does it work | Definition, Example and type Complete Article in Urdu 


What is AI? Everything to know about artificial intelligence in Urdu

What is AI? | How does it work | Definition, Example and type Complete Article in Urdu


چینی ٹیلی وزیژن  کا اینکر انتہائی پر اعماد ادناز سے خبریں پڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ" میر ی کوشش ہو گی کہ آپ کو تازہ ترین تبدیلیوں سے آگاہ کرتا رہوں۔ کیوں کہ خبروں کا مواد میرے سسٹم میں چوبیس گھنٹے ، کسی رکاوٹ کے بغیر ٹائپ ہوتا رہتا ہے اِ س سے پہلے کہ میں خبریں ختم کرو ں، میری طرف سے  دنیا کے تمام صحافیوں  کے لیے نیک تمنائیں ۔ میں جانتا ہوں کہ مجھے ابھی خُود میں بہت  بہتری لا نے کی ضرورت ہے"

لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نیوز اینکر کوئی انسان نہیں ، بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس یعنی مصنوعی  ذہانت  یا ( اے آئی ) سے تیار کردہ ایک روبوٹ تھا ۔ اِسے پہلی بار چین میں منعقدہ عالمی انٹرنیٹ کا نفرنس میں پیش کیا گیا۔ یہ روبوٹ اینکر 24 گھنٹے کام کر سکتا ہے۔ وڈیوز سے ازخود معلومات  حاصل کر  کے خبریں بنا تا ہے اور پھر کسی بھی پر و فیشنل اینکر کی طرح اُنہیں  اسکرین پر پڑھتا بھی ہے یہ اینکر مشہور چینی  خبر رساں ایجنسی " زن ہوا" سے وابستہ ہے ، جسے اُ س نے سرچ  انجن " سوگوا" کے اشتراک سے تیار کیا۔ یہ روبوٹ نیوز اینکر ، میڈیا انڈسٹری کے لیے ایک انقلاب ہے جب کہ ( اے آئی ) کے ایسے ہی انقلابات  دنیا کی ہر صنعت میں رُو نما ہو رہے ہیں اس نے  انسانی معاشرے کو کئی چیلنجز  سے دو چار کر دیا ہے یہ صرف انسانی روز گار کا مسئلہ نہیں  بلکہ اس نے سیاست ، اقتصادیات اور دوسرے تمام شعبوں کو انقلاب کے خوف سے دو چار کر دیا ہے کیا مشینیں ، انسانوں کی جگہ لے لیں گی ؟ یہ ایک اہم سوال بن چُکا ہے اس انقلاب کا خوف اِ س لیے بھی ہے کہ خود ا س ٹیکنالو جی کے موجد کا کہنا ہے کہ  ( اے آئی )  کے روبوٹس ایک روز ذہانت اور کام میں انسانوں سے آ گے نکل جائیں گے " جس نیوز اینکر کا ہم نے ذکر کیا  ، وہ تو 2019 ء کی بات تھی ۔ لیکن گزشتہ ماہ کویت میں ایک روبوٹ خاتون  نیوز اینکر نے خبریں پڑھنا شروع کی ہیں۔ اُ س نے اسکریں پر نمودار  ہو کر کہا " میرا نام فدہا ہے اور میں کیوت کی پہلی ( اے آئی) نیوز اینکر ہوں۔  بتائیں آپ کیسی خبریں سُننا  پسند کرتے ہیں۔

گزشتہ صدی کی ایجادات:۔

گزشتہ صدی نے سائنس اور ٹیکنالو جی میں جو ترقی دیکھی وہ انسان کے وجود میں آنے س اب تک کی تمام ایجادات پر بھاری ہے۔ نیو کلیئر سائنس میںپیش قدمی ایٹم بم کی ایجاد ، انسان کا چاند   پر اُتر نا اور مریخ کی تسخیر اِ س ترقی کی نمایاں مثالیں ہیں  تو ریڈیو ، ٹی وی ، سٹیلائیٹ نے بھی مواصلات کی دنیا بدل ڈلای اور مغرب نے انہی کی مدد سے سو ویت ایمپائرز  تہس نہس کی ۔ پھر موبائل فون اور انٹر نیٹ نے دنیا کے گلوبل ویلج کے خواب تعبیر دی ۔ موبائل فون کی شکل میں پوری دنیا امیر ، غریب کے ہاتھوں میں  سمٹ گئی وہیں ا س نے علم اور معاشی ترقی کی نئی راہیں بھی کھولیں ۔ اِ سی لیے ہمارے مُللک میں کہا جا راہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور یہی عوامی انقلاب لاتا ہے اِسی سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کو اِن دنوں ایک آزمائش  اور شکست   و ریخت سے دو چار کر رکھا ہے اِسی طرح میڈیکل ٹیکنالوجی کی پیش رفت بھی غیر معمولی ، بلکہ  ناقابل یقین ہے جس کا یک مظاہرہ کو رونا  وبا کے دَوران دیکھا گیا ۔ جب صرف چند ماہ میں تیار ہونے والی ویکسین  نے دنیا کو وبا کی تباہ کاریوں سے نجات  دلادی ، جب کہ خود ڈاکٹرز اور طبی ماہرین بھی اس امر پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایٹم بم نے جنگ کی ہیبت  بدلی ، سیٹیلائٹ نے ذہنوں پر براہ راست اثر انداز ہونے کی تبدیلی دیکھی،  تو انٹر نیٹ   نے معاشرے میں فرد کی آزادی اور معاشرتی اقدار کے لیے ایسے چیلنجز  پیدا  کیے جن سے معاشرے  نبر د آزما ہو نے  میں پریشانی  کا سامنا کر   رہے ہیں ۔ جب اس نو عیت کی کوئی انقلابی ایجاد سامنے آتی ہے تو اصل مسئلہ اُسے سیاست اور معاشرت کے  تابع کرنے کے لیے قوانین  وضع کرنا ہوتا ہے انسانی آ زادی ہر فرد کا اولین حق تو ہے مگر یہ بھی حقیق ہے کہ مادر پدر آزادی  خود اُس کے لیےاور معاشرے کے لیے تباہ کُن ثابت ہو تی ہے۔ اسی لیے اس آزادی  کو کسی نہ کسی حد میں  رکھنا ضروری ہے۔ آ ر ٹیفیشل انٹیلی  جینس جس تیزی سے ہماری زندگیون اور خاص طور پر ترقی   یافتہ ممالک کے معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے اس لیے لازم کر دیا کہ اس ٹیکنالوجی  سے متعلق ضروری قوانیں  مرتب کیے جائیں ۔ اس ضمن میں  جو خدشا ت سامنے آ رہے ہیں اُن کا تعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ اور روز گار کے مواقع میں کمی سے متعلق ہے امریکا اور بر طانیہ دونوں ہی نے اِ س سلسلے میں گزشتہ ہفتے اہم پیش رفت کی ۔ امریکا میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے بڑے ناموں کو  وائٹ  ہاؤس  بلایا گیا۔ اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ عام لوگوں کو مصنوعی ذہانت کے منفی اور مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کو یقینی بنائیںَ اُن میں گوگل کے سندر پچائی ، مائکرو سافٹ کے ستیا نا ڈیلا اور اوپن  آئی اے کے ایم آلٹم شامل تھے۔  انہیں یاد دلایا گیا کہ اُ ن پر معاشرے کے تحفظ  کی اخلاقی ذمے داری عاید ہو تی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے یہ بھی وارننگ دی کہ اس سیکٹرپر کڑی نظر رکھی جائے گی امریکا اے آئی کا لیڈر ہے اور اس کی ممتاز اور بڑی ٹیکنالوجی  کمپنیز نے اس شعبے میں انقلابی اور برق رفتار پیش قدمی کی ہے انہوں نے چیٹ جی پی ٹی اور بارڈ جیسے سافٹ ویئر تیار کیے ہیں جن کی مدد سے سیکنڈز میں کمپیوٹر کو ڈز نکالے جا سکتے ہیں اُن کا کمال یہ ہے کہ یہ تخلیق  تک کر سکتے ہیں جواب تک صرف انسانی ذہن کا خاصہ تھا یہاں تک کہ ان کی مدد سے شاعری بھی کی جا سکتی ہے اور یہ  سب اس خوب صورتی اور پر فیکشن سے ہوتا ہے کہ کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا ۔ کہ یہ کسی مشین نے کیا ہے دوسرے الفاظ میں اس ٹیکنالوجی سے انسانی ذہن کی ہو بہو نقل کی جا رہی ہے۔ اِسی تشویش ناک صُورت حال نے بہت سے اندیشوں کو جنم دیا ہے یہ سوال سامنے آ یا کہ(اے آئی ) ے فوائد زیادہ ہیں کہ مضر اثرات ۔

آرٹیفشل انٹیلی جینس کے موجد  ہنٹن نے جن کا تعلق گوگل سے تھا ۔ اپنی نوکری سے استعفا دیتے ہوئے کہا  کہ مجھے اپنے کام پر افسوس ہے کہ انہوں نے کہا کہ "( اے آئی ) چیٹ پائس کے چند خطرات ڈرا دینے والے ہیں اور یہ کہ چیٹ بوٹس جلد ہم سے زیادہ ذہین ہو ں گے"

امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے اس کا نوٹس لیا اور اس کی سر  براہ کا کہنا ہے کہ " آرٹیفیشنل انٹیلی جینس کو ریگو لیٹ  کرنے کی ضرورت ہے " ظاہر ہے فیڈرل ٹریڈ کمیشن ، انڈسٹری ریگیو لیٹر ہے اور اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قوانیں مرتب کر کے امریکی ایوانوں کے سامنے پیش کرے ۔ آ رٹیفیشل ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا چیلنج تو کاپی رائٹ ایکٹ ہو گا۔ کیوں کہ اس سے یہ قانون بے اثر ہو جائے گا۔ کہ کوئی بھی نقل بغیر اجازت کے تیار ہو سکتی ہے اور وہ بھی سیکنڈز میں دوسری طرف اس ٹیکنالوجی  سے آواز کو ہو بہو نقل میں آسانی سے فراڈ کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔ پھر اِسی ٹیکنالوجی سے تیار شدہ ویڈیوز اور آڈیوذ کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلا ئی جا سکتی ہیں ہمارے مُلک میں جو ابھی ( اے آئی) کی ابتدائی مہارت بھی حاصل نہیں کر سکا۔

پہلے ہی آڈیو اور وڈیو لیکس نےسیاسی بھونچال بر پا کر رکھا ہے۔

ہم تو  ابھی تک شعبہ صحافت کے طلبہ کو صرف پرو پیگندہ اور گو ئلز کے جوھٹ وغیرہ  ہی پڑھا رہے ہیں جب کہ دنیا لمبی چھلانگ لگا کر کہاں سے کہاں پہ9نچ چُکی ہے یہ ٹیکنالوجی اُ س وقت زیادہ خطر ناک ہو جاتی ہے جب یہ منفی ہاتھوں میں پہنچ جائے یا طالع آزماوں کی دسترس میں آجائے ۔ ڈیپ وڈیوز  کے ذریعے معمولی اجتماعات کو بھی بڑے اور تاریخی جلسے بنا کر  پیش کیا جاتا ہے۔ لیڈر کا  ایسا امیج بنایا جاتا ہے جیسے وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہے۔ چاہے اُ س کے کارنامے فر ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے کے ہمارے ہاں پچھلے 75 سالوں میں ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے میڈیا میں اس کا رواج ہے اور نہ ہی وہ ذہن ہیں جو  اِ س طرح کی ٹیکنالوجی  سے در پیش خطارات پر مبنی ڈرامے ، سیریلز یا فلمز  تیار  کر سکیں  اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عوام بھی اس  طرح کی تخلیقی چیزیں دیکھنے میں دل چسپی نہیں رکھتے یونی ور سٹیز  کے میڈیا ڈیپاٹمنٹس میں بھی ان پر کوئی  تحقیق ہو رہی ہہے اور نہ ہی وہاں ایسےا ساتذہ ہیں جو ان موضوعات کو سائنسی تحقیق کا سبجیکٹ بنا سکیں یہ میڈیا ڈیپارٹمنٹس ایک صدقی قبل کے زمانے میں خوش ہیں اگر کوئی بھول بھٹکا ٹیکنالوجی سے آشنا استاد وہاں آ بھی جائے  تو اسے غیر علمی اور اکیڈمک کہہ کر فارغ کر دیا جاتا ہے جب کہ ہالی وڈ ،بالی وڈ اور دوسری میڈیا انڈسٹریز  اس ضمن میں بہت کام کر چکی ہے اور کر رہی ہیں جس سے معاشرے کے ہر  طیقے کو ( اے آئی ) سے در پیش خطرات سے  آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔  بے لگام سوشل میڈیا ہمیں بہت پریشان کر رہا ہے کہ اس نے لوگوں کے لیے اپنی عزت تک محفوظ رکھنا مشکل کر دیا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو کسی ضابطے میں لانے کی بجائے اُسے مزید چھوٹ ملتی جا رہی ہے۔  اور اس جھوٹ پھیلانے والے ہیرو بنت جا رہے ہیں ان کی واہ واہ کی جاتی ہے کہ " دیکھا مخالفین کو کیسے ذلیل کیا "  ہمارے ہاں فرانزک آڈت کروانے کا ذکر اس قدر عام ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ اگر حکو مت  نے فوری قوانینبنا کر اس سلسلے کو ریگیو لیٹ  نہیں کیا تو جگہ جگہ فرانزک آ ڈت کی دکانیں کھلی ہو گیں ۔ جیسے آج چوری کے یا اسمگل شدہ موبائل فونز جگہ جگہ بکتے ہیں ہمارے سیاسی رہنما  ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دُھن میں معاشرے کو تباہ کُن  اثرات میں جھونکنے کی حوصلہ  افزائی کر تے ہیں ان  سوشل میڈیائی ہیروز  کو بُلا بُلا کر  بے لگام ہونے سے روکنے کے اقدامات  پر غور شروع کر دیا ۔ وہاں حکومتی اور قانونی  سطح پر ہتک عزت جیسے سخت  قوانیں بنے تو دوسری طرف خود صھافیوں نے رضا کرانہ طورپر ایک ضابطہ  اخلاق مرتب کیا جس کی عدم پیروی کا  مطلب اپنے پرو فیشنل کیر یئر کے خاتمے کے مترادف ہے قوانیں کی خلاف ورزی  کی صور ت میں سزا تو ملتی  ہی ہے ۔  ملوث فرد اور ادارے کی ساتھ بھی ختم ہو جا تی ہے ۔ ہمارے ہاں بھی صحابی اِ س طرح کے ضابطہ اخلاق کی پاس داری کی قسمیں تو کھاتے ہیں لیکن جہاں اُن میں سے  کوئی اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو پھر سب کو آزادی اظہار خطرے  میں پڑ جانے کی فکر لا حق ہو جاتی ہے وہ افراد بیانات دینے لگتے ہیں جنہیں صحافت کی الف بے کا بھی پتا نہیں ہوتا دراصل ہم نے صحافیوں کی تر بیت پر  توجہ  دی اور نہ ہی انہیں ضابطہ اخلاق کی پابندی کی اہمیت سے روشنا کروایا اُن کا ایک ہی کام ہے کہ بس اپنے اپنے پسندیدہ لیڈرذ اور جماعتوں کے لیے بولتے جاو۔ چاہے اس سے سارا معا شرہ  ہی کیوں نہ تباہ ہو جائے ۔

وائٹ ہاؤس میں جدید ٹیکنالوجی کا اجلاس :۔

 وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں جدید ٹیکنالوجی کے کر تا دھر تاؤں کو بتایا گیا کہ اپنی پراڈکٹس کی سیکورٹی اُن کے ذمے داری ہے ساتھ ہی انہیں یہ بھی تنبیہہ کی گئی کہ امریکی انتظامیہ اس سلسلے میں نئے قوانین بنانے کی تیاری کر چکی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں  ان کمپینز کے ایگزیکٹیوز کے ساتھ اُن قوانیں کو شیئر کیا گیا جن کے زریعے حکومت  اس شعبے کو ریکگیولٹ کرنے کا اررادہ رکھتی ہے ۔ حکومتوں  کا کمال  یہی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے اور سیاست کو علامی اور قومی پس منظر  میں بھانپ کر اُن کے نقصانات شروع ہونے سے قبل ہی سد باب کے قوانین لے آئیں یہ نہیں کہ جب چڑیاں  کھیت چک جائیں تو پھر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھیں ۔ پھر اِ س طرح کے  معاملات  پر سیاست بھی نہیں کی جاتی کہ یہ معاشرے اور انسانیت کے معاملات ہیں بالکل ا،سی قسم کے  اقدامات موسیاتی اثرات سے نمنٹنے کے لیے کیے گئے ۔  کیا اچھا  ہو ا اور کیا بُرا ہوا ۔  یہ ایک الگ  بحث ہے تاہم عالمی سطح پر اس معاملے  سے ہم آواز  ہو کر نمٹنے  کا عزم تو یدا ہوا ۔

وائٹ ہاؤس اجالاس کے بعد چیت جی پی ٹی کے چیف ایگزیکٹو نے بتایا کہ تما م سر براہان حیران کُن حد تک  اس معاملے  پر ایک پیج پر ہیں امریکی نائب صدر نے اِس اجلاس  کے بعد ایک بیان میں کہا کہ نئی ٹیکنالوجی پرائیوسی اور سول حقوق کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔  تاہم یہ زندگیاں بچانے میں بھی کام آ سکتی ہے ۔ اِسی سلسلے میں حکومت  نے فوری اقدامات کیے ہیں اور نیشنل فاونڈیشن کے سات نئے تحقیقی مرا کز قائم کر نے کے لیے 140 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے برطانیہ میں (اے آئی ) انڈسٹری پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ جس کے دَوران چیٹ جی پی ٹی جیسے سافٹ ویئرز کی بھی جانچ ہو گی اب یہ پوری مغربی اور ترقی یافتہ دنیا کا ایک اہم معاملہ  بن چُکا ہے 

مارچ میں ایلون مسک اور ایپل کی جانب سے کھلے خطوط میں مصنوعی  ذہانت کی ترقی کو کچھ عرصے تک روکنے کی اپیل کی تھی ۔ تاہم مائکرو سافٹ    کے بل گٹیس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی پابندیوں  سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ آ رٹیفشل انٹیلی جینس  سے متعلق قانون سا زی میں عالمی  سیاسی رائے عامہ ہم وار کرنا بھی ایک چیلنج  ہے امریکی انڈسٹری کو یہ خطرہ  ہے کہ اگر قوانین زیادہ سخت ہو ئے تو اس کا فائدہ چین کو ہوگا ۔ کیوں کہ اُ س پر قوانین لا گو نہیں  ہوں گے ۔ اِسی لیے ماہرین ، دانش وروں اور سیاست  دانوں کی رائے یہی ہے کہ عالمی رہنماؤں کو آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے در پیش خطرات کے سد باب اور قانون سازی کے لیے ایک پیچ پر آنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment