background of teaching language in the subcontinent (Barre Sagheer) || بر صغیر میں تدریس زبان کا پس منظر - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Tuesday, February 22, 2022

background of teaching language in the subcontinent (Barre Sagheer) || بر صغیر میں تدریس زبان کا پس منظر

 بر صغیر میں تدریس زبان کا پس منطر بیان کریں ۔

جواب ۔ بر صغیر میں تدریس کا عمل

تدریس طالب علم تک معلومات پہنچانے اور اس کے رویوں میں مطلوبہ تبدیلی لانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس عمل میں درج ذیل تین عناصر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

1۔ کیا پڑھنا ہے یا کیا سکھانا ہے۔ معلومات / مہار ت

2۔ کسے پڑھانا یا سکھانا ہے؟ ( طالب علم )

3۔ کیسے پڑھانا یا سکھانا ہے ۔ ( طریقہ تدریس )

بر صغیر میں تدریس زبان کا پس منظر

بر صغیر میں مسلمانون کے عہد حکومت سے عربی اور فارسی کی تدریس کا آ غاز ہوا عربی ایک تو ناظرہ پڑھائی گئی دوسری بطور ایک  زبان کے ناظرہ خوانی کا مقصد طلبہ کو قرآن صرف دیکھ کر پڑھنے کے قابل بنایا تھا۔ اوراس میں سمجھنا شامل نہیں تھا۔

قرآن کی رسم الخط کی خصوصوصیات کو پیش نظر رکھ کر ایسے قاعدے دیئے گئے جن سے بچے پڑھنا سیکھ جاتے ہیں۔ ان قاعدوں مین پہلے حروف تہجی کی شکلوں سے بچے کو متعارف کرایا جاتا ہے پھر حرکارت اور حروف علت کے ذریعے ھرورف سےف لفظ بنانے کی مشق کرائی جاتی ہےلفظوں کے بعد مرکبات اور پھر آیات کی باری آتی ہے۔ برصغیر میں  بغدادی قاعدہ یسر نا لقرآن اور دوسرے قاعدوں میں اسی طریقے کی پیروی کی گئی ہےاور آج بھی بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے سے پہلے یہ قاعدے پڑھائے جاتے ہٰں جدید قاعدوں میں تھوڑی بہت تبدیلی ضرور آئی ہے۔ لیکن اس کی بنیاد ہجوں کے ساتھ لفظ پڑھانے پر ہی  ۔

بین و گو کا طریقہ :۔

یہ طریقہ دیکھو اور بولو کا طریقہ بھی کہلاتا ہے اس میں بچہ تصاویر کو دیکھ کر انکا نام لیتا ہے اور اسی طرح حروف اور الفاظ کو دیکھ کر بولتا ہے یہ طریقہ مادری زبان کے لیے ہی موزوں رہا ہے موجودہ ددور میں اس طریقے پر مادری زبان کی تدریس بھی نہیں کی جاتی ہے۔

عربی زبان کی تدریس کا بڑا مقصد دینی علوم کے طلبہ کو عربی میں دینی کتب پڑھنےا ور سمجھنے کے قابل بنانا رہا ہے۔ چونکہ عربی بر صغیر میں بول چال کی زبان نہیں تھی اس لیے بولنا سکھانے پر توجہ نہیں دی جاتی رہی ۔ طلبہ کو پہلے صرف و نحو پڑھائی جاتی انہیں صرفی و نحوی و قواعد کے ذریعہ عربی کی تدریس ہوتی رہی اور اس کے بعد عربی کی دینی کتب بھی گرامر اور ترجمے ہی کے  ذریعے پڑھائی جا تی تھی۔ یہ طریقہ دینی مدراس میں اب تک رائج چلا آ رہا ہے عرب ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے ساتھ اب ان مدارس میں عربی کو جدید طریقوں سے پڑھانے میں دلچسپی لی جا رہی ہے۔

بر صغیر میں فارسی کی تدریس بھی قواعد و ترجمے ہی کے ذریعے کی گئی لیکن فارسی کے نصاب عربی کے مقابلہ میں زیادہ دلچسپ نظر

 آ تے ہیں۔ ایک تو ان میں گرامر کی پیچیدگی نہین اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فارسی کے قواعد بڑے آسان اور سادہ ہیں۔ دوسرے یہ نصاب بیشتر منظوم ہیں ان میں پہلے مرحلے میں ترجمے کے ذریعے ذخیرہ الفاظ سکھایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں باقی چیزیں ۔ خالق باری اور اسی قسم کی دوسری کتابیں تدریس فار سی کے درسی تقاضوں کے پیش نظر لکھی گئی ہیں۔

فارسی بھی چونکہ بہت تھوڑے عرصہ تک بر صغیر میں گفتگو کی زبان رہی ہے اس لیے فارسی کی تدریسمیں بھی بول چال کا پہلو غالب ہی نظر آتا ہے۔ فارسی 1835 تک دفتری زبان رہی اس لیے طلبہ کو دفتری اسلوب کی فارسی لکھنے کی مشق کرائی جاتی تھی ۔ اس مقصد کے لیے فارسی ادب خوصا ً  انشائی ادب کی نمائندہ کتابیں شامل نصاب رہی ہیں۔ کچھ عرسہ سے فارسی بھی جدید انداز میں پڑھائی جا رہی ہے یہ ایران کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا نتیجہ ہے۔ اب تک زبانیں پڑھانے کے لیے جو مختلف طریقےا ستعمال کئے جاتے رہے ہیں ان میں بعض کا ذکر آپ آئندہ طور پر پڑھیں گے۔

قواعد و ترجمے کا طریقہ

مشرق و مغرب میں زبانوں کی تدریس کے لیے قواعد و ترجمے کی طریقہ مدتوں رائج رہا ہے۔ پاکستان میں اب بھی غیر لکی زبانیں بیشتر اسی طریقے سے پڑھائی  جا رہی ہیں۔ اگر زبانوں کی تدریس میں کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو وہ زیادہ بڑی نہیں ہے اس طریقے میں جیسا کہ آپ کے علم مین ہوگا کہ استاد وزیادہ فعال رہتا ہےاور طالب علم کی حیثیت محض ایک سامع کی ہو تی ہے۔ استاد کتاب سے عبارت پڑھتا ہے ترجمہ کیا ہے قواعد کی نشاندہی کرتا ہے طلبہ سنتے رہتے ہیں یا نوٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں استاد جملے عبارت تو غیر جماعت کی پڑھتا ہے لیکن ترجمہ و تووضیح و غیرہ اپنی زبان ( اردو) میں کرتا ہے اس طرح استاد اور طالب علم دونوں کو غیر زبان کے استعمال کے مواقع بہت کم ملتے ہیں اس طریقے کے حامیوں کا خیال ہے کہ بڑی کلاسوں کے لیے یہ طیرہق مفید رہتا ہے۔ غیر تربیت یافتہ اور ناجربہ کا استاد بھی اس پر آسانی سے عمل کر سکتا ہے۔ طلبہ کو بھی پڑھنے، ترجمے کرنے اور قواعد کا کام کرنے کا کافی موقع ملتا ہے لیکن یہ بڑے کمزور دلائل ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے یہ طریقہ مناسب نہیں کیونکہ اس میں ایک تو طالب بہت کم فعال نظر آتے ہیں ۔ دوسرے غیر زبان کی بول چال کو وہ اہمیت نہین ملتی جو اصولا ً اسے ملنی چاہیے ۔ تدریس زبان کے نقاءص کو دور کرنے کے نئے طریق وضع کرنے کی بہت کوشش مغرب میں ہوئی ہے ان میں سے چند ایک پر گفتگوکی جاتی ہے۔

بلا واسطہ / براہ راست طریق تدریس

قواعد و ترجمہ کے ذریعے تدریس زبان کے طریقے کو غیر فطری سمجھا گیا ہے کیونکہ بچہ اپنی مادری زبان اس طریقے سے نہیں سیکھتا ۔ وہ زبان سن کر اور بول کر سیکھتا ہے۔ چنانچہ زبان کا وہی طریقہ فطری دیا گیا جو بولنے پر زیادہ توجہ دے ۔ بلا واسطہ طریقہ اسی اصول پر مبنی ہے اسی طریقےمیں ادبی اسلوب کے جملوں اور عبارات کی بجائے روزمرہ زندگی کی مختلف صورتوں کو عام بول چال کی سادہ زبان میں پیش کیا جاتا ہے  کلاس میں اسی زبان کو زیادہ سے زیادہ مشق کی جاتی ہے طالب علم اس مشق میں پوری طر شریک ہو تے ہیں۔ا ستاد ان کی مدد کرتا ہے ان کی رہنمائی کرتا ہے لیکن انہیں زیادہ بولنے کا موقع دیتا ہے۔ اس طریقے میں ایک تو بول چال کی سادہ زبان پر زور دیا جاتا ہے۔ اس لیے طالب علم اسے آسانی سے سیکھ لیتا ہے دوسرے اس میں بولنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس طرح درست تلفظ اور لب و لہجہ بھی طالب علم کو آ جاتا ہے۔ تیسرے اس طریقہ میں چونکہ طالب علم کی شرکت بھی بھر پورہوتی ہے۔ اس لیے وہ زبان سیکھنے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے لیکن اس طریقے کے کچھ مسائل بھی ہیں پہلی بات تو ہے کہ اس طریقے پر عمل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس کے لیے خصوصی تربیت ضروری ہے۔د وسرے ہر لفظ اس طریقے  سے سمجھایا نہیں جا سکتا البتہ اس مشکل کو ترجمے کے ذریعے آ سان بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس طریقے پر کار بند استاد ترجمے کی سہولت کو ایک اصول کی خلاف ورزی سمجھ کر اس پر عمل نہیں کرتے اور اس طرح وقت ضائع کرتے ہیں۔

سمعی و تکلمی طریق

سمع و تکلمی طریقے میں چونکہ سننے اور بولنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ان کو یہ نام دیا گیا ہے اس میں طلبہ کو استاد کچھ مکالمے خود پڑھ کر سناتا ہے یا ٹیپ کے ذریعے طلبہ کو سناتا ہے اگر ضروری ہو تو کسی تصویر یا چارٹ سے بھی مدد لیتا ہے ۔ طلبہ غور سے سنتے ہیں اور اس مکالمے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر اس کو بار بار دہراتے ہیں طلبہ ان مکالموں پر عبور حاصل کر لیتے ہیں ہر زبان الفاظ کی تراکیب اور جملوں کی ساخت کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ان تراکیب اور ساختوں پر جو اصل قواعد زبان پر مبنی ہوتی ہیں مکالموں  کے ذریعے ذہن نشین کرایا جاتا ہے اردو جملے کی کچھ صورت ملاحظہ فرمائیے۔

 

 

یہ کتاب ہے

اسلم بیمار ہے

کاغذ سفید ہے

وہ قلم ہے

یہ کتاب ہے

کاغذ پر قلم سے لکھو

اس نے کھانا کھایا

وہ لاہور جا رہا ہے

وہ لاہور جاتا ہے

وہ قلم ہے

وہ پچھلے کئی برسوں سے لند میں مقیم ہے

ہو کیوں نہیں آیا

کیا وہ بیمار ہے

کیا وہ بیمار ہے

کرسی پر مت بیٹھو

 

طلبہ اس طریقے میں کالموں کو غور سے سنتے ہیں انہیں سمجھتے ہیں اور دہراتے ہیں پھر خاموش مطالعے کا مرحلہ آ تا ہے۔ اس کے بعد انہیں لکھنے کا کام بھی دیا جاتا ہے۔اس طریقے میں زیادہ تر زبان ہی استعمال کی جاتی ہے اور بولنے پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن ترجمے سے مدد لینے پر قد غن بھی نہیں ہے۔ اس طریقے میں قواعد زبان کی تدریس ، قواعد کا نام ہے بہتر اور دلچسپ انداز میں ہوتی ہے۔ استاد اور شاگرد کی شرکت بھی بھر پور رہتی ہے۔ بار بار کی مشق سے جملہ بندی کی صورتیں طلبہ کو یاد تو ہو جائیں گے۔ لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ ان کے استعمال پر بھی قادر ہو سکیں گےیا نہیں ۔ یہ طریقہ ہرا ستاد برت بھی نہیں سکتا ۔ مشق و تکرار سے بھی اکتا ہٹ پیدا ہو تی ہے۔

ابلاغی طریق

ان سب طریقوں میں افادیتکا کوئی نہ کوئی پلو ضرور موجود ہے لیکن ان میں کوئی طریقہ بھی اتنا جمع نہیں کہ وہ تدریس زبان کے سارے تقاضے یا زبان آموزی کے سارے  مقاصد پورے کر سکے۔پھر یہ تقاضے اور مقاصد بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور اس  تبدیلی کے ساتھ نئے طریقے نقشہ ہائے نظر اور عملی اقدام سامنے آتے رہتے ہیں قواعد و ترجمہ کا طریقہ کلاسیکی کا طریقہ تھا جو طویل مدت تک چلتا رہا ۔ راست طریقہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں قواعد و ترجمے کے رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ۔ سمعی و تکلمی طریقہ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1940 ء کے بعد اختیار کیا گیا ۔ کیونک دنیا کے مختلف محاذوں پر تعینات امریکی فوجیوں کو ان علاقوں کی زبانیں سیکھنے کی ضرورت پیش آئی اور پہلے سے موجود طریقے اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکتے تھے۔

تفاعلی طریقہ :۔

انگریزی میں اسے فنکشنل میتھڈ کہتے ہیں اس میں زبان کے عملی اور ضروری پہلوؤں کی تدریس پر زور دیا جاتا ہے 1970 کی دہائی میں تدریس زبان کا مقصد طالب علم کو موقع و محل کی مناسبت سے زبان کے درست استعمال کے قابل بنانا قرار دیا گیا زبان کا ایک سادہ جملہ مختلف مواقع پر مختلف معانی پر دلا لت کر سکتا ہے۔ جس کی کچھ مثالیں دی جا رہی ہیں۔

اسلم کل ہیڈ ماسٹر کے پاس جائے گا

فعل مستقبل کے اس سادہ سے جملے کے کئی معانی نکل سکتے ہیں۔ مثلا

1۔ یہ اسلم کے بارے میں ایک اطلاع ہو سکتی ہے۔

2۔ یہ اسلم کے بارے میں ایک پیش گوئی ہو سکتی ہے

3۔ یہ ایک وعدہ بھی ہو سکتا ہے۔

4۔ یہ ایک دھمکی بھی  ہو سکتی ہے۔

5۔ یہ ایک عذر بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے تو نہیں گیا لیکن کل جائے گا۔

اس طریقہ تدریس میں زبان کے سیاق و سباق یعنی کسی پر " کیا کہنے چاہیے" کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ غیر ملکی اس یلے اسے نتائجی انداز بھی کہتے ہیں ۔ زبان کی تدریس  کے ان تمام طریقوں کو پڑھتے وقت آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آیا وہ گا کہ اآپ کا ان طریقوں سے کیا تعلق ہے آپ کو تو سکول کی سطح پر اردو زبان پڑھانی ہے جبکہ یہ سارے طریقے زبان کی ابتدائی تدریس سے متعلق ہیںآُ کا طالب علم آپ کے خیال میں زبان سیکھ کر ہی ہائی سکول میں آتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہائی سکول کی سطح پر بھی زبان سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے اگر استاد تدریس زبان کے طریقوں اور جدید تر رحجانات کا علم رکھتا ہو تو اس کا کام آ سان ہو جائے گا۔ تدریس زبان کے مختلف طریقوں کی خوبیوں اور خامیوں سے آگا ہ ہو کر وہ بہتر طریقے کا انتخاب کر سکے گا۔ پاکستان میں اب تک سکولوں میں اردو کی تدریس بھی عموما ً قواعد و ترجمے کے طریقے پر ہو رہی ہے استاد عبارت پڑھ دیتا ہے مشکل لفظوں کے معنی بتا دیتا ہے کہیں کہیں تشریح کر دیتا ہے۔ قواعد کی مشق بھی کرا دیتا ہے بہر حال اس طریقے سے طلبہ کو مشکل الفاظ کےمعنی آ جاتے ہیں وہ قواعد بھی سیکھ جاتے ہیں نہیں سیکھتے تو زبان نہیں سیکھتے  ۔ درستی کتاب کی عبارت  اگرچہ زبان سکھانے کاذریعہ کر دیتا ہے زبان اور اس کی ساخت طلبہ کا جزو ذہن نہیں بن پاتی استاد نئے لفظوں اور نئی جملہ بندیوں کو اس طرح نہیں پڑھتا کہ ان کی مشق سے طلبہ کو ان کے استعمال پر قدرت حاصل ہو کیونکہ قواعد و ترجمہ کے طریقے میں اس کی گنجائش ہی موجود نہیں۔

قواعد و ترجمہ کے طریقے کو چھوڑ کر جو تحریری و ادبی زبان کے لیے موزوں ہے باقی سب میں بول چال پر بہت زور دیا گیا لیکن ہمارے سکولوں میں کتاب ہی محور تدریس رہتی ہے۔ استاد کتاب سے باہر جاتا ہی نہیں۔ جب کتاب کی تدریس پر زیادہ زور دیا جائے گا تو بول چال کے لیے وقت کہاں بچے گا۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارا استاد تدریس زبان میں بول چال کی افادیت کا سرے سے قائل ہی نہیں یا کم از کم اردو کے معاملے میں نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں اردو کی تدریس بے حد پرانے اسلوب پر ہو رہی ہے جبکہ دنیا اس میدان میں بہت آ گے جا چکی ہے۔ اس معاملے میں تمام لسانیات اور نفیسات سے مدد لی جا رہی ہے لسانی تجرہ گاہ کے ذریعے طلبہ کو زبانیں پڑھائی جا رہی ہیں تربیت اساتذہ کے لیے کورس ترتیب دیئے جا رہے ہیں صرف ایک مرتبہ کی تربیت کو کافی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان کے لیے تجدیدی کو رسوں کا اہتما م کیا جا تا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مقابلے میں ان کے پاس وسائل زیادہ ہیں لیکن ہم تو دستیاب وسائل بھی پوری طرح استفادہ نہیں کر رہےہیں۔

اہم نکات

1۔تدریس کے نقطہ نطر سے ایک تو مادری زبان ہوتی ہے دوسرے اجنبی یا غیر زبان ۔ انہیں اولین اور ثانوی زبانوں کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اولین یا مادری زبان بچہ اپنے ماحول میں رہ کر سیکھ جاتا ہے لیکن غیر یا ثانوی زبان سیکھنے کے لیے شعوری کوشش کی ضرورت پڑتی ہے۔

2۔ برصغیر میں عربی ناظرہ پڑھانے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے فارسی اور عربی ، زبان کے طور پر یہاں قواعد و ترجمہ کے ذریعے ہی پڑھائی جا تی رہی ہے لیکن عربی و فارسی کی تدریس کا اندازبھی بدل رہا ہے۔

3۔ قواعد و ترجمہ کے ذریعے زبان پڑھانے کا طریقہ سب سے پرانا ہے۔ اس میں طالب علم قواعد تو سیکھ جاتا ہے لیکن اسے زبان نہیں آتی کیونکہ اس طریقے میں بول چال کی کوئی گنجائش ہی نہیں

4۔ راست /بلاواسطہ طریقے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں پڑھی جانے والی زبان پر زور دیا جاتا ہے اور بولنے پر زیادہ  سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ طالب علم کی شرکت بھی اس طریقے میں بھر پور رہتی ہین لیکن اس طریقے سے پڑھانا ہر استادکے بس کی بات نہیں انتہائی ضرورت بھی ترجمے سے پر ہیز مشکلات پیدا کر تا ہے۔

5۔ سمعی و تکلمی طریقے میں مکالموں کے ذریعے زبان کے جملوں کی سعی طلبہ کو سمجھائی جاتی ہیں اس طرح قواعد زبان نام لیے بگیر دلچسپ انداز میں پڑھائے جاتے ہیں اس میں  مشق تکرار کا باعث بنتی ہے۔

6۔ ابلاغی طریقہ میں زبان پانے مکمل سیاق  وسباق کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔

7۔ تفاعلی طریقےمین اس بات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ کس موقع پر کیا کہنا چاہیے۔

8 ۔ یہ سارے طریقے ثانونی بانوں کی ابتدائی تدریس کے لیے ہیں لیکن اردو پڑ ھاتے وقت اسکول میں ان سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ ۔

 

Motivations, Information, Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea, News, Article, Islamic, Make Money, How to,Urdu/Hindi, top, Successes, SEO, Online Earning, Jobs, Admission, Online,

No comments:

Post a Comment