Hazrt Imam Hussain (RZ) | History of Karbala | waqia karbala 10 muharram | waqia karbala in Urdu - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Sunday, July 23, 2023

Hazrt Imam Hussain (RZ) | History of Karbala | waqia karbala 10 muharram | waqia karbala in Urdu

Hazrt Imam Hussain (RZ) | History of Karbala | waqia karbala 10 muharram | waqia karbala in Urdu

نوجوان جنت کے سردار ، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

History of Karbla


نواسئہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا فلسفہ شہادت مسلمانوں ہی کے لیے نہیں

پوری انسانیت کے لیے دستور ِ حیات ہے

نوجوان جنت کے سردار ، کربلا کے قافلہ  سالار ، حق و صداقت کے علم بر دار ، سید نا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، رحمتہ اللعالمین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے چہیتے نواسے، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیدۃ النساء اہل الجنۃ ، حضرت فاطمہ الزہرا ء کے عظیم فرزند اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ابو عبد اللہ آپ رضی اللہ تعالیٰ   کی کنیت ، سید طیب، مبارک ، سبط النبی ﷺ ، ریحانتہ النبی اور نواسئہ رسول ﷺ  القابات ہیں، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، سید عرب و عجم ، سر کار دو عالم ﷺ ولادت با سعادت کی خبر سن کر  حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لائے ، نومولود کےکانوں میں اذان دی، منہ میں پانا مبارک لعاب ِ دہن داخل فرمایا، دُعا  فرمائی اور نام نامی " حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ" رکھا، سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریبا ً سات سال تک سرور کونین ﷺ کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی، نبی کریم ﷺ، حضرت حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غیر معمولی  محبت و شفقت فرماتے اور تمام صحابہ کرام بھی رسالت مآب ﷺ کی اتباع میں حسنین کریمین  سے خصوصی شفقت و محبت رکتے اور اُن کا اکرام فرماتے ، نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد خلیفتہ الرسول ﷺ ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امیر المو منین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرات حسنین رضی  اللہ تعالیٰ عنہ کو نہات عزیزی اور مقدم رکھتے اور انہیں  اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے امام عالی مقام سیدنا حسین بے حد فیاض ، نہایت متقی ، عبادت گزار اور کثرت سے نیک عمل کرنے والے تھے سخاوت مہمان نوازی ، غربا ء   پروری ، اخلاق و مروت ، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصیات حسنہ تھیں ۔ آپ رضی تعالیٰ عنہ  کو نماز سے بے حد شغفت تھا، اکثر روزے سے رہتے  حج و عمرہ کی ادائیگی کااتنا  ذوق تھا کہ متعدد حج باپیادہ ادا فرما ئے۔ آپ نہ صرف صورت ، بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی حضور ﷺ  کا شبیہ تھے۔ آپ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد  سے آ راستہ  ہے کہ نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں  سیدنا حسین نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادہ نبوی ﷺ  میں پرورش پائی، اسی لیے معدن فضل و کمال بن گئے ، علم کا باب تو آپ کے گھر میں کھلتا تھا۔ اور تقویٰ  کی سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھٹی ملی تھی ۔ اسی لیے فطری طور پر آپ اپنے دور میں شریعت اور طرقت کے امام تھے ۔ تمام ارباب ِ سیرت  نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپ بلند درجے کے حامل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  قضا و وافتاء میں بہت بلند مقام رکھتےتھے ۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبھی حصول علم کے بعد مسند  تدریس کو زینت بخشی اور مسند افتا ء پر فائز ہوئےاکابر مدینہ مشکل مسائل مین آپ کی طرف رجوع کیا کرتے۔  سبط ِ رسول ﷺ ، سیدنا حضرت حسین دینی علوم کے علاوہ  عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکتھے تھے۔ آپ کے تجرِ علمی، علم و حکمت  اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپ کے خطبات سے لگایا جا سکتا ہے۔ جن میں سےکچھ آج بھی کتب سیرت میں موجود ہیں جگر گوشہ بتول ، سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں متعدد احادیث مبارکہ  کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔

 بار گاہ رسالت ﷺ میں حضرات حسنین کی عظمت  و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی مہربان ﷺ آپ د ونوں کے لیے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپ  کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے ۔ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ﷺ ایک کندھے پر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اٹھائے ہوئےتھے۔ یہاں تک کہ ہمارے  قریب تشریف لے آئے اور فرمایا

" یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں "

اور پھر فرمایا  " اے اللہ ! میں اِن دونوں کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے اُن کو بھی محبوب رکھ ( مشکوۃ شریف)

سرکار  دو عالم ﷺ  نے فرمایا ، " حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نوجوانان  جنت کے سردار ہیں" ( ترمذی)

ایک موقع پر  خاتم النبین ﷺ  نے فرمایا "  جس نے حسن و حسین سے محبت کی اُس نے در حقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دنوں سے بغض رکھے گا وہ دراصل مجھ سے  بغض رکھنے والا ہے" ( البدایۃ و النہایۃ)

 اسی طرح آنحضرت ﷺ کا ارشاد ِ مبارک ہے حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ( ترمذی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا  حسن اور حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں " ( مشکوۃ  شریف )

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  " رسول اللہ ﷺ سےپو چھا گیا کہ آپ ﷺ  کو اہل بیت میں سے کس سےسب سےزیادہ محبت ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نےفرمایا  " حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ سے فرماتے  " میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ " پھر آپ ﷺ انہیں چومتے  اور سینے سے لگا تے " (ترمذی) 

حضرت ابو بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ " رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے  تھے کہ اچانک دیکھا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ  سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آ رہے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا " (ترمذی )

سن  60 ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لا دینیت ، ناا نصافی  عہد شکنی، ظم و جبر اور فسق و فجور  کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات  کی رو ح کے منافی فسق وفجور سے آ راستہ فاسقانہ ثقافت یزید کے  دور اور اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی ۔

تاریخ کی بے شمار کتب اس کی گواہ ہیں ایسے وقت میں جب خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملوکیت کی بنیاد یں رکھی جانے لگیں امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر لازم ہو گیا تو اس نازک وقت میں  سنگیں دور میں  یہ عظیم سعادت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدر ٹھہری ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمانی جذبے سے سر شار ہو کر کھڑے ہوئے اور یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار بن گئے یہاں تک کہ برائی کے سدِ باب کے لیے آخری سانس تک ہر ممکن کوشش کی ۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے تمام خطرات  کے باوجود عزیمت کی راہ اختیا ر کی کیوں کہ ایک طرف ذاتی خطرات تھے اور دوسری طرف ، نانا رسول ﷺ  کا دین اور امت محمدی کا مفاد تھا۔

لہٰذا آپ نے یہ صرف اپنی ذات اقدس بلکہ اپنے پورے گلشن کو اسلام کی سر بلندی اور امت کے وسیع تر مفاد پر قربان کر دیا۔ یوں 10 محرم الحرام  بروز جمعہ 61 ہجری میں وہ دل دوز ، دل خراش سانحہ پیش آیا ۔ جس میں امام  مظلوم ، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے فرزندوں ، بھتیجوں اور دیگر عزیزوں ، جاں نثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقام  کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے  شہادت کے اعلیٰ و عظیم مرتبے پر فائز ہوئے اور باطل کو وہ شکست ِ فاش دی کہ  رہتی دنیا تک جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اس طرح حق و صداقت کی وہ لا زوال شمع روشن کی ، جو کفر و باطل کی گھٹا ٹوپ ظلمتوں میں انسا نیت کے لیے راہ ِ نجات اور چراغ راہِ منزل  ہے۔

امام علی مقام ، سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد  اعلائے کلمتہ الحق ، اللہ تعالیٰ کی سر زمینپر اللہ جل شانہ کی حکومت  کا قیام ، دین مبین کی ترویج و اشاعت اور حق وصداقت کی نشرو اشاعت تھا۔ نواسئہ رسول ﷺ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےاپنے بے مثال قربانی سے " لا الہ الا اللہ " کا مفہوم اجا گر کیا۔ سلطان الہند  ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے منسوب یہ بے مثل اشعاری اسی ابدی حقیقت کی ترجمانی کر تے ہیں۔

شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین

دین است حسین ، دین پناہ است حسین

سر دار ، نداد ، دست دردستِ یزید

حقا کہ بنائے لا الہ  است حسین

 اگر تاریخ کے اس نازک وڑ پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کھڑے نہ ہوتے تو حقیقت یہ ہے کہ شاید آج تک حقیقت مشتبہ  ہی رہتی ، کچھ معلوم نہ ہوتا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا؟ ہمیں کون سا نظام  اختیار کرنا ہے اور کس نظام سے بچنا ہے؟ اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے نہ ہوتے ، توملوکیت کو سندِ جواز مل جاتی ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام  فرعون کےخلاف کھڑے نہ ہوتے تو فر عونیت قائم رہتی ۔

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسوہ ہمارے سامنے نہ ہو تو جبر و استبداد کےخلاف کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا اور ظلم کے خلاف کوئی تحریک نہیں چل سکتی ۔امام الشہدا  سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فلسہ شہادت نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل انسانیت کے لیے ایک دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت  نے ضمیروں کو بیدار کیا ۔ دلوں کو بدلا  ذہنی انقلاب کی راہیں ہم وار کیں اور انسانی اقدار کی عظمت و اہمیت کو فروغ دیا ۔ لہٰذا  سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اقدام ہمیں درس دیتا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں ، باطل چاہیے کتنا ہی طاقت ور ہو ، یزیدی  قوتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ  ہوں حق و صداقت  ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت ، اسوہ نبوی کے احیا اور دین کی سربلندی  کے لیے کسی بھی  قربانی  سے دریغ نہ کیا جائے ۔ چاہیے اس راہِ حق میں جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش  کرنا پڑے اپنی گردن ہی کیوں نہ کٹوانی پڑے ۔ صدیاں گزرنے کے باوجود سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیغام اور فلسفہ حق صداقت دین اسلام کی سر بلندی کا روشن نشان ہے ۔

قتل حسین اصل  مرگ ِ یزید ہے۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

No comments:

Post a Comment