TB infection and symptoms || Tuberculosis: Causes, Symptoms, Diagnosis & Treatment || Tuberculosis (TB) || ٹی بی کیا ہے - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Monday, May 27, 2024

TB infection and symptoms || Tuberculosis: Causes, Symptoms, Diagnosis & Treatment || Tuberculosis (TB) || ٹی بی کیا ہے

TB infection and symptoms || Tuberculosis: Causes, Symptoms, Diagnosis & Treatment || Tuberculosis (TB) ||  ٹی بی کیا ہے

Tuberculosis


 بیالیس برس پہلے کا قصہ ہے کہ 1982 ء میں انسانوں کی بہتری کے لیے کام کرنےو الی ایک بین الا قوامی تنظیم سے وابستہ کچھ افراد ایک اجلاس میں جمع ہوئے ۔یہ اجلاس ایک خاص دریافت کے ایک سو سال مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا ۔ دراصل 24 مارچ 1982  کے دن ایک نیا جرثوما دریافت کیا گیا تھا وہ جر ثوما جس سے تپ دق (ٹیوبر کلوسس) کا مرض  جنم لیتا ہے۔ اور ہم جس تننظیم  کی بات کر رہے ہیں  وہ تپ دق اور سینے کے دیگر امراض کے خلاف کام کرتی ہے اور اس تنظیم کا نام

International Union against Tuberculosis Lung Disease

ٹی بی اور ٹی بی کا عالمی دن :۔

تنظیم کے مذکورہ اجلاس می 24 مارچ کو "  ٹیوبر کلوسس تپ دق کا علمی دن "  قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں 24 مارچ  1983 کو پہلی مرتبہ تب دق کا عالمی دن منا یا گیا۔ اس دن کا مرکزی موضوع یا تھیم بڑی اہمیت کا حاصل تھا۔  یعنی " تب دق کو شکست دیجئے ابھی اور ہمیشہ کےل یے پھر 24 مارچ 1985 ء سے یہ دن عالمی ادارہ  صحت کے تحت منانے کا آغاز  ہوا اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس  سال تپ دق کے عالمی دن کا مرکزی موضوع 1983 ء کے موضوع کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ ہے ( ہاں ) ۔ ہم  تپ دق کو ختم کر سکتے ہیں'

ان دونو موضوعات  سے ظاہر ہوتا ہے کہ تپ دق کے خلاف جدوجہد ہنوزجاری ہے  اور اس جہد مسلسل کا خصوصی  ہدف تیسری دنیا کے غریب اور نادرا ممالک ہی۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے تمام تر کوششوں کے باوجود تپ دق کا مرض ختم نہیں ہو رہا ہے۔  اور ہر سال لاکھوں افراد  اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں  جا رہے ہیں۔

ٹی بی اور اس کے جرثومے کی ایجاد:۔

ٹیوبر کلوسس کا جر ثوما  دریافت کرنے  والے ڈاکٹر رابرٹ کوچ کا تعلق جرمنی سے تھا وہ ایک معروف  طیبت تھے اور  اُن کا  شمار وبائی امراض کے عظیم  ماہرین میں ہوتا ہے۔ 24 مارچ 1982 ء کے  دن انہوں نے بہت بڑا انکشاف کیا اور طبی میدان میں  ہونے والی جدہوجہد کا رخ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے  ٹیوبر کلوسس  جیسے مہلک مرض کی  حقیقی وجہ بے نقاب کی اور تب دنیا کو پہلی مرتبہ پتا چلا کہ مائیکو بیکٹریم ٹیوبر کلوسس  نامی جرثومے کے ذریعے یہ مرض جنم لیتا ہے۔اِ سی عظیم خدمت کے اعتراف میں ڈاکٹر رابرٹ کو چ کو طب کا نوبیل انعام دیا گیا۔  کیوں کہ جس وقت وہ اپنی اہم تحقیق میں مصرو ف تھے  اس زمانے میں ٹیوبر کلوسس کی حشر سا مانیاں اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھی ۔ اور مغربی ممالک میں ہلاک ہونے  والا ہر ساتواں شخص اس جان لیوا  مرض کا شکار تھا۔  یہ خطر ناک  صورت حال  بیسویں صدی  تک بر قرار رہی۔  یعنی دنیا کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ تپ دق کا مرض کس طرح جنم لیتا ہے۔  مگراس کا حتمی  علاج دریافت نہیں ہو سکا۔  ٹی بی  کی بہت  سی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ  مریض کھانسی  کے ساتھ خون تھوکنا ہے۔ تو ایک زمانے میں خون تھوکنے کو موت کا استعارہ سمجھ لیا گیا  اور ادب میں بھی اسی پس منظر کے ساتھ یہ علامت برتی  گئی ۔

ٹی بی اور جون ایلیا ء صاحب:۔

 اردو کے صاحب طرز  شاعر جون ایلیا  خون تھوکنے کی علامت کو  اپنے ڈھنگ سے  استعمال کرتے ہیں۔

مثلا  ً وہ کہتے ہیں

 رنگ ہی کیا تِرے سنورنے کا

ہم لہو تھوک کر سنور تے ہیں

 ایک اور شع میں جون ایلیا  نے ٹیوبر کلوسس تپ دق کا ھقیقی نقشہ بیان کر دیا کہ جب انسان پر اس قدر اضمحلال  طاری ہو جاتا ہے تو ہو کسی کا م کے قابل نہیں رہتا ۔

 ہم تو  بس خون  تھوکتے ہیں میاں

 نہیں خو گر کسی مشقت کے

یہ اشعار  اس دور میں لے جاتے ہیں جب ٹیوبر کلوسس تپ دق لا علاج  مرض تھا۔ اور اس مرض میں مبتلا  ہونے کا  مطلب یہی ہوتا   ہے کہ  مریض نے  موت کی دہلیز  پر قدم رکھ دیا ہے۔ اور اب اس کی محفوظ واپسی کا کوئی امکان نہیں  ۔

معروف شخصیات اور ان کی موت :۔

 یاد رہے دنیا کی کئی معروف شخصیات  کی موت ٹیوبر کلوسس، تپ دق  کی وہ سے ہوئی ۔ جن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، برطنیہ کے ناول نگار ڈی ایچ لارنس ، پولینڈ  کے موسیقار  فریڈرک شوپن اور اسکا ٹ لینڈ  کے شاعر و ادیب  رابرٹ لوئیس اسٹیونسن وغیرہ شامل ہیں۔

ٹیوبر کلوسس کی ہزاروں سال پرانی تاریخ:۔

 ٹیوبر کلوسس کا مرض نیا نہیں اس کی تاریخ  ہزاروں  برس پر محیط ہے۔  قدیم انسانی ڈھانچوں کے مطالعے سے پتا  چلتا ہے کہ چھ ہزار سال  قبل بھی یہ مرض  موجود تھا۔  مصر سے ملنے والی پانچ ہزار سال قدیم حنوط  شدہ لاشوں میں ٹیوبر کلوسس کے اثرات پائے گئے تھے اور اس مرض کو مختلف ادوارمیں مختلف نام دیئے گئے۔  قدیم یونان  میں اسے فائی سس  کہا جاتا تھا۔  اور یہ نام اٹھارہویں صدی تک  مستعمل رہا بعد ازاں ، اسے سفید طاعون  کا نام دیا گیا ۔  کہ اس میں  مبتلا مریضوں کی رنگت  سفیدی مائل زرد ہو جاتی ہے۔  جرمن  طبیب ڈاکٹر جوہان شونلین وہ شخص تھا جس  نے پہلی  مرتبہ 1834 ء میں اس مرض کو ٹیوبرکلوسس  کے نام سے پکارا اور آج  تک دنیا بھیر میں اس کا یہی نام استعمال  ہوتا ہے۔ البتہ اردو میں اسے تپ دق کہتے ہیں۔

تپ دق کا  معنی :۔

تپ دق  دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ تپ سے  مراد ہے گرمی ، حرارت یا بخار  جب کہ دق   کا مطلب ہے  کہ تنگ ، عاجز ، پریشان ، گھٹن زدہ ، ناراض  اور آزردہ ، گویا ، تپ دق  ایسا مرض ہے ۔ جس میں اکثر بخار ہوتا ہے اور مریض نڈھال ، پریشان  گھٹن  کی سی کیفیت اور ذہنی  اذیب میں مبتلا رہتا ہے۔  بحثیت  مجموعی ،تپ  دق  یا ٹی بی کے مریض کو بخار کھانسی،  ( بعض  اوقات بلغم اور خون   کے ساتھ ) سینے میں درد ، کم زوری ،  ، تھکن  ، وشن  میں کمی ، بھوک نہ لگنے اور ارات  کے وقت پسینے کے اخراج کی شکایات  ہو سکتی ہے۔

ٹیوبر کلوسس کی اقسام :۔

شدت اور  فعالیت کے اعتبار سے تپ  دق  کی دو اقسام ہیں۔

 پوشیدہ یا غیر فعال ٹیوبر کلوسس

فعال ٹیو بر کلوسس

پوشیدہ  یا غیر فعال ٹیوبر کلوسس  میں جراثیم  خوابیدہ  حالت میں جسم کے اندر موجود  ہوتے ہیں۔  مریج کو کسی قسم کی شکایات نہیں ہوتیں اور مرض کسی دوسرے فرد کو منتقل نہیں  ہوتا ۔  جبکہ فعال ٹیوبر کلوسس  میں جراثیم  بے دار اور  متحرک ہوتے ہیں۔ مریض کو مختلف  شکایات  کا سامنا کرناپڑتا ہے۔  اور مرض دوسرے افراد میں منتقل بھی ہو سکتا ہے۔  ایک محتاط  اندازے  کے مطابق ، دنیا کی 25  فیصد آبادی غیر فعال  ٹیوبر کلوسس  میں مبتلا ہے۔  اور ایسے مریضوں میں سے  5 سے 10 فیصد کو زندگی کے کسی مرحلے میں  ٹیوبر کلوسس  کا مرض لا حق  ہو سکتا ہے۔  ٹیو بر کلوسس  کا تعلق عمومی طور پر   نظام تنفس سے ہے ۔  اور یہ مرض انسانی پھیپھڑوں  کو متاثر کر تا ہے اس کے مریضوں  میں سے 75 فیصد  پھیپھڑوں  کی ٹیوبر کلوسس میں مبتلا ہوتے ہیں۔  تاہم اس کی کئی اقسام ایسی ہیں۔ جو نظام  تنفس اور پھیپھڑوں  سے ہٹ کر ہیں۔ اور انسانی  جسم کے دیگر حصوں کو متاثر کرتی ہیں۔

مثلا 

1۔ جلد کی ٹیوبر کلوسس  انسانی جلد کے کسی بھی حصے  پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

2۔  ہڈیو کی ٹیوبر کلوسس  ہڈیوں کے ساتھ انسانی جوڑوں میں بھی ہو سکتی ہے۔

3۔گردوں کی ٹیوبر کلوسس  یہ گردوں کے علاوہ پیشا ب  کی نالی کو  بھی متاثر کر سکتی ہے۔

4۔دماغ کی جھلیوں  کی ٹیوبر کلوسس   ، ٹیوبر کلوسس کی سب سے خطر ناک  شکل ہے ۔ اس میں ٹیوبر کلوسس  کے جراثیم  خون کے بہاؤ  میں شامل ہو کر  مختلف اعضا ء کو نقصان پہنچا  سکتے ہیں۔

سائنس  کی تمام تر ترقی کے باوجود ،  ٹیوبر کلوسس  کا مرض  دنیا سے ختم نہیں ہو سکا۔

عالمی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق:۔

 عالمی  دارہ صحت  نے نومبر  2023 میں جو رپورٹ شائع کی اس کے مطابق 2022 ئ میں دنیا کے 10.6 ملین افراد اس خطر ناک مرض میں متبلا ہو  ئے ان میں 5.8 ملین مرد 3.5 ملیں خواتین اور 1.3 ملین بچے تھے ۔ ٹیوبر کلوسس  اسوقت دنیا کے ہر ملک  اور ہر عمر  کے افراد  میں موجود ہے  اور اسے کورونا ( کووڈ ) کے بعد  سب سے مہلک وبائی  مرض  قرار دیا جاتا ہے۔  کورونا ( کووڈ )  کی ہلاکت  خیزیاں تھمنے کے بعد بلا شبہ   کرہ اراض کا مہلک  ترین وبائی  مرض ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ  کے مطابق  یہ بھی منکشف ہوا کہ  ٹیوبر کلوسس  کے مجموعی  مریضوں میں سے دو تہائی  کا تعلق دنیا کے آٹھ ممالک  سے  ہے۔ یہ آٹھ ممالک اور وہاں  پائے جانے والے مریضوں  کا تناسب  کچھ اس طرح ہے۔

1۔ بھارت  27 فیصد

2۔ انڈونیشیا  10 فیصد

3۔ چین  7.1 فیصد

4۔ فلپائن 7 فیصد

5۔ پاکستان 5.7 فیصد

6۔ نائیجریا 4.5 فیصد

7۔ بنگلا دیش 3.6 فیسد

8۔ کانگو 3 فیصد

ایک زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ مغربی ممالک سے ٹیوبر کلوسس  کا مرض ختم ہو چکا ہے۔  مگر وہاں بھی اس بلا کا نزول ثانی ہو  گیا ہےا ور اس کی وجہ ایڈز کے مرض کے نتیجے میں انسانی  قوت مدافعت میں حد درجہ  کمی ہو نا ہے۔ غریب ممالک سے  مغربی ممالک میں منتقل ہونے والے با شندے بھی اس مرض  کے دوبارہ جنم   کے باعث  بنے ۔ 

ٹیوبر کلوسس سے ہلاکتوں کی تعداد:۔

جہاں تک ٹیوبر  کلوسس سے ہلاک ہونے والے مریضوں کا تعلق  ہے تو عالمی ادارہ صحت  کے  مطابق 2022 ءمیں 15 لاکھ افراد ، 2021 ء میں 14 لاکھ افراد ، 2022 ء میں13 لا کھ افارد اس کی وجہ سے  موت کا نشانہ  بنے ہیں۔

ٹیوبر کلوسس کا علاج :۔ 

 ٹیو بر کلوسس   کا باقاعدہ  علاج شروع کرنے سے پیش تر ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ کہ اس کی تشخیص  کس طرح کی جاتی ہے۔  ہمیں یہ کبھی فرا موش نہیں کر نا چاہیے کہ ایک امہر ڈاکٹر ، مریض کا جو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ انتہائی اہمیت  کا حامل ہوتا ہے۔ پھر ڈاکٹر ہی کی ہدایات کی  روشنی میں  مریض کے مختلف ٹیسٹس کیے جاتے ہیں۔  ان ٹیسٹس کی تفصیل  کچھ اس طرح ہیں۔

1۔  مریض کی جلد اور خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔  ان دونوں ٹیسٹ  سے یہ  تو تا چل جاتا ہے کہ ٹیوبر کلوسس   کے جراثیم  موجود ہیں مگر مرض کے فعال یا غیر فعال ہونے کا  علم نہیں ہوتا۔

2۔ مریض کے  ایکسرے ، الٹرا  ساؤنڈ ، سی ٹی اسکین اور ایم آ ر آئی وغیرہ سے تشخیص  میں بہت مدد ملتی ہے۔

3۔ مریض  کے بلغم کا لیبارٹری  ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور ا س کے لیے عمومی طور پر بلغم کے تین نمونے حاصل کیے جاتے ہیں۔

یہ ٹیوبر کلوسس  کی تشخیص  کا روایتی طریقہ ہے۔  اور طویل مدت سے  اس کا استعمال  ہورہا ہے۔  یہ  طریقے آج بھی کار آمد  ہیں مگر ان سے 100  فیصد تشخیص حاصل نہیں ہوتی۔

4۔  مریض کی بائیو پسی  کیجاتی ہے۔   اور متاثرہ حصے کا چھوٹا سا نمونہ حاصل  کر کے خرد بین سے معائنہ کیا جاتا ہے۔   مرض کی حتمی تشخیص  کے بعد علاج کا مرحلہ آتا ہے۔

ٹیوبر کلوسس کا علاج:۔

  ٹیوبر کلوسس  کے علاج کے لیے چار  یا پانچ اینٹی بائیو ٹک  ادویہ  استعمال کی جاتی ہیں اور علاج کا دورانیہ چھے سے  بارہ ماہ پر محیط  ہوتا ہے۔ علاج میں باقاعدہ گی بہت ضروری ہے۔بعض لوگ وقتی طورپر  فائدہ ہونے پر علاج ترک  کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ بہت  خطر ناک ہوتا ہے۔   کہ ایسے مریضوں  کے جراثیم کچھ مدت بعد دوبارہ  بے دار اور متحرک  ہو جاتے ہیں۔  اور پھر  ادویہ ان پر آسانی سے  اثر انداز نہیں ہوتیں۔

ٹیوبر کلوسس سے  بچاؤ:۔

ٹیوبر کلوسس  کے حوالے سے  ایک اہم ترین سوال  یہ ہے کہ  اس مرض  سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟

تو اس سے بچاؤ  کے دو بنیادی طریقے ہیں

1۔  ان لوگوں  کی قربت سے  گریز کیا جائے جن  کی ٹیوبر کلوسس   فعال اور متحرک  ہے۔  ٹیوبر کلوسس   کے جراثیم مریض کے بلغم میں موجود ہوتے ہیں مریض کے کھانسے ، سانس خارج کرنے اور گفتگو  سے یہ جراثیم  باریک بوندوں  کے ساتھ باہر آ تے ہیں ۔  اور دوسرے افراد  تک منتقل ہو جاتے ہیں  اس معاملے میں مریض   اور اس کے قریب موجود فرد ونوں کو احتیاط سے  کام لینا چاہیے۔

2۔  پوشیدہ  اور غیر فعال  ٹیوبر کلوسس کی تشخیص پر اس کا باقاعدہ علاج کیا جائے  ہے اور ویکسین بی  سی   جی کہلاتی ہے۔

 دو فرانسیسی  ماہرین طب ایلبرٹ کالمیٹ اور گیورین نے 13 سالہ جدوجہد کے  بعد 1921 ء میں یہ ویکسین تیارکی تھی۔بچوں کی پیدائش  کے وقت  یہ ویکسین لگائی جاتی ہے ۔  امریکا اور  دیگر مغربی ممالک میں اس کا زیادہ  استعمال  نہیں ہوتا۔ البتہ تیسری دنیا  کے ممالک میں اس کی خاصی اہمیت ہے۔ جہاں کثرت سے  ٹیوبر کلوسس  کا مرض پایا جاتا ہے۔ 

ٹیوبر کلوسس کے خطرے میں اضافہ:۔

چند عوامل  ایسے ہیں جو ٹیوبر کلوسس کے خطرے میں اضافہ کر تے ہیں۔

1۔ ذیابطیس کا مرض

2۔ ایڈز جیسے  امراض کی وجہ سے  انسان کے مدافعتی نظام میں کمی زوری

3۔ مناسب غذائیت کا فقدان

4۔ تمبا کو نوشی  اور نشہ آور اداویات کا استعمال ۔

Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning, Jobs, Admission, Online,

No comments:

Post a Comment