Hazrat Essa | Hazrat Maryam | 25 December Christmas Day - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Friday, December 25, 2020

Hazrat Essa | Hazrat Maryam | 25 December Christmas Day




Hazrat Essa a.s

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اہل ِ اسلام

اللہ تعالیٰ نے جن انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ۔ ان میں ایک مبارک نام حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا بھی ہے۔ اہل اسلام کے ہاں بھی آپ علیہ السلام نبی و رسول ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 دسمبر  کو عیسائی آپ کی پیدائش سے منسوب کرتے ہیں۔ اور میری کرسمس کا نام سے عید مناتے ہیں۔

ضروری ہدایت

مسلمانوں کو اس موقع پر اس کی مبارک باد نہ دینی چاہیے  اورنہ ہی لینی چاہیے

اس موقع پر اہل اسلام بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی حقائق و نظریات جاننا چاہتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا کا نام عمران ہے۔ آپ ہی کے نام موسوم قرآن کریم کی سورۃ آل عمران ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی

سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعت میں لوگ اپنی اولاد میں سے کسی ایک بیٹے کو دین کے لیے وقت کر دیا کرتے تھے۔ ان کی شریعت میں یہ جائز تھا۔ باقی بیٹے دنیا کے کام کاج کرتے ۔ جبکہ ایک بیٹے کو خالص دین کے لیے وقت کر دیتے ۔ حضرت عمران کی بیوی نے بھی اللہ سے ایسی ہی سے منت مانی

مفہوم آیت:۔

وہ واقعہ بھی یاد کریں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی یعنی عمران کی بیوی نے کہا اے اللہ جو میرے پیٹ میں حمل ہے۔ اگر یہ بیٹا پیدا ہوا تو  میں منت مانتی ہوں کہ تیری راہ میں وقف کر دوں گی۔ میری نذر کو قبول فرمائیے۔ آپ ہی دعا کو سننے قبول کرنے والے ہیں۔ اور ہر چیز کا بخوبی علم رکھنے والے ہیں۔ ( سورۃ آل عمران 35)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی امید سے تھیں کہ حضرت عمران فوت ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت مریم کی پیدائش ہوئی۔

مفہوم آیت:۔ پھر جب ( لڑکے کے بجائے) لڑکی پیدا ہوئی تو کہنے لگین۔ اے میرے رب مجھ سے لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کے ہاں کس کی پیدائش ہوئی اور ہو لڑکا جس کی نیت انہوں نے منت مانتے وقت کی تھی۔ اس پیدا ہونے والی لڑکی کے برابر نہیں اور میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور جب یہ اولاد والی ہوگی۔ اس کی اولاد کو بھی شیطان مردود سے حفاظت کے لیے آپ کی پنا ہ میں دیتی ہوں۔ ( سورۃ آل عمران 36)

حضرت مریم کی کفالت:۔

حضرت مریم کی والدہ  اپنی بیٹی کو لیے بیت المقدس تشریف لے گئی۔ وہاں علماء بنی اسرائیل موجود تھے اور حضرت زکریا علیہ السلام بھی موجود تھے۔ اگر مریم کے والد زندہ ہوتے تو جو بیت المقدس کے امام تھے۔وہ خود اپنی بیٹی کی تربیت کرتے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی خواہش یہ تھی کہ حضرت مریم کی خالہ تھیں۔ جبکہ باقی علماء کی تھی یہی خواہش تھی کہ مریم کی کفالت کی سعادت انہین مل جائے۔

حق کفالت میں جھگڑا

مفہوم آیت ۔ اور آپ ان لوگوں کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے۔ جب ہو مریم کی حق کفالت کے لیے اپنی قلموں کو ( دریا میں ) ڈال رہے تھے( یعنی) جس وقت وہ لوگ اس معاملے میں جھگڑ رہے تھے آپ وہاںموجود نہیں تھے ( سورۃآل عمران 44)

حضرت زکریا علیہ السلام کے نام قرعہ

جب حضرت مریم نذر میں قبول کر لی گئیں تو مسجد کے مجاورین میں جھگڑا ہوا کہ انہیں کس کی پرورش میں رکھا جائے آکر قرعہ اندازی کی نوبت آئی سب نے اپنے اپنے قلم جن سے تورات لکھتے تھے۔ چلتے پانی میں چھوڑ دیئے کہ جس کا قلم پانی کے بہائو پر نہ بہے بلکہ الٹا پھر جائے اس کی حقدار سمجھیں۔ اس میں بھی قرعہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکلا اور حق حقدار کو پہنچ گیا ( تفسیر عثمانی )

حضرت مریم علیہ السلام سے فرشتوں کی گفتگو

حضرت مریم نہایت پاک باز ، نیک ، زاہدہ و عابدہ خاتون تھیں۔ آپ بچپن میں بھی خدا کا انتخاب تھیں۔ اور جوانی میں بھی خدا کا انتخاب تھیں۔

مفہوم آیات:۔ اور وہ وقت بھی قابل تذکرہ ہے۔ کہ جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت بخشی ہے۔ پاکیزگی عطا کی ہے۔ اور اس زمانے کی دنیا بھر کی خواتین میں منتخب فرما کر فضیلت بخشی ہے۔ اس لیے اے مریم ! آپ اپنے رب کی اطاعت کرتی رہیں۔ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتی رہیں۔ اور رکوع کرتی رہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ جو رکوع کرنے والے ہیں۔ ( سورۃ آل عمران 43)

فرشتے کا کسی سے کلام کر لینے سے یہ لازما نہیں تا کہ وہ ضرور نبی ہوگا۔

حضرت مریم علیہ السلام کی کرامت

حضرت مریم اپنے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کی زیر تر بیت آ گئیں۔ حضرت مریم بہت چھوٹی عمر میں بلوغ تک پہنچی ہیں۔ ایک کمرہ تھا وہاں حضرت مریم  علیہ السلام کی رہائش رکھی گئی۔ آپ دعوت و تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے واپس آ کر کھانا وغیرہ دیتے ۔ لیکن ایک بار حضرت مریم جس کمرے میں تھیں۔ اس کمرے کا جب دروازہ کھوالا تو سامنے تازہ پھل نظر آئے جن پھلوں کا وہ موسم نہیں تھا۔ حضرت زکریاں علیہ السلان نے تعجب سے پوچھا ۔ مریم تالا بند ہے دروازے پہ تالا لگا ہے۔یہ پھل کہاں سے آئے؟ حضرت مریم نے جواب میں فرمایا:۔ یہ اللہ کی طرف سے آ تے ہیں۔

حضرت مریم کے سامنے فرشتے کا انسانی شکل میں ظہور

مفہوم آیات:۔ اور اس کتاب میں مریم کے اس واقعے کا تذکرہ بھی کرین۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک مشرقی جانب کے مکان میں تشریف لے گئین اور( یکسوئی سے عبادت کے لیے ) اپنے اورلوگوں کے درمیان پر وہ حائےل کر دیا۔ اس موقع پر ہم نے مریم کے پاس یک فرشتہ ( حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو) بھیجا ۔ جو ان کے سامنے کے ایک مکمل انسان کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا۔ ( سورۃ مریم 16،17)

حضرت مریم علیہ السلام کی پاک دامنی

مفہوم آیت:۔ مریم نے کہا۔ میں تجھ سے خدائے رحمن کی پنا ہ چاہتی ہوں اگر تجھ میں کچھ بھی خدا خوفی ہے ( تو مجھ سے دور ہو جا ) ( سورۃ المریم 18)

فرشتوں کی عادت یہی ہے کہ وہ جب بھی انسانی صروت میں رونما ہوتے تو نہایت حسین و جمیل اور خوبصورت شکل میں آ تے ہیں۔ جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے واقعے میں بھی یہ بات موجود ہے۔ اور یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم کی عفت و پاکدامنی کا امتحان مقصود ہو کہ وہ نہایت خوبصورت جوان کو دیکھ کر اپنی عفت و پاکدامنی کو کیسے بچاتی ہیں؟

قرآن کریم نے حضرت مریم کی پاک دامنی اورعفت کی منظر کشی جن خوبصورت الفاظ سے کی ہے وہ ہر عفت مآب خاتون کے لیے عملی زندگی کا ایک سنہرا سبق ہے۔

حضرت مریم علیہ السلام کو بچے کی خوشخبری  اور اظہار تعجب

مفہوم آیات:۔ فرشتے نے جواب دیا۔ میں تو آپ کے رب کا بھیجا ہوا ایک فرشتہ ہوں اوراس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کو ( نسب ، عادات و اخلاق کے اعتبار سے ) پاکیزہ لڑکا دوں۔ مریم نے از راہ تعجب کہا کہ مجھے لڑکا کیسے پیدا ہوگا حالانکہ ( میں اس کے جائز اسباب اختیار نہیں کیے یعنی ) مجھے ( جائز طریقے سے اس مقصد کے پیش نظر) کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ اور میں ( اس کے ناجائز اسباب بھی اختیار نہیں کیے یعنی) میں بد کار عورت نہیں ہوں۔ ( سورۃ مریم 19،20)

اظہار قدرت کی تیسری صورت

اللہ نے اس دنیا میں انسانوں کی پیدائش کے لیے جو عام ضابطہ بنایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے باہمی جنسی ملاپ سے اولاد پیا ہوتی ہے۔ اس ضابطے کو دینی اور معاشرتی رنگ دینے کے لیے ادیان عالم میں اپنے اپنے مذہبی احکام کی روشنی میں نکاح کا حکم اور طریقہ موجود ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے۔ کہ اس فطری ضابطے کی پابندی مخلوق کے لیے لازمی ہے۔ خالق کے لیے نہیں ۔بلکہ وہ قادر مطلق ذات ہے ۔ اگر چاہے تو اسی نظام سے انسانوں کو پیدا فرمائے اور چاہے تو والدین کے بغیر ہی پیدا فرما دے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے یہی جوہ ہے کہ اس ذات نے آدم علیہ السلام کو مرد اور عورت دونوں کے بغیر تخلیق فرمایا۔ حضرت حوال کو بغیر عورت کے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا :۔

مفہوم آیات:۔ فرشتے نے کہا ایسے ہی ہوگا ( یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ) آپ کے رب نے فرمایا ہے کہ میرے لیے یہ بالکل معمولی سی بات ہے اور ہم یہ کام اس لیے کرین گے تاکہ اس ( پیدا ہونے والے) بچے کو لوگوں کے لیے قدرت خداوندی ) نشانی بنائین۔ اور اپنی طرف سے رحمت کا ذریعہ بنائیں اور یہ کام طے شدہ ہے۔ یعنی ازل میں فیصلہ خدا وندی اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ ( سورۃ مریم 21)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت

مفہوم آیات:۔ پھر مریم اپنے بیٹے عیسی کوگود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں۔ قوم کے  لوگوں نے کہا اے مریم ! تم نے بہت بڑی غلط حرکت ۔ اے ہارون کی بہن نہ تیرے ولاد برے آدمی تھے ۔ اور نہ ہی تیری والدہ کوئی بد کار عورت تھی ۔ مریم نے ( چپکے سے ) بچے کی طرف اشارہ کیا( کہ مجھ سے نہیں ، بلکہ اس نومولد بچے سے پوچھو جس پر ) وہ لوگ کہنے لگے ۔ بھلا ہم ایسے بچے سے کیسے پوچھتے؟ جو ابھی گود میں ہے( سورۃ مریم 27تا 29)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی گفتگو

مفہوم آیات:۔ وہ بچہ خود ہی بول اٹھا کہ میں اللہ کاخاص بندہ ہوں۔اس نے مجھے کتاب ( انجیل) دی ہے اور اس نے مجھےنبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں۔ اس نے مجھے با برکت انسان بنا دیا ہے ( یعنی مخلوق خدا کو مجھ سے دین کا نفع پہنچے گا) اور جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں گا۔ اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے۔ اور مجھے میری والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے۔ مجھے سر کش اور بد بخت نہیں بنایا اور مجھ پر اللہ تعلایٰ کی طرف سے سلامتی ہے۔ جس دن میں پیدا ہوا جس دن مجھے موت آئے گی اور جس روز میں ( قیامت کے دن زندہ ہونے کی حالت میں) دوبارہ اٹھایا جائوں گا۔ یہی ہیں عیسی ابن مریم جس میں لوگ جھگڑا کر رہے ہیں۔ میں اس متعلق بالکل سچی بات کہہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی شان کے قطعایہ مناسب نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے بلکہ وہ اس سے بالکل ہر طرح سے پاک ہے۔ وہ کوئی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو بس حکم دیتا ہے کہ ! ہوجا ! تو ہو کام ہو جاتا ہے یقینا  ً میرا اور تم سب کا پرو د گار اللہ ہے۔ اس لیے اسی ہی کی عبادت کرو یہی ( دین پر چل کر جنت جانے کا ) سیدھا راستہ ہے) سورۃ مریم 30 تا 36)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات

مذ کورہ بالا گفتگو سے جو باتیں سمجھ آتی ہیں وہ یہ ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اللہ کے بیٹے نہیں۔ یعنی اس عقیدت  اہنیت اور عقیدہ الو ہیت مسیح کے نظریے کی واضح تر دید ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام صاحب کتا ب نبی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادر زاد نبی ہین۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود مبارک بہت برکتوں والا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے خدمت گزار رہے۔ صرف والدہ کی بات فرمائی کیونکہ آپ بغیر والد کے تھے۔ اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فرمان سے معلوم ہوا کہ والدہ کی خدمت نہ کرنے والا سر کش اور بد بخت ہوتا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدائش سے روز محشر تک سراپا سلامتی ہیں۔ پدائش کے وقت اپنی بے گناہ ماں کی صفائی بیان کر کے لوگوں کے جھگڑے کا حل پیش کر کے۔ عقائد و نظریات کو بیان فرما کے اخلاق و آ داب سکھلا کے انیل کے ذریعے احکام سکھلا کے پہلے بھی سراپا سلامتی رہے اور قرب قیامت نازل ہو کر تمام فتنوں سے اس امت کو محفوظ فرما کے واقعی آپ سراپا سلامتی کا حق ادا کریں گے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود کو عیسیٰ ابن مریم فرما یا کہ میرے نسب پر طعن نہ کرو میں واقعی ابن مریم ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عقیدہ توحید کی نزاہت و پاکیزگی کو بیان فرمایا کر اپنے ابن اللہ ہونے کی تردید کی ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو خالص توحید کا سبق دے کر صرف اسی ذات کو عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی کو جنت جانے کا سیدھا راستہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام انبیائے کرام کی مشترکہ دعوت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ اور خصوصا ً حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پکی اور سچی امت بننے کی سعادت ھاصل ہو ۔آمین 

Complete Video History of Hazrat Essa A.S Click Here 


Hazrat Essa | Hazrat Maryam | 25 December Christmas Day 
Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning

No comments:

Post a Comment