shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Sunday, February 25, 2024

shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

shab-e-barat the complete story in urdu || shab-e-barat in the light of quran and hadith || Nawafal

shab-e-barat

 

ماہ ِ شعبان کی پندرہویں شب  فضیلت

اس رات رحمتون کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں

برکتوں کا نزول ہوتا ہے خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے

  1. شعبان کی پندرہویں شب کو عام  بول چال میں "شب برات" کہا جاتا ہے یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں  سے بری کر دیا جاتا ہے اس رات کے بعض فضائل و برکات نبی کریم ﷺ سے منقول ہیں پہلے ہم اس سلسلے کی روایات نفل کرتے ہیں اورپھر ان روایات کی روشنی میں اس شب کے اعمال کا تذکرہ کریں گے۔
  2. ترمذی شریف  میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات  میں نے رسول ﷺ کو نہ پایا تو آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی ۔ آپ ﷺ جنت البقیع مین تھے آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبا کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے اور بنو کلب کی بکریون کے بالوں  سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں"
  3. یعنی شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ ل شانہ کی رحمت کاملہ کا فیضان اس  بیکراں طور پر ہوتا ہے کہ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے ریوڑ  کے جتنے بال  ہیں اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دیئے جا تے ہیں ۔ لہٰذا یہ وقت چونکہ برکات ربانی اور تجلیات رحمانی کے اترنےکا ہے اس لیے میں نے چاہا کہ ایسے بابرکت  اور مقدس  وقت میں اپنی امت کے لوگوں کی بخشش کی دعا کروں ۔ چنانچہ میں اپنے پروردگار سے مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہو گیا۔
  4. اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں  ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی  عنہا سےمنقول ہےکہ سرکار دو عالم ﷺ نے (مجھ سے فرمایا ) " کیا تم  جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نےع رض کیا " یا رسول اللہ ﷺ (مجھے تو معلوم نہیں آپ ہی بتا ئیے کہ ) کیا ہوتا ہے؟
  5. آپ ﷺ نے فرمایا  بنی آ دم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے ۔  اس رات کو اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس مرنے والا ہوتا ہے۔ اس رات  میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اس رات بندوں کے اعمال ( اوپر ) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات بندوں کے رزق اترتے ہیں۔ نیز سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں صحابی رسول حضرت ابو موسیٰ  اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا  : اللہ جل شانہ ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برات ) کو دنیا  والوں کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور مشرک اور کینہ  رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے ۔
  6. حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  اس با برکت اور مقدس رات کو اپنی رحمت کا ملہ کے ساتھ دنیا والوں پر متوجہ ہوتا ہے  تو اس کا دریائے رحمت اتنے جوش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو بھی معاف کر دیتا ہے۔ اپنی بندگی و عبادت اور اطاعت و فرماں بر داری میں سر زد ہوئی کو تاہیوں اور لغزشوں سے در گزر فرماتا ہے۔ مگر کفرو شرک کو معاف نہیں فرماتا اور ان کے معاملے میں اتنی مہلت دیتا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے اور اگر توبہ نہ کریں اور اپنی بد اعتقادی اور بد عملی سے باز نہ آئیں تو انہیں عذات میں مبتلا کیا جائے گا۔

سنن ابن ماجہ  کی ایک روایت  میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ  نے فرمایا

"جب نصف شعبا کی رات ہو(یعنی شب برات) تو اس رات  کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں ( یعنی پندرہویں شب کو ) روزہ رکھو ۔، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات آفتاب چھپنے کے وقت آ سمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے ) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہے کہ

  •  آ گاہ رہو  !( ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اسے بخشوں؟)
  • آ گاہ رہو ! ( ہے کوئی روز مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟)
  • آ گاہ رہو ! (ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟)
  • آ گاہ رہو ! ( ہے کوئی ایسا اور ایسا یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے ندوں کو پکارتا رہتا ہے؟)

مثلا فرماتا ہے کہ

  1. (کوئی مانگنے والا ہےکہ میں اسے عطا کروں؟ )
  2. (ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟)وغیرہ وغیرہ  

یہاں تک کہ فجر طلوح ہو جاتی ہے ان تمام احادیث کریمہ نیز صحابہ کرام اور بزرگان دین کے عمل سےیہ  ہوتا ہے کہ اس رات میں مندرجہ ذیل تین کام کرنے کے ہیں۔

1۔ مرحومین کے لیے ایصال ثواب اور بخشش کی دعا کرنا ۔

یا  د رہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوری حیات مبارکہ میں سرف ایک بار شب بارت میں جنت البقیع جانا ثابت ہے ۔ اس لیے اگر کوئی شخص زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی اتباع سنت پوری جو جائے گی اور اجرو ثواب حاصل ہوگا۔ جو چیز نبی کریم ﷺ سے جس درجے میں ثابت ہے اسے اسی درجے میں رکھنا چاہیے اس کا نام اتباع اور دین ہے۔

2۔ اس رات میں نوافل ، تلاوت اور ذکر و اذکار کا اہتمام  کرنا

اس بارے میں یہ واضح رے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی اور خلوت مطلوب ہے اسکے ذریعے  انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھر میں ادا کرکے اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔ نوافل کی جماعت اور مخصوص طریقہ اپنانا ثابت نہیں ہے ۔ یہ فضیلت والی راتیں شورو شغب ، میلے اور اجتماع منعقد کرنےاور دنیاوی باتوں میں گزارنے والی نہیں بلکہ مساجد کو آباد کرنے اور محافل کا انعقاد کرنے یا پھر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ سے تعلق استوار کرنے کے قیمتی لمحات ہیں انہیں ضائع ہونے سے بچائیں۔

3۔ دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے۔

ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم ﷺ ہر ماہ ایام بیض ( یعنی تیرہ ، چودہ ، پندرہ تاریخ ) کے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔ لہٰذا  اس نیت سے روزہ رکھا جائے تو موجب اجرو ثواب ہوگا۔ باقی اس رات میں پٹاخے پھوڑنا ، آتش بازی کرنا یہ سب گناہ کےکام ہیں۔

شیطان ا  ن فضولیات میں انسان کو مشغول کر کےاللہ کی مغفرت اور عبادت سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔ اور یہی شیطان کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برات کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں اور عبادت و بندگی کا مخلصانہ نذرانہ پرورگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کے ان بندوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں جن کی مبارک رات میں مغفرت کر دی جا تی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment