حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مکمل زندگی پیدائش ، حالات واقعات، جنگیں اور شہادت - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Sunday, July 31, 2022

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مکمل زندگی پیدائش ، حالات واقعات، جنگیں اور شہادت

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

پیغمبر آخر و اعظم ، سر و کونین، امام الانبیاء سید المرسلین ، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے

 " میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ستاروں کی مانند ہیں تم (ان میں سے ) جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ "

تمام ہی صحابہ عشق و محبت کے پیکر اور ایثار  وار فتگی کا مدس نمونہ ہیں تمام صحابہ جہاں بھر سے افضل و اعلیٰ ہیں لیکن چند چیزوں میں مراد ِ رسول ﷺ ، سیدنا عمر بن خطاب تمام صحابہ میں ممتاز ہیں ان مین آپ کاعدل  و انصاف آپ کی رائے کاوحی اور قرآن کے موافق ہونا ، آپ کی شجاعت و دلیری ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے معاملے میں کسی کا پاس نہ کرنا ، قابل فخر اور شان دار دینی و مذہ ہبی خدمات ، رعایا کی خبر گیری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ارشاد حضور پر نور ﷺ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک ، تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے۔ جنہوں نے اللہ سے صرف ہم کلامی کا شرف پایا لیکن وہ نبی نہ ہوئے میر امت میں اگر کوئی ایسا ( نبی) ہوتا تو وہ عمر رضی تعالیٰ عنہ ہوتے ( صحیح بخاری)

حضور پر نور ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا

" اگر میرے بعد کوئی نبوت کا مقام پا سکتا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو تے " ( مستدرک حاکم)

ایک اور موقع پر سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا

" اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے وہ حق بات ہی کہتے ہیں " ( مشکوٰ ۃ )

جلیل القدر صحابہ کے اقوال

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی وقاص اُن دس صحابہ میں سے ہیں جن کی جنتی ہونے کی بشارت حضور پر نور ﷺ نے دی ہے۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔

"خدا کی قسم ! عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لانے میں گو ہم سے پہلے نہیں اور نہ ہی ہجرت کرنے میں ہم پر مقد م ہوئے مگر میں خوب جانتا ہوں کہ کس چیز کے سبب وہ وہم سے افضل ہیں وہ ہم سے آ گے اس لیے بڑھ گئے کہ وہ سب سے زیادہ دنیا سے بے تعلق تھے ( ازالۃ الخفاء)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں۔ حضور پر نور ﷺ کی احادیث لکھنے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت جلیل القدر انسان تھے ایک مرتبہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دعائے رحمت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے حضور پر نور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ خوف خدا رکھنے والا کسی کو نہیں پایا ( کنز العمال)

اسلام کے گلشن کو جن شہدائے اسلام نے اپنا قیمتی خون دے کر سدا بہار کیا ان میں  امیر المومنین سید نا فاروق اعطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم ِ گرامی سرِ فہرست ہے ۔ آپ کے قبول اسلام کے لیے خود رسول اللہ ﷺ نے بار گاہ الہی میں دعا فرمائی " اے اللہ اسلام کو عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا عمر وبن ہشام کے ذریعے عزت دے۔

ابتدائی زندگی اور کنیت مبارک

خلیفہ دوئم مراد رسول ﷺ شہید محراب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام انامی اسم گرامی عمر فاروق اعظم لقب والد کا نام خطاب تھا۔ آپ علم الا نساب میں ماہر تھے ۔ نیز آپ کا شمار قریش کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے فن خطابت کے ماہر تھے ذریعہ معاش تجارت ھتا اپنی آدمنی کا بیش تر حصہ فقرا ، غلاموں ، مسکینوں ، مسافروں ، ضرورت مندون پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اپنی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید کی استقامت سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے یہ دراصل آپ ﷺ کی اس دعا کا اثر تھا ۔ اے اللہ ، اسلام کو عمر و بن ہشام ( ابو جہل) یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت عطا فرما" ۔ اسی وجہ سے آپ مراد رسول ﷺ کہلاتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا 40 واں نمبر ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے دین اسلام کو نئی قوت عطا ہوئی۔ آپ کا شمار مہاجرین میں ہوتا ہے اور آپ نے 20 افراد کی معیت میں 13 نبوی میں مدینہ منورہ ہجرت کی اور قبا میں حضرت رفاعہ بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں قیا م فرمایا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبل اسلام کے بعد تمام گزوات میں نفس نفیس شریک ہو ئے اور جرات و بہاردی کے جو ہر دکھائے۔

جنگوں میں شرکت

غزوہ بدر میں قریش کے  سر غنہ کو قتل کیا ، غزوہ اُحد  میں آخر دم تک ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا غزوہ خندق مین خندق کے پار کفار کے حملوں کو پسپا کیا غزوہ خیبر میں قلعہ و طیع و سالم کو فتح کر نے کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد آپ کو بھیجا گیا ۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے خواتین سے بیعت لینے پر مامور فرمایا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے گھر کا آ دھا مال لا کر کدمت اقدس میں پیش کر دیا ۔ غرض آپ تمام غزوات مین پیش پیش رہنے والوں میں شامل تھی ۔

اپنے دور ِ خلافت کے اہم کارنامے اور سیاسی امور

خلیفہ ِ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد خلیفہ المسلمین مقرر ہوئے آپ نے امور خلافت چلانے کے لیے مہاجرین و انصار کی مجلس شوریٰ قائم کی ۔ اس حیثیت سے آپ اسلام کے شورائی نظام کے بانی ہیں ۔ مک کو آٹھ ڈویژن میں تقسیم کر کے ان پر حاکم اعلیٰ اور گورنر مقرر فرمائے، کاتب ، کلکٹر ، انسپکٹر ، جنرل پولیس ، افسر  خزانہ ، ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل اور جج وغیرہ کے عہدے مقرر کیے ۔ با عدہ احتساب کا نظام قائم فرمایا ۔ زراعت کے عہدے مقرر کیے ۔ با قاعدہ احتساب کا نظام قائم فرمایا ،۔ زراعت کی ترقی کے لیے نہری نظام جاری فرمایا ۔بنجر زمینوں کے آباد کاروں کو مالکانہ حقوق دیے ، سرونٹ کواٹرز ، فوجی قلعے ، اور چھاؤنیاں سرائے ، مہمان خانے اور چوکیاں قائم کرائیں ، کوفہ ، فسطاط ، حیرہ اور موصل سمیت کئی عظیم الشان شہروں کی بنیاد رکھی اور انہیں آباد کیا ۔ فوج اور پو لیس کے نظام میں اصلاحات کیں اور انہیں منظم کیا ۔بہترین نظام عدل و انصاف قائم کیا ۔ جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے سن ہجری کی بنیاد رکھی ۔مساجد کے آئمہ ، موذنین ، فوجیوں اور ان کے اہل خانہ و اسا تذہ وغیرہ کی تنخوا ہیں ، مقرر فرمائیں۔ اس کے علاوہ مرد شماری زمین کی پیمائش کا نظام ، جیل خانے ، صوبوں کا قیام ، لا وارث بچوں کے وظیفے کا اجراء ، مکاتب قرآنی کا قیام ، نماز ترایح کا با قاعدہ آ غاز وغیرہ آپ کے دور ِ خلافت کی یاد گار ہیں ، حضرت عمر  فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی اور آپ کی مدت خلافت تقریبا ً ساڑھے تیرہ سال بنتی ہے۔

عراق اور شام پر لشکر کشی :۔

عراق اور شام پر لشکر کشی کر کے اسلام کا علم  لہرایا ۔ ایک لشکر بھیجا جس نے مجوسیوں کو عبرت ناک شکست دی اور رستم کی سازشوں کا قلع قمع کیا ۔

جنگ قادسیہ :۔

جنگ قادسیہ کے تین کامیاب معرکوں نے دشمن کی کمر توڑ ر رکھ دی ان کی قیادت حضرت سعد بن ابی وقاص ، نعمان بن مقرن اور قطقا ع بن عمرو الغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کی ۔ جنگ نہاوند آپ کے خلافت میں لڑا جانے والا آخری معرکہ تھا ۔ جس نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ دمشق، اردن ، حماۃ ، شیراز اور اس کے آس پاس کے علاقے ، مصر، فسطاط ، اسکندریہ قیساریہ ، آ ذر بائی جان، قبرستان ، کرمان، مکران ، اور خراسان وغیرہ آپ کے دورخلافت میں فتح ہوئے۔

فتح ایران اور شہادت

ایران کا اکثر حصہ چوں کہ آپ کے دور خلافت میں فح ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے جذبہ انتقام کو سرد کرنے کے لیے آپ کے قتل کی سازش تیار کی ۔ مغیرہ بن شبعہ کے پارسی غلام ابو لو لو فیروز مجوسی نے نماز فجر کی پہلی ہی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے فورا بعد زہر سے بجھے ہوئے خنجر سے مراد رسول ﷺ پر وار کیا ، وصیت کے بہ موجب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز مکمل کرائی ۔ تین روز زخمی حالت میں رہ کر یکم محرم الحرام 23 ھ میں 63 برس کی عمر میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ روضہ رسول ﷺ میں حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔

Complete Bayan by. Abdul Habib Attari (Click Here)

Complete Bayan by Dr. Israr Ahmed (Click Here)

Complete Bayan by. Dar-ul-Islam Studieo (Click Her)

 


No comments:

Post a Comment