History of Hackl e Sulemani in Urdu/Hindi || History of Yahoodi - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Thursday, June 3, 2021

History of Hackl e Sulemani in Urdu/Hindi || History of Yahoodi

History of Hackle Sulemani in Urdu/Hindi || History of Yahoodi 

History of Hackle Sulemani in Urdu/Hindi || History of Yahoodi


ہیکل سلیمانی کی تاریخ اور اس کی تیسری مرتبہ اندور نی تعمیر کی تیاری

ہیکلِ سلیمانی در حقیقت ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی جو حضر ت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جناب سے تعمیر کر وائی تھی تاکہ لوگ  اس کی طرف منہ کر کے یا اس کے اندر عبادت کریں۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے پہلے یہودیوں کے ہاں کسی بھی با قاعدہ ہیکل کا نہ کوئی وجود اور نہ اس کا کوئی تصور تھا۔ اس قوم کی بدوئوں والی خانہ بدوش زندگی تھی ۔  ان کا ہیکل یا معبد ایک خیمہ تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ رکھا ہو تا تھا۔ جس کی جانب یہ رخ کر کے عبادت کیا کر تے تھے۔ روایات کے مطابق یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اسے " شمشاد" کہتے  ہیں۔ جسے جنت سے حضرت

آ دم علیہ  السلام کے پاس بھیجا گیا تھا۔

صندوق سکینہ میں کیا کیا تھا ؟

یہ تابوت نسل در نسل انبیاء سے ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تھا۔ اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، من و سلویٰ ، اور دیگر انبیاء کی یاد گا ر یں تھیں ۔ یہودی اس تابوت  کی برکت سے  مصیبت  پریشانی کا حل لیا کر تے تھے۔ مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں  کے دوران اس صندوق کو لشکر کے آ گے رکھا کرتے ، اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کر تے ۔

History of Hackle Sulemani in Urdu/Hindi || History of Yahoodi


تابوت کی تعمیرات کا سلسلہ

جب حضرت دائود علیہ السلام کو بادشاہت عطاہوئی تو آپ نے اپنے لیے ایک با قاعدہ محل تعمیر کروایا ۔

ایک دن ان کے زہن میں  خیال آیا کہ میں خود تو محل میں رہتا ہوں۔ جبکہ میری قوم کا معبد آج بھی خیمے میں رکھا ہوتا ہے۔

یہ با ئیبل کی روایات ہے۔

جیسے بائیبل میں ہے۔

"بادشاہ نے کہا: میں تو دیوار کی شان دار لکڑی سے بنے ہوئے ایک محل میں رہتا ہوں ۔ مگر خدا وند کا تابوت ایک خیمے میں پڑا ہوا ہے۔

( 2 سموئیل ۔ 4،2)

چنانچہ آپ نے ہیکل کی تعمیر کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا گیا ۔ ماہرین نے آپ کو  مشورہ دیا کہ اس ہیکل کی تعمیر آپ کے دور میں ناممکن ہے۔ آپ اس کا ذمہ اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو دے دیجئے۔

چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے (980 ق  م تا 930 ق م) اپنے دور حکومت کے چوتھے سال میں اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ آج ا س کی بناوٹ اور مضبوطی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کہ یہ تعمیر انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی ۔اتنےبھاری اور بڑے پتھروں کو ان جنات کی طاقت سے چنا گیا تھا۔ جن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت تھی ۔

ہیکل کی پہلی تعمیر کے دوران ہی حضرت سلیمان علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ لیکن جناب کو پتہ نہ چل سکا اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر  مکمل کر دی

یہ واقعہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہو گا ۔ حضرت سلیما ن علیہ السلام کی روح اللہ نے دورانِ عبادت ہی قبض کر لی ۔ لیکن اس کی ترکیب اس طرح بنی کے آپ ایک لکڑی پر سر اور کمر رکھ کر عبادت میں مصروف ہو گئے اور اس لکڑی کے سہارے سے یوں لگتا تھا کہ آپ اب بھی عبادت ہی کر رہے ہیں۔ جبکہ آپ کا انتقال ہو چکا تھا۔

بہر حال یہ ہیکل ، معبد ، یا مسجد بہت عالیشان اور وسیع و عریض تعمیر کی گئی تھی ۔ حضرت سلیما ن علیہ السلام کی وفات کے بعد اس میں تین حصے کر دیئے گئے تھے۔

ہیکل کی تعمیر کے بعد اس میں کتنے پارٹس بنائے گئے۔

1۔ بیرونی حصے میں عام لوگ عبادت کر تے ۔

2۔ اس سے اگلے حصے میں علماء جو کہ ابنیاء کی اولاد میں سے ہوتے ۔

3۔ اس سے اگلے حصے میں جسے انتہائی مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا۔

اس حصے میں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ سوائے سب سے بڑے عالم ، پیش ، امام کے۔

وقت گزرتا  رہا ۔ اس دوران بنی اسرائیل میں پیغمبر معبوث ہو تے رہے ۔ یہ قوم بد سے بد تر ہو تی رہی ۔ یہ کسی بھی طرح اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہونے یا ان کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

شکلوں کے بگڑ جانے کا عذاب

یہ ایک جانب عبا دتیں کیا کر تے ۔ دوسری جانب اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔ ان کی اس دوغلی روشن سے اللہ پاک ناراض ہو گیا ۔ ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیاء بھی بھیجے گئے ۔ لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی ۔

حتیٰ کہ ان کی شکلیں تبدیل کر کے بند اور سور تک بنائی گئیں۔ لیکن یہ گناہوں سے باز نہ آئے ۔ تب اللہ نے ان پر لعنت  کر دی ۔

مقبرہ پر حملے

586 ق م میں بخت نصر نے ان کے ملک پر حملہ کیا ۔ ان کا ہیکل مکمل طور پر تباہ و بر باد کر دیا ۔ ہیکل میں سے تابوت سکینہ نکالا ۔ اسی طرح بخت نصر نے تابوت سکینہ کی شدید بے حرمتی کی اور کہیں پھینکوا دیا ۔

یہودیوں کے قتل عام کی شروعات

چھ لاکھ کے  قریب یہودیوں کو قتل کیا ۔ تقریبا ً دو لاکھ  یہودیوں کو قید کیا اور اپنے ساتھ بابل ( عراق ) لے گیا اور شہر سے باہر یہودی غلاموں کی ایک بستی تعمیر کی ۔ جس کا نام تل ابیب رکھا گیا ۔

80 سال تک ہیکل صفحہ ِ ہستی سے مٹا رہا ۔ دوسری طرف بخت نصر نے تابوت سکینہ  کی شدید بے حرمتی کی اور اسے کہیں پھینک دیا۔

بخت نصر کی بادشاہت پر اللہ کا عذاب

کہاجاتا ہے کہ اس حرکت کا عذاب اسے اس کے ملک کو اس طرح ملا کہ سن 539 ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل ( عراق ) پر حملہ کر دیااور باباکے ولی عہد کو شکست فاش دے کر بابلی سلطنت  کا مکمل خاتمہ کر دیا۔

سائرس ایک نرم دل اور انصاف پسند حکمران تھا۔ اس نے تل ابیب  کے تمام قیدیوں کو آ زاد کر کے ان کے لیے

با قاعدہ طور پر ان کو سپورٹ کیا۔

یہودیوں کے منظمن ہونے  کے بعد

چونکہ آپ نے اوپر تحریر میں ملاحظہ فرمایا کہ یہودیوں کے ساتھ بخت نصر کی فوج اور حکومت نے کیا حشر کیا تھا۔ اس کے بعد سائرس ان کی آزادی کا مو جب بنا۔ جب سائرس نے یہودیوں کو  آزاد کیا اور ان پر رحم کرم کر تے ہوئے ان کو مضبوط کیا ۔ تجارت کرنے سیاست میں حصہ لینے اور دیگر کاموں میں ملوث ہونے کے بعد یہودیوں نے اپنی پاور کو مضبوط کیا اور آ ہستہ آہتہ پوری دنیا پر قابض ہونے کے بعد آج یہودی ایک با قاعدہ منظم تنظیم کے ساتھ پوری دنیا پرحکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کو کیسے کنٹرول کیا نیچے دئی گئی اک فہرست  کو پڑھ لیں۔ اور اپنے دماغ سے سوچیں۔

1۔ پوری دنیا کے عدالتی نظام ان کے کنٹرول میں ہو تے ہیں۔ وہ خود فیصلے کروانے میں ہمیشہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں۔ جیسے کہ اگر کوئی کام انہیں پسند نہیں کوئی انسان ، تنظیم انہیں پسند نہیں تو اس کو وہ کیسے کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

2۔ تمام  ہسپتال ان کے کنٹرول میں ہیں۔ اور ان ہسپتالوں میں دی جانے والی ادویات وغیرہ بھی یہودیوں کے کنٹرول میں ہو تیں ہیں۔

3۔ تعلیمی نظام یہودیوں کے کنٹرول میں ایسے ہیں کہ آج دن تک کوئی بھی ملک اپنا کلچر ، مذہب اپنے تعلیمی نظام میں ضمن نہیں کر سکا ۔ یہودیوں کا دیا ہوا سارا تعلیمی نظام ہی ہر ملک کے اپنے اپنے اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔

4۔ سیاسی نظام ۔ سب سے بڑا نظام پوری دنیا کا وہ سیاسی نظام ہے ۔ انہوں نے تقریبا پوری دنیا میں اپنا سیاسی نظام بنا کر مہرے رکھے ہوئے ہیں جو ان کی اطاعت کر تے ہیں۔ اور ان کے حکم کے مطابق چلتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ہی لے لیں ہم پاکستان کے رہائشی لوگ کیا کسی سیاسی نظام میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔ نہیں ۔ ہر گزر نہیں۔ جسے وہ چاہتے ہیں اسے ہی حکمران بناتے ہیں۔ جسے وہ چاہتے ہیں۔ ویسا ہیں نظام ملک میں چلتا ہے۔

5۔ معاشی نظام ۔ ایک گھر ہو یا دس گھر ہوں ایک محلہ ہو یا دس محلے ہوں یا شہر ہو یا دس شہر ہوں ایک ملک ہو یا دس ملک ہو ہر ملک کی معیشت کا انحصار صرف اور صرف یہودیوں لابی پر چلتا ہے۔ یہودیت نے اپنے معاشی نظام کو اتنا کنٹرول کیا ہوا  ہے کہ کوئی بھی ملک اس کنٹرول کو ختم نہیں کر سکتا اور اگر ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ملک پھر ملک نہیں رہتا ۔  ہماری ہر چیز پر چاہے ہم مسلمان ہیں یا عیسائی ، ہندو ہیں یا بدھ مت کوئی بھی ہمارا مذہب ہے اس سے یہودیوں کو کوئی سرو کار نہیں وہ صرف اور صرف اس ملک میں موجود وہ تمام چیزیں جو ہر انسان کی ضرریات زندگی کے لیے لازما ً ہیں ان کو اپنے کنٹرول میں کیا ہوا ہے۔ جس کی چھوٹی سے مثال میں پاکستان میں استعمال ہو نے والی تمام  کے کچھ کے نام آپ تک پہنچا دیتا ہوں۔

صبح استعمال ہونے والی ٹوتھ پیسٹ وغیرہ ، تمام ٹوتھ برش وغیرہ، شیونگ کریم ، زیادہ تر بالوں کو کالا کرنے والے کلر ، شیمپو ، مکڈونلڈ ، کے & این ایس ، زیادہ تر کریمیں ، شیو بنانے والے جلٹ کے ریزر ، استعمال ہونے والے ، گھر میں اے سی ، ٹیلی ویژن، ریفریجریٹر وغیرہ حتیٰ کہ نیسلے ، نیڈو ، تمام طرح کی ادویات وغیرہ اور اس کے علاوہ برانڈ نما کپڑے ، گھڑیاں ، زیوارت وغیرہ تک یہودیوں کے دیئے ہوئے ہیں۔ اور آج انہیں سے یہ لوگ پیسہ کما کر ہم مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اور سب سے بڑا اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا برانڈ، پیپسی ، سیون اپ، مرنڈا ، فانٹا اور تمام ڈرنکس وغیرہ اور بریلر مرغی اور کوکنگ آئل وغیرہ تک یہودیوں کے کنٹرول میں ہے۔

History of Hackle Sulemani in Urdu/Hindi || History of Yahoodi


سمجھنے والی بات

سلسلہ میں نے شروع کیا تھا ۔ ہیکل سلیمانی سے اور ختم یہودیوں کی پرو ڈکس وغیرہ پر کر رہا ہوں۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو پاکستان میں بن رہی ہے۔ اس کا یہودیوں سے کیا تعلق تو ان تمام دوستوں کو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں پاکستان میں ان تمام چیزوں کی فرنچائزز ہیں۔ اصل کنٹرول یہودیوں کے پاس ہے۔ یہ تمام فرنچائزز وغیرہ یہودیوں کے میں ہیڈ آفس میں جواب دہ ہیں کیوں  نا وہ ہیڈ آفس چلانے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو ۔ اور وہ آفس میں کسی مسلمان کے پاس ہی کیوں نہ ہو ۔ تصویر کا دوسرا رخ اگر دیکھا جائے تو شروع سے آخر تک سب کچھ یہودیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اور ہم سب لوگ صرف اور صرف ایک مہرہ ہیں۔ جسے وہ استعمال کر رہے ہیں۔ 

Motivations, Information, Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea, News, Article, Islamic, Make Money, How to, Urdu/Hindi, top, Successes, SEO, Online Earning, Jobs, Admission, Online,

No comments:

Post a Comment