Budget of Pakistan 2021-22 || Pakistan Budget 2021 PART 2
They will be able to read in detail the performance of
the Government of Pakistan in the Last 5 years, and the internal and external
issues as well as the budget situation
حکومت کی معاشی کار کردگی
شرح سود
سٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جو لائی 2018 میں 7.5فیصدپر تھا۔
جبکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتےہی اکتوبر 2018 میں پالیسی ریٹ کو 100 بیس
پوائنٹس بڑھا کر 8.5 فیصد کر دیا ۔ جسے اپریل 2019 تک 10.75 تک بڑھا دیا گیا۔ مئی
2019 میں حکومت کی جانب سے رضا باقر کو سٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا گیا ۔جنہوں نے
سٹیٹ بینک کی پیالیسی ریت میں 150 بیس پوئانٹس کا مزید اضافہ کر کے شرح سود کو
12.25 فیصد کر دیا۔ جولائی 2019 میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر پالیسی ریٹ میں نظر
ثانی کی اور پالیسی ریٹ کو 13.25 مقرر کر دیا ۔ جس کے باعث ملک میں مہنگائی کی ایک
نئی لہر سامنے آئی مرکزی بینک کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات کی صورت میں
ملک میں کاروباری سر گرمیوں میں جمود آیا جس کے باعث بیروز گاری میں ریکارڈ اضافہ
دیکھنے میں آیا ۔
منظوری بھی دی گئی ہے۔
افراطِ زر
تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں افراطِ زر میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ جس کے سبب جنوری 2019 میں ملک میں مہنگائی ریکارڈ 14.6 فیصد تک جا پہنچی ۔ ملک میں پیش آنے والے بحران جن میں گندم و چینی بحران سر فہرست ہیں نے افراطِ زر میں ریکارڈ اضافے میں کلیدی کر دار ادا کیا ۔ تحریک انصاف کے دور ِ حکومت میں افراطِ ذزر کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو مالی سال 2019 میں ملک میں افراط ِ زر کی شرح تقریبا 7 فیصد تھی ۔ جو کہ مالی سال 2020 میں 11 فیصد سے تجاوز کر گئی ۔ مالی سال 2021 افراط ِ زر تقریبا 9 فیصد تک رہا۔
رواں مالی سال میں اجناس کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے وپچھلے تین سالوں کے درمیان، آ ٹے کی فی کلو قیمت میں تقریبا ً 400 روپے کا اضافہ ہوا ۔ جس کے باعث جون 2018 میں 723 روپے فی کلو میں ملنے والا آ تا جون 2021 میں 1 ہزار 128 روپے تک جا پہنچا ۔ سای طرح فی درجن انڈے جن کی قیمت جون 2018 میں 88 روپے تھی ۔ جون 2021 میں تقریبا 135 روپے تک جا پہنچے۔ ساتھ ہی چینی کی قیمت جون 2018 میں 54 روپے فی کلو دستیاب تھی ۔ جون 2021 میں 97 روپے فی کلو تک جا پہنچی ۔ یا درہے کہ حکومت نے موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح کو کم کر کے 6.5فیصد تک لانے کا اردہ کیا تا البتہ گندم و چینی بحرانف اور اشیائے خورد نوش کی طلب اور رسد میں ریکاڈ فرق کے باعث حکومت افراطِ زر کو قابو کر نے میں ناکام نظر آئی ۔ اقتصادی ماہرین اسے حکومتی نا اہلی قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت کے مطابق مہنگائی میں اضافہ ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے ہوئے جو کہ طویل مدتی معاشی استحکام کیلئے نا گزیر تھے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم مختلف مافیاز کو بھی بیشتر معاشی مسائل اور بڑھتی مہنگائی کے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔فی کس آ مدن
پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے پہلے فی کس آمدن ریکارڈ 1652 ڈالر تھی ۔ جس کے بعد اس میں کمی دیکھنے میں آئی اور مالی سال 2019 میں فی کس آمدن 1459 تک جا پہنچی مالی سال 2009 کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان میں فی کس آمدنی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ معاشی تنزلی اور پیسے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ فی کس آمدن میں کمی کی وجہ بنی مالی سال 2009 میں پاکستان کی فی کس آمدنی 1026 ڈالر تھی ۔ جس میں سالانہ بتدریج اضافہ ہو تا گیا ۔ گزشتہ مالی سال 2020 میں معاشی بد حالی کےسبب فی کس آمدن مزید کمی کے بعد 1361 ڈالر تک پہنچی ۔
تاہم رواں مالی سال کے دوران معاشی استحکام
آنے کے باعث فی کس آمدن تقریبا 200 ڈالراضافے کے ساتھ 1543 ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ یوں رواں مالی سال کے دوران
پاکستان کی فی کس آمدن میں 14 فیصد اضافہ ہو اہے۔ اگر خطے میں موجودہ دیگر ہمسایہ
ممالک سے پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ کیا جائے تو سوائے افغانستان کے دیگر
تمام ممالک کی فی کس آمدن پاکستان سے زیادہ ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق سال 2019 میں چین میں فی کس آمدن 10 ہزار 216 ڈالر تھی ۔ اسی طرح سال
2018 میں ایران میں فی کس آمدن 5 ہزار 550 ڈالر تھی ۔ سال 2019 میں بھارت کی فی کس
آمدن 2099 ڈالر تھی ۔ سال 2019 میں بنگلہ دیش میں فی کس آمدن 1855 ڈالر جبکہ سال
2019 میں افغانستان میں فی کس آمدن 507 ڈالر تھی ۔ پاکستان میں فی کس آمدن کو
مقامی کرنسی کے مطابق دیکھا جائے تو ڈالر 159.75 روپے ہونے کے باعث ملک کی فی کس
آمدنی میں 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے ہے۔ جو گزشتہ
مالی سال کے دوران 2 لاکھ 15 ہزار 60 روپے تھی ۔ جب فی ڈالر 158 روپے کا
دستیاب تھا۔
پاکستان سٹاک ایکس چینچ 100 انڈیکس
پاکستان میں 26 فروری 2020 کو کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آ نے کے بعد پاکستان سٹاک ایکس چینچ 100 انڈکس میں صرف ایک ماہ کے دوران 28 فیصد گراوٹ ریکارد کی گئی اور انڈکس 39 ہزار پوائنٹس سے کم ہو کر 28 ہزار پوائنٹس پر آ گرا ۔ تاہم حکومت کی جانب سے بر وقت کئے جانے والے معاشی اقدامات اور لاک ڈائون میں نرمی کے باعث ملکی معیشت میں استحکام آیا جس کے پیش نظر پاکستان سٹاک ایکس چینچ نے ریکارڈ ریکوری کی اور تقریبا 20 ہزار پوانٹس کے اضافے کے ساتھ اس وقت 48 ہزار پوائنٹس سے اوپر کی سطح پر موجود ہے۔
یہ بات قابل ستائش ہے کہ پاکستان سٹاک مارکیٹ
نے ایسے حالات میں مثبت کار کردگی کا مظاہرہ کیا جب کورونا لاک ڈائون کے باعث ملکی
معیشت دبائو کا شکار تھی اور مختلف شعبے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھےسال
2020 میں عالمی مالیاتی اداروں کی کارو کر دگی پر تحقیق کرنے والی امریکی ادارے
" مارکیٹ کرنٹس ویلتھ نیٹ" کی جانب سے جاری دکھانے والی مارکیٹ کا اعزاز حاصل ہوا پاکستان
سٹاک ایکس چینچ میں اس وقت 546 سے زائد کمپینیز لسٹڈ ہیں جو کہ 35 شعبوں میں تقسیم
کی گئی ہیں۔ دنیا کے بیشر معاشی ماہرین کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کا اندازہ اس
وقت ک سٹاک مارکیٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے کرتے ہیں۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ
میں سرمائے کی مالیت کا تخمیہ تقریبا ً 55
ارب ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ملکی
کی مجموعی قومی پیداوار اس وقت 280 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جو تقریبا 25 فیصد بنتا
ہے۔ اس کے برعکس دیگر ممالک کی سٹا ک مارکیٹ میں لگنے والے سرمائے رقم اس ملک کی جی ڈی پی کے مقابلے میں زیادہ
ہوتی ہے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کو ملکی معیشت کی کار
کردگی جانچنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ 28 مئی 2021 کو پاکستان کی سٹاک
ایکس چینچ کا 100 انڈکس 4 سال کی بلند ترین سطح
47 ہزار 126 پوائنٹس پر بند ہوا ۔ اس سے قبل 3 اگست 2017 کو مارکیٹ 47ہزار
کی سطح پر بندہوئی تھی ۔ حکومت کی جانب سے بروقت کیے جانے والے اقدامات نے معشیت پر مثبت اچرات چھوڑے جس کے باعث
پاکستان سٹاک مارکیٹ ریکارڈ اضافے کے ساتھ 48000 پوائنٹس کی نفسیاتی سطح کو عبور
کر گئی۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پرو گرام میں مختص کی گئی رقم
پاکستان تحریک انصاف نے رواں مالی سال 2021 میں ملک میں تر قیاتی مقصد کیلئے مخٹص پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پرو گرام یا پی ای ڈٰ پی کیلئے 650ارب روپے مخص کیے تھے۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد تر قیاتی کاموں کو اہمیت دینے پر زور تو دیا ۔ اور حکومت میں آنے کے بعد پی ایس ڈی پی کو 750 ارب روپے سے 800 ارب روپےپر لے گئی۔ البتہ مالی سال 2019 میں تحریک انصاف حکومت نے پبلک ڈویلپمنٹ پرو گرام کیلئے 800 ارب روپے مختص کیے البتہ صرف 677 ارب روپے ہی خرچ کر سکی۔ اسی طرح مالی سال 2020 میں حکومت کی جانب سے پی ایس ڈی پی کیلئے 701 ارب روپے مخٹص کیے گئے جس میں سے صرف 644 ارب ہی خرچ کیے جا سکے ۔
موجودہ سال 2021 میں حکومت نے ترقیاتی پر و گراموں کیلئے مختص کی جانے والی رقم میں کٹوتی کرتے ہوئے پی ایس ڈی پی کو 650 ارب روپے پر لے گئی ۔ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری کردی اعداد و شمار کے مطابق حکومت 21 مئی 2021 تک پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پرو گرام میں سے صرف 565 ارب روپے ہی خرچ کر سکی۔ وزارت منصوبہ بندی کے جاری اعداد و شمار کے مطابق پی ایس ڈی پی کے تحت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لیےمجموعی طور پر مختص کر دہ 118.7 ارب روپے میں سے 115 ارب روپے ، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی ( این ٹی دی سی) کیلئے 49.7 ارب روپے، واٹر ریسورسز ڈویژن کیلئے مختص کیے گئے 81.2 ارب روپے میں سے 70.6 ارب روپے ، نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 14.5 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مختص کیے گئے جن میں سے 12.7 ارب روپے خرچ کیے گئے ۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ریسرچ ڈویشن کیلئے 4.4 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں سے 2.5 ارب روپے ادا کیے گئے اور ہائیر ایجو کیشن کمیشن ( ایچ ای سی ) کو مجموعی طور پر 29.4 ارب روپے کے مختص کردہ فنڈذ میں سے 28.1 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ مزید برآں حکومت نے آزاد جموں اینڈ کشمیر کیلئے تر قیاتی پرو گرام کے تحت مختص کر دہ 27.4 ارب روپے میں سے 23.3 ارب روپے اور گلگت بلتستان میں تر قیاتی منصوبوں کیلئے مختص کردہ 25 ارب روپے میں سے 13.6 ارب روپے جاری کردیے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کی جانب سے ریلویز ڈویژن کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے 24 ارب روپے میں سے 16.4 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ کینٹ ڈویژن کیلئے مجموعی طور پر مختص کر دہ 47.08 ارب روپے میں سے 24.1 ارب روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔دفاعی اخراجات کا گزشتہ تین سالوں کا تقابلی جائزہ
وہ بجٹ جو کوئی ریاست اپنی حفاظت کیلئے مسلح افواج ، آرمی ،
نیوی ، اور ایئر فورس پر خرچ کرتی ہے۔ اسے دفاعی بجٹ کہا جاتا ہے۔ امریکہ اور دیگر
پاور فل ممالک اپنا سب سے زیادہ بجٹ اپنے دفاعی نظام پر لگاتے ہیں۔ لیکن پاکستان اس کے برعکس ہے۔ صرف سیاسی پھینٹ
چڑ ھ جا تا ہے۔
بیروز گاری
پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و
شمار کے مطابق سال 2018 میں پاکستان کی کل لیبر فورس کی تعداد تقریبا 6 کروڑ 55 لاکھ
، جبکہ اس وقت بروز گاری کا تناسب 5.8
فیصد تھا۔ ادارہ شماریات کے مطابق کورنا وبا ء سے قبل ملک میں رو ز گار افراد کی
تعداد 5 کروڑ 57 لاکھ تھی۔ تاہم کورونا وبا ء کے باعث لگنے والا لاک ڈائوں اس میں
22 فیصد کمی کر کے روز گار افراد کی تعداد تقریبا 3 کروڑ 50 لاکھ پر لے گیا ۔نا
صرف یہ بلکہ لاک ڈائون کے دوران 37 فیصد یعنی تقریبا 2 کروڑ 6 لاکھ افراد بے روز
گار ہوئے جبکہ 12 فیصد یعنی تقریبا 70 لاکھ افراد کی تنخواہوں میں کٹوتی کا سامنا
کرنا پڑا ۔ کورونا لاک ڈائون نے سب سے زیادہ نقصان روزانہ اجرت سے منسلک روز گار افراد کا کیا ۔ ساتھ ہی بیر وز گاری کا سامنا
کر نے والے 74 فیصد افراد کا تعلق ان فارمل سیکٹر سے تھا۔ کورونا وباء کے باعث
حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے لاک ڈائون کے اثرات کا اگر موازنہ کیا جائے
تو کنسٹرکشن سیکٹر سے منسلک 80 فیصد افراد یا تو بیرو ز گار ہوئے یا پھر ان کو
تنخواہوں میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا ۔
اسی طرح مینو فیکچرنگ میں 72 فیصد ٹرانسپورٹ میں 67 فیصد جبکہ ہو ل سیل اور ریٹیل
سیکٹر سے منسلک 63 فیصد افراد یا تو بیروز گار ہوئے یا پھر انہیں اپنی تنخواہوں میں
کٹوتی کا سامنا کر نا پڑا ۔ لاک ڈائون کے اثرات سے ٹمنٹے کیلئے حکومت کی جانب سے
احساس ایمرجنسی کیش پرو گرام متعارف کر ایا گیا ۔ جس کے تحت تقریبا 1 کروڑ 20 لاکھ
خاندان کو 12 ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی
۔ ساتھ ہی مالی سال کے دوران معاشرے کے کمزور افراد کیلئے مزید 208 ارب روپے بھی
رکھے گئے ۔ جس کا مقصد ملک کے 55 ملین بیروز گار افراد کی مدد کرنا تھا۔ حکومت کی
جانب سے بروقت اقدامات کیے جانے والے لاک ڈائون میں نرمی کے باعث روز گار کے مواقع
پید ہوئےاور ادارہ شماریات کے اعداد شمار کے مطابق ملک کے تقریبا 5 کروڑ 25 لاکھ
افراد بر سر ِ روز گار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں پاکستان کی
24.3 فیصد آبادی غربت کی لیکر سے نیچے رہتی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے
نشاندہی کی گئی ہے کہ کور نا وبا اور معاشی سست روی کے باعث اب 40 فیصد آبادی کا
غربت کی لکیر سے نیچے ہونے کا اندیشہ ہے۔
اگر آئی ایم ایف کا یہ اندیشہ سچ ثابت ہو گیا تو ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے
رہنےو الے افاراد کی تعداد 8 کروڑ سے تجاوز کر نے کا بھی خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف کے
مطابق 2019 میں پاکستان میں بیرو ز گاری
کی شرح 4.1 فیصد تھی ۔ جو 2020 میں 4.5 پر پہنچ گئی ۔ اور اب سال 2021 میں ملکی
بیروز گاری کی شرح 5.1 فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر
تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل جون 2018 میں مارکیٹ میں فی ڈالر 121 روپے کا تھا۔ تاہم حکومت کے بر سر اقتدار میں آنے تک اگست 2018 میں مارکیٹ میں فی ڈالر 124 روپے تک جا پہنچا ۔ حکومت کی ناکام معاشی پالیسوں کے باعث روپیہ اپنی قدر مزید کھو تا گیا اور جون 2019 تک مارکیٹ میں فی ڈالر 163 روپے ریکارڈ ہوا۔ یوں حکومت کے ایک سالے دوران ہی روپے کی قیمت میں 39 روپے کی کمی ہوئی ۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے کے سبب ملکی در آمد ات مہنگی ہوئی ۔ اور ساتھ ہی ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ حکومت روپے کی قدر میں کمی کااصل مجرم ماضی کی حکومت کو قرار دیتے ہوئے یہی مئو قف اپناتی رہی کہ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں کمی مصنوعی طریقے سے کی جا رہی تھی ۔ جبکہ موجودہ حکومت کے دوران ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھائو ۔ مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہو رہا ے۔ البتہ مالی سال 2020 میں کورنا وبا کے باعث معاشی سست روی ہونے پر روپے کی قدر میں ایک مرتبہ پھر کمی دیکھنے میں آئی جس کے نتیجے میں جون 2020 میں مارکیٹ می فی ڈالر 168 روپے پر آن پہنچا ۔ رواں مالی سال کےد وران حکومت کی جانب سے نافذ لاک ڈائون میں نرمی کرنے کے باعث ملکی معاشی صورتحال میں بہتری دیکھنے میں آئی جس کا براہ راست اثر روپے کی قیمتوں میں پڑا اور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ استحکام دیکھنے میں آیا۔ البتہ رواں مالی سال 2021 میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل اضافتہ دیکھنے میں آیا ۔
مالی سال 2021 کی بات کی جائے تو پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم ماہانہ 2 ارب ڈالر سے زائد رہین جس کے باعث ملکی تر سیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ۔ رواں مالی سال میں حکومت کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ نامی سکیم متعارف کرائی گئی ۔ جس کی وجہ سے ملک میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ ساتھ ہی کورونا وبا کے باعث لگنے والے عالمی لاک ڈائون نے دنیا بھر کی معشیت میں سست روی کا رجحان پیدا کیا ۔ جس کا سیدھا اثر امریکی ڈالر پر پڑ ا۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عالمی معاشی سست روی نے امریکی ڈالر کی قیمت کو نیچے لے جانے میں بہت مدد فراہم کی ۔ تحریک انصاف کے تقریبا تین سالہ دورِ حکومت میں روپے کی قدر کا جائزہ لیا جائے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا اعلان کیا ۔ جبکہ مزید 4 لاکھ افراد کو ہنر مند تر بیت دینے کا بھی اعلان کیا گیا ۔ اس سلسلے میں حکومت نے اکتوبر 2019 کو " کامیاب جوان پرو گرام" کا افتتاح کیا جس کے تحت نوجوانوں کو 10 ہزار روپے سے 50 لاکھ روپے تک کے قرض آ سان قسطوں پر دینے کا اعلان کیا گیا ۔
نوجوانوں میں اس پرو گرام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کامیاب پرو گرام میں قرضوں کی حد کو 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر ڈھائی کروڑ روپے کر دیا گیا۔ ناصرف یہ بلکہ حکومت نے قرضوں پر سود کی شرح کو 6 اور 8 فیصد سے کم کر کے 3 اور 4 فیصد بھی کر دیا ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے مطابق مئی 2021 تک 10 ہزار افراد کو کامیاب جوان پرو گرام کے تحت ساڑھے 8 ارب روپے جا ری کیے جا چکے ہیں۔ عثمان ڈار کے مطابق وفاقی حکومت نے سندھ کے نوجوانوں کیلئے کامیاب جوان پرو گرام کے تحت 10 ارب روپے جاری کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق مئی 2021 تک حکومت کامیاب جوان پرو گرام کے تحت 1.3 ارب روپے قرض اور 1.4 ارب روپے کی رقم سکل سکالر شپ پرو گرام کے تحت سندھ کے نوجوانوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کے کابینہ میں شامل ہونے کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار کامیاب جوان پرو گرام کے تحت نوجوانوں کیلئے قرض کی حد کو 5 کروڑ تک بڑھا نے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس کے علاوہ مئی 2021 میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے نوجوانوں کیلئے دو نئے پرو گرامز لانے کا اعلان کیا گیا جس میں نوجوانوں کیلئے روز گا رکیلئے 50 ہزار سکالر شپ ، ہائر ٹیکنالوجی کیلئے دی جائین گی ۔ جبکہ ایک لاکھ 70 ہزار سکل ایجوکیشن کیلئے سکالر شپس دی جائیں گی تاکہ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جا سکے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ان تمام منصوبوں کیلئے حکومت کی جانب سے 100 ارب روپے مختصکیے گئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment