Relation and Law Between Muslims & Non Muslims In Urdu - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Friday, December 25, 2020

Relation and Law Between Muslims & Non Muslims In Urdu


Relation and Law Between Muslims & Non Muslims

اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ

مسلم معاشرہ اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کا ذمہ دار ہے۔ غیر مسلموں کو اسلام مملکت میں تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔

اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین فطرت ہے۔ ہر انسان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی امتیاز ی پہلو روا نہیں رکھا گیا ۔ جو مشرف انسانیت کے منافی ہوا۔ انسانی معاشرے میں جتنے بھی طبقات ہیں ان سب کی طرح اسلامی ریاست میں اقبلیتں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا ہے۔ جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ دینِ اسلام کی اشاعت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ لیکن جبر، زور ، زبردستی ، استحصال کر کے دین کی قبولیت اور شمولیت کی نفی کی گئی ہے۔ موجودہ دور حاضر میں اگرچہ اس کی مثال اسلام میں تو بہت ہی کم ملتی ہے ۔ لیکن بیرونی طاقتوں اور ہندو ئوں کے بے جا اسلام مخالف ہو نے کی وجہ سے مسلمان اب چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر سچے دین اسلام کی بات کیجائے تو دعوت اسلامی اور اسی طرح کی کچھ دینی جماعتیں جن کا تعلق ترکی اور کچھ اسلامی ملکوں سے ہے۔ پوری  دنیاں میں کام کر رہی ہیں۔ جو صرف دین اسلام کا سچا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصرروف ہیں۔

کیونکہ فرمایا گیا دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طورپر ممتازہو چکی ہے۔ سو جو کوئی معبودان باطل کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایسا مضبوط حلقہ تھاملیا جس کے لیے ٹوٹنا ممکن نہیں اور اللہ خوب جاننے والا ہے ( سورہ البقرہ 256)

اسلام تمام بنی نوع انسان کے لیے رحمت و ہدایت ہے اس کی دعوت کسی خاص طبقے ، گروہ ،جماعت یا قبیلے کے لیے نہیں۔بلکہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور نظریہ و مذہب تمام انسان کے لیے ہے۔ اسلام کی دعوت حکمت پر مبنی ہے۔ اس کے مصالح میں منکریں و مخالفین تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے اختلافات کی بجائے مشترکات کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دیگئی ہے۔ اس کا اندازہ رحمتہ اللعالمین ﷺ کے اس فرمان مبارک واضح ہو جاتا ہے۔ خبر دار جس کسے نے کسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اسے اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اُ س کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف استغاثہ کروں گا۔( سنن ابو دائود)

اسلام کی تعلیمات کا جس پہلو سے بھی جائز ہ لیا جائے تو اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے باز رکھنے کے لیے تنبیہات کی گئی ہیں۔ تاکہ اسلامی اصولوں پر عملدار آمدہو اور کوئی بھی اہل ایمان کی بنیاد پر غیر مسلم سے ظلم و زیادتی اور جبر نہ کر سکے۔ رسول خدا ﷺ کے دور مبارک کے واقعات کو دیکھا جائے۔ ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا۔ اور وہ مقدمہ حضورپر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس فیصلے کے لیے آیا  ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ مسلمانوں کو اقلیتوں کے حقوق کے لےمتبنہ کیا ۔ کہ جس کسی نے کسی اقلیتی ( ڈمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے۔ (صحیح بخاری )۔

غیر مسلموں کے کے جو وفود باہر سے آپ ﷺ کی خدمت میں آتے ۔ چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں حبشہ کے عیاسئیوں کا وفد آیا تو آپ ﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہریاااور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمے لی اور فرمایا ۔ یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے میں نے پسند کیا ۔ میں بذات خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کر وں " ( ابن کثیر ، سیرت النبویہ)

 

حضور اکرم ﷺ کی اِ ن تعلیمات کی روشنی میں 14 سو سال گزرنے کے باوجود آپﷺ کے زمانے سے لے کر ہر اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ حاصل رہا ۔ اقلیتوں سے رحمتہ اللعالمین ﷺ کے حسن سلوک کانتیجہ تھا۔ کہ ان کے برتائوں بھی آپ کے ساتھ احترام پر مبنی تھا۔ ہر دور کے السامی عہد میں وہ عہد نبوی ، ہو یا خلافت راشدہ ، کا دور ہو یا خلافت عثمانیہ کا ہی کیوں نہ دور ہو۔ ان میں تعزیرات اور دیوانی دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔ آپ ﷺ کا فرمان دائمی ہے کہ غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔ آپ ﷺ کی اِ س تعلیم پر عملد ر آمد کے بے شمار نظائر دور خلافت راشدہ ، اور خلافت عثمانیہ دونوں میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا ۔ جس نے ایکغیر مسلم کو قتل کر دیا تھا۔ پروا ثبوت موجود تھا اِ س لیے حضرت علی نے قصاص میں اس مسلمان کو قتل کا حکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا۔ حضرت علی جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا ۔ شاید ان لوگوں نے ڈرا دھمکا کر تجھ سے کہلوایا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ قتل کئے جانے سے میرا بھائی واپس نہیں آئے گا۔ اب یہ اس کی دیت مجھے دے رہے ہیں۔جو پسماندگان کی کسی حد تک کفایت کرے گی ۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے کسی دبائو کے بغیر معافی دے رہا ہوں۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا تمہاری مرضی تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن بہر حال اسلامی حکومت کا اصول یہی ہے کہ جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے ۔ ان کا خون اور ہمارا خان برابر ہے۔ اور اس کی دیت ہماری ویت ہی کی طرح ہے۔اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ایک شخص نے حیرہ کے ذمی کو قتل کر دیا۔ اس پر آپ رضی اللہ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے حوالے کیا جائے۔ اگر وہ چاہیں تو قتل کر دیں ۔ چاہیں تو معاف کر دیں

اسلام اللہ کی توحید اور اللہ کی بندگی و عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دبائو نہیں ڈالتا ۔ نہ کسی جبرو کراہ سے کالم لیتا ہے۔ دعوت حق اور جبرو ظلم بالکل الگ حقیقیں ہیں۔ اسلام میں ہر اس طریقے سے منع کر دیا ہے۔ جن سے کسی فریق کی مذہبی آ زادی متا ثر ہوتی ہے۔ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہر فرد کو قانون کے دائرہ کار میں رہ کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی آ زادی ہے۔

دین اسلام کی اشاعت کے حوالے سے قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو اہل ایمان کو رہنمائی دی گئی ہے۔ کہ

"اے رسول خدا ﷺ آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت عملی کے ساتھ لائیے "( سورہ النحل)

وہ شخص جو دین اشاعت کا پیکر ہو گا۔ تو اس کی دعوت موثر ہو گی اور عین ممکن ہے کہ بحث ، مناظرہ ، مباحثہ کی بجائے حکیمانہ اسلوب اپنا کام کر جائے۔ احکام شہریت کے حوالے سے حضور ﷺ کا یہ طریقہ تھا۔ کہ جن امور پر حکم نازل نہ ہوا تھا۔ ان پر غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اختیار فرماتے " رسول خدا ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت پسند رہی ، جب تک کہ اس بارے میں مختلف احکام نازل نہیں ہوئے" (صحیح بخاری )

عصر حاضر میں اسلام اور اہل اسلام کو سب سے بڑا چیلنج در پیش ہے کہ اہل کفر اور بعض عا قبت نا اندیش اور حکمت دین اشاعت سے عاری مبلغین کی وجہ سے اس پر انتہا پسندی ، عدم بر دسشت ، شدت پسندی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔  اسلام کے خلاف ماحول سازی میں جہاں ھاسدین و معاندین اور دشمنان اسلام کی سازشین شامل ہیں۔ وہیں کچھ اپنوں کی غیر دانش مندانہ سر گرمیاں بھی کسی حد تک شامل ہیں۔ اسلام تو دین رحمت ہے۔ توازن و اعتدال اختیار کرنے کا لائحہ عمل دیتا ہے۔

رسول خدا ﷺ کا فرمان ہے" بے شک دین آسان ہے۔ جو اسے مشکل بنائے گا۔ یہ اس پر غالب آ جائے گا۔ لہٰذا سیدھی راہ اختیار کرو  ، اعتدال اور میانہ روی اپنائو اور خوش خبریاں دو" ( صحیح بخاری )

غیر مسلم فوت ہوجائیں تو ان کے پسماندگان سے تعزیت کرنے کی اسلام میں اجازت ہے اور اُ ن کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جائے ۔علامہ ابن قیم منصور بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمیاا کہ " اگر تم غیر مسلم میں سے کسی شخص سے تعزیت کرو و کہو اللہ تمہارے مال اور اولاد کوبڑھائے اور تمہاری زندگی یا عمر لمبی ہو"

 امام حسن بصری  رحمتہ اللہ نے فرمایا  اگر تم کسی ذمی شخص سے تعزیت کرو تو اس کہو تجھے بھلائی نصیب ہو۔

رحمتہ اللعالمین ﷺ نے اعلان فرما دیا ۔ غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔ یہ اصول مبنی بر انصاف ہے۔ کہ اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم کو نا حق قتل کیا تو مسلمان قتل کیا جا ئے گا۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ نے فرمایا ۔ کہ یہودی ، عیسائی ، اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمانوں کی دیت کے برابر ہے۔ کسی کو حقیر جاننا، کسی پر نا حق ظلم کرنا ، اسلام کی تعلیم نہیں اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ انسانوں کو غلام نہ سمجھو ۔ حالانکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ذمی کی دیت آزاد مسلمان کے برابر تھی اسمی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ غیر مسلم کے ساتھ زیادتی ، اسے اذیت دینا، غیر مسلم کو زبان ، ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا ، گالی دینا ، مارنا پیٹانا یا غیب کرنا ، اسی طرح ناجائز ہے۔ جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ غیر مسلم سے اذیت روکنا اسی طرح واجب ہے ۔ جس طرح مسلمان سے اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ۔

اسلامی تعلیمات اور قانون کی نظر میں اقلیتوں کو مساوی مقام حاصل ہے۔ قانون کے نفاذ میں بھی مساوات کا حق ہے۔ اسی طرح غیر مسلم کو نجی زندگی اور راز داری کا حق حاصل ہے ۔ اسلامی ملک میں ہر فرد کو نچی زندگی گزارنے کا ماحول میسر کیا جاتا ہے۔ کوئی شخس بغیر اس کی اجازت اور رجا مندی کے اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مسلم یا غیر مسلم کے حق پر دست درازی خود فرد کی شخصیت پر دست درازی ہے۔ اور یہ کسی طرح جائز نہیں گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی صریحا ممانعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا" اے لوگوں ، جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو ۔ جب تک کہ گھر ولاوں کی رضا نہ ہو اور گھر ولاوں پر سلام نہ بھیج دو۔ یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تو قع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے ۔ پھر اگر وہاں کسی  کو نہ پائوں تو داخل نہ ہو ۔ جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو و واپس ہو جائو یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اور جوکچھ تم کرتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

اسلام میں کسی بھی غیر مسلم کو مزہبی آ زادیکا حق ھاصل ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن دوسرے مذاہبت کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دبائو نہیں ڈالتا اور نہ کسی جبرو ا کراہ سے کام لیتا ہے۔دین کی اشاعت اور جبرو اکراہ بالکل الگ حقیتیں ہیں۔ اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا ہے۔ جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متا ثر ہو تی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے " دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی " ( سورہ البقرہ ) قرآن کریم میں ( سورۃ النحل) یوں حکم دیا گیا ہے " اے رسول خدا ﷺ آپ انے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔ بے شک ، آپ کا رب اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے۔ جو سا کی راہ سے بھٹک گیا  ہے۔ اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی جانتا ہے۔

غیر مسلم کے لیے اسلامی معاشرے میں روز گار ، رزق کے حصول کے لیے کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ مسلمان جو کام کرتے ہیں۔ غیر مسلموں کو بھی اس کا حق حاصل ہے کوئی ایسا کاروبار جس سے ریاست کو نقصان ہو اس کا تو کسی کوبھی ھق حاصل نہیں ہوا۔ اسلامی ریاست میں سودی کارو بار کی مسلم غیر مسلم دونوں کے لیے ممانعت ہے۔ اس لیے حکم ہے کہ

" سود چھوڑ دو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لیے تیار ہو جائو " اللہ تعالیٰ نے ذمیوں اور مسلمانوں کے درمیان سود کی ممانعت کو برابر قرار دیا ہے ( احکام القرآن )

غیر مسلمون کو اسلامی ریاست ے اجتماعی کفالت کے نظام میں حق ھاصلہے۔ جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جاے یا عمر رسیدگی اور غربت کے ہاتھوں مجبورہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور یا عاجز ہونے کی صورت میں کفالت لازم ہے۔ اسلام احترام انسایت کا پیغام ہے۔

رسول خدا ﷺ جن غیر مسلم گھرانوں کو صدقہ دیتے آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی انہیں دیا جاتا رہا ۔ اسلام میں غیر مسلم کو ہر جائز ذریعہ روز گار کا حق دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے " کویئ بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کھانا نہیں کھا سکتا ۔ اور اللہ کے نبی دائود علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ اسلامی مملکت میں اقلیتوں مسیت ہر فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ تجارت ، صنعت ، ملازمت ، زراعت غرض کہ وہ ہر کام جو جائزہے وہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ غیر مسلموں کو اسلامی مملک میں تمدنی اور معاشرتی آز ادی کا حق حاصل ہے۔ اسلامی ریاست میں سوائے حرم کے ذمی جہاں چاہے ۔ سکونت اختیار کر سکتا ہے۔ غرض اسلام کا دامن وسیع ہے اور بحثیت انسان غیر مسلم اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ 


Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning

No comments:

Post a Comment