Budget of Pakistan 2021-22 ||
Pakistan Budget 2021 PART 4
They will be able to read in detail the performance of the Government of Pakistan in the last 5 years, and the internal and external issues as well as the budget situation
قرضوں پر کھڑی قومی معیشت
قرض اور قرضوں کا حجم
توانائی کے شعبے میں گر دشتی قرضوں سے مرادیہ ہے کہ حکومت یا سرکاری ادارے جب بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کو حاصل ہونے والی بجلی کے عوض معاوضہ ادا نہیں کر پا تے تو یہ قرض جمع ہوتا رہتا ہے۔ یوں سادہ الفاظ میں بجلی کی پیداواری لاگت اور اسے بیچ کر ہونے والی وصولیوں کے فرق کو گردشتی قرضہ کہتے ہیں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی لاگت پوری نہ ہونے کی اہم وجوہات میں ملک میں جاری بجلی چوری ، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ناقص کا رکردگی شامل ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل جون 2018 میں ملک میں جاری گردشتی قرضہ 1148 ارب روپے تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں اور اس سے منسلک اداروں کو بروقت ادائیگیف نہ کیے جانے پر اس میں بتدریج اضافہ ہو گیا اور نومبر 2020 تک پاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشتی قرضے کا حجم 2306 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے آ ٹھ ماہ جولائی تا فروری کے دوران بجلی سیکٹر کے گردشتی قرضوں میں 212 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ جس کے بعد بجلی سیکٹر کا گردشتی قرضہ فروری 2021 تک 2362ارب روپ تک جا پہنچا تھا۔ یوں موجودہ مالی سال 2021 کے پہلے آ ٹھ ماہ کے دروان بجلی سیکٹر کا گردشی قرضہ ماہانہ 26.5 ارب روپے بڑھا ہے۔ اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران بجھلی سیکٹر کے گردشتی قرضوں میں کل 436 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔ اگر یہ بات سچ ثابت ہو گئی ۔
تو جون 2021 کے اختتام تک پاکستان کا
توانائی کے شعبے سے منسلک گردشتی قرضۃ 2587 ارب روپے ہو جائے گا ۔ ان معاملات کو
دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحریک انصاف نےا پنے دور ِ اقدار میں بجلی
سیکٹر سے منسلک گردشتی قرضے میں دو گنا سے
بھی زائد کا اضافہ کیا ہے۔ پاکستان میں بجلی
کے شعبے میں فعال بنانے اور اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ
نظام میں شفافیت لانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ 19 مئی 2021 کو مہمند
ڈیم کے دورے کے مو قع پر وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ 2023
تک ملک میں جاری توانائی سیکٹر کا گردشتی قرضہ 1455 روپے تک پہنچ جائے گا ۔ اس
حوالے سے وزیر اعظم نے یہ نوید بھی سنائی کہ 2028 تک ملک میں 10 بڑے پانی کے
پراجیکٹ مکمل ہو جائیں گے ۔
ایف بی آر کا ٹیکس ہدف اور حصول
رواں مالی سال
2021 کے لیے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس آمدن کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھا گیا
تھا۔ فیڈرل بورڈ آ فرینویو کی جانب سے جاری کردہ اعاد و شمار کے مطابق موجودہ مالی
سال کے پہلے دس ماہ جوالئی تا اپریل کے دوران ایف بی آ ر نے 3780 ارب روپے کا نیٹ
رینویو حاصل کیا ہے جو کہ اس عرصہ کے مقرر کردہ ہدف 3637 ارب روپے سے 143 ارب روپے
زائد ہے ۔ اسی طرح پچھلے سال اس عرصہ ( جولائی 2019 تا اپریل 2020) کے حاصل کردہ
نیٹ رینویو 3320 ارب روے کے مقابلے میں رواں سال 14 فیصد اضافہ ہو اہے ۔ ریونیو
حصول میں بہتری اس جانب اشارہ کرتی ہے۔ کہ
ملکی معاشری سر گرمیاں بحالی کی جانب گامزن ہیں۔ حالانکہ اس وقت ملک کو کورونا
وباء کی تیسری لہر کا سامنا ہے۔
اگرچہ گزشہ مالی
سال میں ٹیکس ریونیو کلیکشن میں کمی کی ایک بڑی وجہ کورونا وبا اور لاک ڈائون کے
باعث ہونے والے معاشی سست روی قرار دی گئی ۔ تاہم رواں سال ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ
میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ یکم مئی 2021 تک ٹیکس سال 2020 کے لیے انکم ٹیکس گو
شوارے داخل کرنے والوں کی تعداد 29 لاکھ ہو چکی ہے۔ جو کہ پچھلے سال اسی عرصے تک
26 لاکھ تھی ۔ اسی طرح ٹیکس گوشوارے داخل کرنے والون کی تعداد میں 12 فیصد اضافہ
ہوا ہے ۔ ٹیکس گو شواروں کے ساتھ ادا شدہ ٹیکس 50.6 ارب روپے رہا جو کہ پچھلے سال
اسی عرصہ میں 33.1 ارب روپے تھا اسی طرح موجوہ مالی سال 2021 میں ٹیکس ادائیگی میں
53فید اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ مالی سال میں جولائی تا مئی کے دوران ایف بی آر نے 4
ہزار 143 ارب سے زائد کے ٹیکس جمع کیے۔
ایک ہزار 472 ارب روپے کا انکم ٹیکس جمع
کیا گیا ۔جبکہ 1 ہزار 777 ارب روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جمع کیے ۔ اسی طرح روں
مالی سال کے 11 ماہ کے دوران 662 ارب روپے کی کسٹم ڈیوٹی اکھٹی کی گئی ۔ جبک 252
ارب روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں جمع کیے گئے ۔
واسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس کا حجم
ایف بی آر کی جانب سے موجودہ مالی سال میں واسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس کے حجم کا موازنہ کیا جائے تو مالی سال 2021 میں ایف بی آر نے 2 ہزار 43 ارب روپے کے واسطہ ٹیکس نافذ کیے ۔ جبکہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل ملک میں واسطہ ٹیکس 1 ہزار 594 ارب روپے تھے ۔یوں موجودہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں واسطہ ٹیکس 500 ارب روپے سے زائد کا اضافہ کیا۔ اگر واسطہ تیکس کی تفصیل کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد انکم ٹیکس کو 1 ہزار 577 ارب روپے سے بڑھا کر 2 ہزار 35 ارب روپے پر لے گئی ہے۔ ور کز ویلفیئر فنڈ کو 14.6 ارب روپے کی ریکارڈ کمی کر کے 3.2 ارب پر لے گئی ہے جبکہ کیپیٹل ویلیو ٹیکس کو 2.7 ارب روپے سے بڑھا کر 3 ارب روپے پر لے گئی ہے۔ اسی طرح اگر بلا واسطہ ٹیکس کا موازنہ کیا جائے تو تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل بلا واسطہ ٹیکس 2 ہزار 418 ارب روپے تھے ۔ جنہیں کو بڑھا کر 2 ہزار 920 ارب روپے کر دیا گیا ۔ بلا واسطہ ٹیکسز میں شامل کسٹم ڈیوٹیز کو موجودہ حکومت نے تقریب ڈھائی سال کے دوران 581 ارب روپے بڑھا کر 640 ارب روپے کر دیا ہے ۔
اسی طرح سیلز ٹیکس کو بھی 1 ہزار 650 ارب روپے سے بڑھا کر 1 ہزار 919 ارب روپے کیا گیا ۔ جبکہ فیڈرل ایکسائز کو ڈھائی سال کے دوران 231 ارب روپے سے بڑھا کر 361 ارب روپے کر دیا گیا ۔ ایف بی آر کو حاصل ہونے والے واسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس کے علاوہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت عوام سے پٹرولیم ک مد میں بھی پیسے حاصل کرنے کے لیے پٹرولیم لیوی ٹیکس میں ریکارڈ اضافہ کر کے اسے ڈھائی سال کے دران 160 ارب روپے سے 450 ارب روپے پر لے گئی ہے۔معیشت پر قرضوں کا بوجھ
ملکی معیشت پر قرضوں کے بوجھ میں تو اتر سے اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ تحریک انصاف کے بر سر اقتدار آنے کےبعد ملکی قرضوں میں ریکارڈ 52 فیصد اضافہ دیکھنے میں آ یا ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران موجودہ حکومت میں قرضے اکٹھے کرنے کی رفتار میں ترییز رہی اور ملک کے مجموعی قرضہ جات میں مار چ 2021 تک تقریبا 15 ہزار 600 ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق پاکستان کا کل قرضہ 45 ہزار 470 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اگر ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں لیے گئے قرضوں کا موازنہ کیا جائے تو جون 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹ کی حکومت آنے سے قبل پاکستان کا کل قرضہ 6 ارب 691 ارب روپے تھا۔
جون 2013 میں (ن) لیگ کی حکومت آنے سے پہلے پاکستان کا مجموعی قرضہ 16 ہزار 338 ارب روپے کا تھا۔ جبکہ جون 2018 میں ملک کا مجموعی قرضہ 29 ہزار 879 ارب روپے تک جا پہنچا ۔یوں پاسکتان پیپلز پارتی کے پانچ سالہ دور حکومت میں مجموعی قرضہ جات میں ساڑھے 9 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ یعنی کہ تقریبا سالناہ 2 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح مسلم لیگ ( ن) کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں ملکی قرض میں تقریبا ساڑھے 13 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ یعنی ہکہ سالانہ تقریبا 2700 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے تقریبا تین سالہ دور ِ حکومت میں بڑھنے والے قرضوں کا جائزہ لیا جائے تو سالانہ تقریبا 5 ہزار 200 ارب روپے کی رفتار سے ملکی قرضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کے کل قرضوں و واجبات میں اندورنی قرضوں کا تناسب 61 فیصد ہے ۔ جبکہ بیرونی قرضہ 39 فیصد ہے۔ قرض واجبات کے حوالے سے حکومتی اعداد شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سال کے دوران حکومت کے اندرونی قرضے میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ بیرونی قرضے میں 53 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آءی ایم ایف سے لیے جانے والے قرضے میں گزشتہ تین سالد میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے کل قرضہ جات میں انٹر نیشنل مانیتری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کا حصہ 1 ہزار 165 ارب روپے یعنی صرف 2.5 فیصد ہے۔اسی طرح پاکستان کا کل قرضہ ملکی جی ڈی پی کا 95.3فیصد ہے۔ جو کہ جون 2018 میں 86.3 فیصد پر تھا ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020 تک ملک کا مجموعی بیرونی قرض 116 ارب ڈالر سے تجاویز کر گیا ہے۔ جو کہ گزشتہ سال مار چ 2020 کو 110 ارب ڈالر تھا۔ یعنی گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے ذمے مجموعی طور پر واجب ادا قرض میں چھ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔وزیر اعظم عمران
خان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا۔ کہ حکومت نے اپنے ڈھائی سالہ دور ِ اقتدار میں
20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کا جائزہ
لیا جائے تو حکومت نے مالی سال 2019 میں
9.4 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کیے ۔ جبک رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ جولائی
سے اپریل کے دوراین 9.6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی گئی ۔ اگر بیرونی
قرضوں کی ادائیگی کا موازنہ ماضی کی حکومتوں سے کیا جائےتو مسلم لیگ ( ن) نے اپنے
پہلے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں تقریبا 10
ارب ڈالر کی بیرونی قرض کی مد میں
ادائیگی کی ۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی
جانب سے اپنی حکومت کے پہلے ڈھائی سال کے دوران بیرونی قرض کی مد میں 6 ارب ڈالر
سے زائد کی ادائیگی کی گئی ۔
بجٹ خسارہ
پاکستان تحریک انصاف کے حکومت آنے سے قبل وفاقی بجٹ خسارہ اپنی تاریخ سطح پر تھا۔ مالی سطح 2018 میں گزشتہ حکومت کے آخری ادوار میں پاکستان کا بجٹ خسارہ 1 ہزار 891 ارب رپے تھا۔ اسی طرح ملکی جی ڈی پی کا کلک حجم 34 ہزار 396 ارب روپے تھا۔ یوں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل مالی خسارہ جی ڈی پی کا 5.5 فیصد تھا ۔
عمران کے بر سر اقتدار انے کے بعد ملکی جی ڈی پی خسارے کو کم کرنے کے لیٹیکس کو لیکشن نظام میں بہتری لانے اور حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ ٹیکس نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے لیے تک رکھنے کی توقع رکھی ۔ جبکہ ملکی جی ڈی پی 38 ہزار 388 ارب روپے مقرر کی گئی تھی یوں حکومت نے مالی سال 2019 میں بجٹ خسارہ 4.9فیصد طے کیا تھا البہت نظر ثانی کے بعد بجٹ خسارہ 2 ہزار 776 ارب روپے کی سطح کو پہنچ گیا جو کہ اس مالی سال میں ملکی جی ڈی پی کا 7.02 فیصد بنا ۔ کچھ ایسا ہی گزشتہ مالی سال کے دوران ہوا جب حکومت کی جانب سے بجٹ خسارہ 3 ہزار 137 ارب روپے مقرر کیا گیا جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا ۔ جبکہ لکی جی ڈی پی کا حجم 44 ہزار ارب روپے طے کیا گیا ۔ا لبتہ ایک دفعہ پھر ان اعداد و شمار میں نظر ثانی کی گئی اور بجٹ خسار ہ 3 ہزار 800 ارب روپے کو عبور کر گیا جبکہ ملکی جی ڈی پی 41 ہزار 727 ارب روپے تک آ پہنچا۔ یوں گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی بجٹ خسارہ ملکی جی ڈی پی کا 9.1 فیصد رہا ۔ رواں مالی سال میں ملکی بجٹ خسارہ مزید اضافے کے ساتھ 3 ہزار 195 ارب روپے کو پہنچ گیا جو کہ ملک کی کل جی ڈی پی کا 7 فیصد ہے۔ جبکہ حکومت نے موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کا کل حجم 45 ہزار 567 ارب روپے مقرر کیا ۔ وزارت فنانس کے دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ جولائی سے مارچ کے دوران ملکی بجٹ خسارہ 1 ہزار 652 ارب روپے تک جا پہنچا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 1 ہزار 686 ارب روپے تھا ۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ملکی جی ڈی پی 47 ہزار 709 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے یوں ی کہنا غلط نہ ہو گا۔ کہ موجودہ مالی سال کے دوران ملکی جی ڈی پی میں طے شدہ ہدف سے 4 فیصد زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔
The best online casino for Canadians!
ReplyDeleteThe Top 3 Casino 한게임 포커 Sites 먹튀 for Online Gambling Games in Canada Casino games like blackjack, roulette, keno and video poker 🏆 Best Casino 메리트 카지노 주소 Site: 온라인 카지노 Thunderpick Casino🎲 Online Roulette: Blackjack, Slots💸 Best 더킹카지노 Casino Bonus: Baccarat, Poker💸 Top Online Casino Games: Las Atlantis, Mega Moolah, Ala