Complete
life story of Muhammad ﷺ
تبلیغ کا اعلانیہ حکم۔ 4 نبوی
، 614 عیسوی میں اللہ تعالیٰ نے حکم نا زل فرمایا ۔ ( اے محمد صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم ) اب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو ( عذاب الہی)
سے ڈرائیے ۔ ( سورہ شعرا 26) اس آیت کے
نزول کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اپنے خاندان ، بنی عبدا لمطب کو ضیافت پر
مدعو کیا ۔ چچائوں سمیت 45 افراد شریک ہوئے اس مجلس میں ابو لہب نے مخالفت کرتے
ہوئے سخت ترین ناراضی کا اظہار کیا۔ پوری محفل میں صرف ایک تیرہ سالہ کم زور اور
آشوب چشم میں مبتلا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نامی بچے نے قدم پر ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ابھی محفل بر خاست ہونے والی
تھی کہ چچا ، ابو طالب کی آواز نے مجمعے کا سکوت توڑ ا اے محمد صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم تم کو تمہارے اللہ نے جس کام کا حم دیا ہے تم اسے انجام
دو۔ میں تمہاری حفاظت اور اعانت کرتا رہوں
گا۔ جب تک میری جان میں جان ہے۔ ابو طالب کی حمایت نے حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم کے حوصلون کو بلند
کیا اور پھر ایک صبح سویرے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے کوہِ صفا کی سب سے اونچی چوٹی پر کھڑے ہو کر
قریش کے تمام خاندانوں کا نام لے کر انہیں
دین حق کی دعوت عام دے دی ۔ یہ دعوت سردار انِ مکہ کے خود ساختہ خدائوں کے خلاف
گویا اعلان جنگ تھی ۔ چناں چہ انہوں نے بھر پور مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر تضحیک
و تحقیر ، اتہزاد و تکزیب ، غنڈہ گری ، تہمتوں بے ہودہ گالیوںکا ایک لا متناہی
سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ دنیا کا کوئی ظلم ، کوئی تشدد ایسانہ تھا جو حضور پر نور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم
اور ان کے جاں نثاروفقا ء کے ساتھ روانہ رکھا گیا ہو۔
ہجرت حبشہ:۔ اس گھبیر صورت حال
میں حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے
دی ۔ چناں چہ رجب 5 نبوی ( 615عیسوی) میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں 12 مردوں اور 4 خواتین پر مشتمل پہلا
قافلہ حبشہ ہجرت کر گیا ۔ اس میں آپ علیہ السلام
کی صاحب زادی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ، حضرت رقیہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھیں ۔ ہجرت کرنے والا دوسرا گروپ 82 مردوں اور 18 خواتین پر
مشتمل تھا ۔ 6 ہجوی میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تین دن بعد ۔
حضرت عمر بن خطاب نے اسلام قبو ل کیا ۔ جس سے مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اللہ سے دعا کی تھی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ
تعالیٰ عنہ اور عمرو بن ہشام ( یعنی ابو جہل) میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق
عطا فرما دے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں نے پہلی
مرتبہ صحن کعبہ میں حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم کی اقتدار
ء میں با جماعت نماز ادا کی ۔
شعب ابی طالب میں محصوری :۔ 7
نبوی 617 عیسوی میں مشرکین مکہ نے بنی
ہاشم اور بنی مطلب کے سوشل بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا اور یہ فیصلہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا ۔
لہذا ابو طالب مجبور ہ و کر تمام خاندان ہاشم کے ساتھ شعبت ابی طالب میں پناہ گزین
ہو گئے۔ یہ اتنا سخت وقت تھا کہ محصورین نے پتے کھا کر اور چمڑا چبا کر وقت گزارا۔
محصوری کا یہ انتہائی تکلیف وہ عرصہ تین برسوں پر محیط تھا ۔
غم کا سال :۔ شعب ابی طالب میں
محصوری کے 6 ماہ بعد ۔ رجب 10 نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ
واصحابہ وسلم کے سب سے بڑے حمایتی اور سر پرست ، جناب ابو طالب 80 سال کی عمر میں
انتقال کر گئے۔ ابھی حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ چچا کا غم
بھلا بھی نہ پائے تھے کہ ماۃ رمضان میں حقیقی مدد گار اور غم گسار شریک حیات ،
حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اسی لیے اس سال
کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہا گیا۔ ان دو عظیم ہستیوں کے دنیا سے اٹھ جانے کے
بعد مشرکین کے ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم اور ان کے رفقا کو دی جانے والی ایذا تمام
حدودں کو پار کر گئی۔ پتھروں سے لہو لہان کرنا ، راستے میں گندگی ڈالنا ، کانٹے
بچھانا ، گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر گھسیٹنا ، سجدے میں سر پر جانور کی اوجھڑی
رکھنا عام سی بات تھی ۔ گھر میں چھوٹی ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معصوم
فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیلی ہوتیں۔ تو ابو لہب کی بیوی ام جمیل ( جو پڑوسی
تھی) گھر کی دیوار پر چڑھ کو انہی ڈرانے ،ستانے میںکوئی کسر نہ چھوڑتی ، چھوتی
بچیان سہم جاتیں اور بابا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے آنے تک کمرے میں چھپی رہتیں۔ ان حالات کی
روشنی میں حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے شوال 10 نبوی میں 50 سالہ بیوہ حضرت سودہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت زمعہ سے نکا ح فرمایا ۔
طائف کا سفر ۔ شوال 10 نبوی
میں آنحضرت علیہ السلام نے اپنے آزا کرد ہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے ساتھ طائف کا سفر کیا آپ علیہ
السلام نے یہاں دس دن قیام فرمایا ۔ اس دوران طائف والوں نے آپ علیہ السلام پر جو
رو ظلم کی انتہا کر دی ۔ اوباش لڑکے اتنی سنگ باری کرتے کہ جسم مبارک لہو لہان
ہوجاتا۔ یہاں تک اللہ کے حکم سے پہاڑوں کے درمیان پیش ڈالوں ۔ آپ علیہ السلام نے
فرمایا ۔نہین مجھے امید ہے کہ ان کی پشت سے ایسی نسل نکلے گی ۔ جو ایک اللہ کو
مانے گی ۔ ( بخاری ) طائف سے واپسی کے سفر پر نخلہ میں نماز فجر میں جناب کے ایک
گروہ نے آپ علیہ السلام سے قرآن پاک کی تلاوت سنی اور مسلمان ہو گئے۔ شوال 11 نبوی
میں اللہ کے حکم سے آپ علیہ السلام کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ہوا لیکن رخصتی ہجرت کے بعد میدنہ منورہ میں ہوئی۔
واقعہ معراج ۔ نبی کریم علیہ السلام کی مکی زندگی کے آخری
دور میں معراج کا واقعہ پیش آیا۔ ممکنہ طور پر 11 یا 12 نبوی میں حضرت جبرائیل علیہ
السلام نے ایک مرتبہ پھر آپ علیہ السلام کے قلب اطہر کو آب زم زم سے دھویا ۔، پھر
براق پر بٹھا کر مسجد الحرام سے بیت المقدس لے گئے۔ وہاں آپ علیہ السلام نے ابنیاء
کرام علیہ السلام کی امات فرماتے ہوئے نماز پڑھائی پھر اسی رات آپ علیہ السلام کو
بیت المقدس سے آسمانوں پر لے گئے۔ جہاں آپ علیہ السلام کو ساتوں آسمانوں کی سیر
کروائی گئی اور پھر اللہ بزرگ و برتر کے دربار میں پہنچایا گیا ۔ یہں پنچ گانہ
نماز فرض ہوئی۔ اسی رات آپ کو واپس مسجد الحرام پہنچا دیا گیا۔
بیعت عقبہ : 11 نبوی میں حج کے
موقع پر یژب کے ایک قبیلے ، بنی خزرج کے چھے افراد آنحضرت علیہ السلام کی خدمت میں
حاضر ہوکر مشرف بے اسلام ہوئے۔ اگلے سال 12 نبوی میں 12 افراد نے اسلام قبول کیا۔
جن میں سے پانچ پچھلے سال آ چکے تھے۔ 7 نئے تھے۔ یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلائی۔ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم نے حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلم بنا کر یثرب بھیجا ۔ جنہون نے بڑی
تن دہی سے دعوت حق کے کام کو یثرب میں پھیلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے 40 افراد
مسلمان ہو گئے۔ آپ علیہ السلام کی اجازت سے پہلی بار بنی بیاضہ میں مسلمانوں نے
حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی۔
مدینہ
منورہ آمد :۔ جمعہ کی سہ پہر آپ علیہ السلام اس شان سے مدینے میں داخل ہوئے کہ
پورا مدینہ آپ علیہ السلام کے استقبال کے لیے پر جوش تھا۔ انصار کی بچیاں خوشی کے
نغمے گا رہی تھی ۔ آن حضرت علیہ السلام نے حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر قیام فرمایا
۔ مدینہ آمد کے فورا بعد آپ ﷺ نے مسجد
نبوی ﷺ کی بنیاد رکھی اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خود بھی بڑھ چڑھ کر
اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی درس گاہ صفہ کا چبوترا بھی تعمیر کرعایا
تاکہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ فوری شروع کیا جا سکتے ۔ مسجد سے متصل ہی اپنی ازواج
مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے حجرے بنوائے۔ اہل خانہ کو مکہ سے مدینے بلوایا
۔ اور آپ علیہ السلام خوب بھی حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے گھر میں 7 ماہ
قیام کے بعد اپنے حجروں منتقل ہو گئے۔ مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ علیہ السلام نے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں مہاجرین اور انصار کے درمیان
مواخات یعنی بھائی چارہ کروایا ۔ نیز اس کے ساتھ ہی مدینے کے یہود کے ساتھ بھی اک
معاہدہ کیا ۔
تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر حاضر ہو گئے۔ کہ تم اپنا چہرہ مسجد الحرام کی
طرف پھیر دو اور جہاں کہیں رہو ۔ اس کی طرف منہ پھیر کے ( نماز پڑھ) لو ( البقرہ)
معرکہ بدر:۔ رمضان 2 ہجری میں
مدینہ منورہ سے 80 میل دور بدر کے مقام پر حق و باطل کا پہلا معرکہ ہوا ۔ جس میں
313 مجاہدین کو 3 گنا بڑے مشکرین کے لشر کے مقابلے میں فتح نصیب ہوئی ۔ ابو جہل ،
2 کم سن بچوں کے ہاتھون جنہم رسید ہوا۔ دو ہجری ہی میں رمضان کے روزے اور زکوۃ فرض
ہوئی۔ اسی برس پیلی مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی امات میں عید الفطر کی نماز عید گاہ میں ادا
کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانکاح بھی اسی سال
غزوہ بدر کے بعد ہوا
غزوہ احد: 7 شوال 3 ہجری کو
احد پہاڑ کے دامن غزوہ احد ہوا ۔ جبل رماۃ پر متعین چند افراد کی غلطی کی وجہ سے
اس جنگ میں مسلمانوں کو شدید جانی نقصان ہوا۔ حضور علیہ السلام کے چچا ، حضرت حمزہ
رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ سمیت 70 سے زائد صحابہ کرام رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ۔
خود نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کا دندان شریف شہید ہوا اور
چہرے پر زخم آئے۔ ماہ رمضان میں حضرت فاطمہ رضٰ اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں حضرت امام
حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والادت ہوئی ۔ آنحضرت علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحب زادی ، حضرت حفصہ رضٰ اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح
فرمایا۔ حضرت عثمان غنی رض اللہ تعالیٰ عنہ کا نکاح حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم کی صاحب زادی ،
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا اور وراثت کا قانون بھی اسی سال نازل
ہوا۔
4 ہجری کے اہم واقعات :- چار ہجری میں غزوہ بنی نضیر اور غزوہ بدر
ثانی ہوا ۔ اسی سال حضڑت زینب بن خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ علیہ السلام کا
نکاح ہوا۔ لیکن چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہوا گیا ۔ اسی سال شوال میں آنحضرت
علیہ السلام نے ام سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا شعبان میں حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔
شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔
غزوہ خندق:۔ شعبان 5 ہجری میں
غزوہ بنی مصطلق ہوا۔ اس لڑائی میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں یہودی سردار ، حارث
بن ابھی ضرار کی بیٹی جویریہ بھی شامل تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت جویریہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کی مرضی کو مد نظر رکتھے ہوئے ان سے نکاح فرمایا ۔ کیوں کہ انہوں نے
اپنے والد حارث کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہنا پسند کیا تھا۔ غزوہ بنی مصطلق
سے واپسی پر واقعہ افک پیش آیا ۔ جس میں اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
کے حق میں وحی نازل فرمائی ۔ شوال 5 ہجری میں غزوہ خندق ہوا۔ حضرت سلمان فارسی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی تجویز پر حضور ﷺ نے مدینے کی حفاظت کے لیے خندق کھدوائی۔
مشرکین نے ایک ماہ تک مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا ۔ اللہ اللہ کی جانب سے ایک تیز آندھی نے مشرکیں کے حوصلے پست کر دیے ۔
وہ خوف زدہ ہو کر رات کی تاریکی میں فرار ہو
گئے ۔ 5 ہجری مین پردے کا حکم نازل ہوا۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تمیم کی
اجازت ملی ۔ آنحضرت ﷺ کا حضرت زینب رضی
اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ہوا۔
6 ہجری ۔ صلح حدیبیہ ۔ ذیعقدہ
6 ہجری مین صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان ہوئی۔ جسے اللہ نے فتح مبین قرار دیا۔ اسی
سال نبی کریم ﷺ نے بین الاقوامی سطح پر دعوت اسلام کے لیے حکم رانوں کو خطوط لکھے۔
سریہ داوی القریٰ ، سریہ دومتہ الجندل ، سریہ عبد اللہ بن رواحہ ، سریہ محمد بن
مسلمہ انصاری ، سریہ عیص وقوع پذیر ہوئے۔
7 ہجری:-۔فتح خیبر ، 7 ہجری
میں خیبر فتح ہوا ۔ خیبر مدینہ منورہ کے شمال میں 150 کلو میٹر کے فاصلے پر
یہودیوں کا مضبوط فوجی شہر تھا ۔ سو ، صلح
حدیبیہ کے بعد محرم 7 ہجری میں آپ ﷺ صحابہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خیبر فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ خیبر کی فتح کا
سہرا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر رہا۔ اس جنگ کے قیدیون میں
یہودیوں کے سردار ، حیی بن اخطب کی صاحب زادی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں
جن سے آپ ﷺ نے نکاح فرمایا ۔ معاہدہ صلح کے بعد 7 ہجری حضرت عمر بن العاص ، حضرت
خالد بن ولید ، حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ
بن طلحہ مسجد نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا اس موقعے پر حضور
اکرم ﷺ کی اقتدار میں عمرۃ القضاء ادا کیا
۔
غزوہ موتہ فتح مکہ ، 8 ہجری
مٰن غزوہ موتہ ہوا ۔ اس جنگ میں قیصر روم ایک لاکھ فوج کے ساتھ مسلمانوں پر حلمہ
آور ہوا۔ سب سے پہلے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ زہید ہوئے ۔ ان کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے علم سنبھالا وہ بھی شہید ہو
گئے۔ پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اٹھایا ۔وہ بھی شہید
ہو گئے۔ اب حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سردار بنے اور کام یابی نے ان کے قدم
چومے۔ ایک لاکھ کے مقابلے میں 3 ہزرا مسلان سرخ رو ہوئے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آتھ
تلواریں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں سے ٹوٹیں۔ رمضان 8 ہجری
میں اللہ نے فتح مکہ نصیب فرمائی۔
حجتہ الوداع:۔ 10 ہجری مٰن
متخلف علاقوں سے لوگوں نے قافلوں کی صورت میں آکر اسلام قبول کر نا شروع کر دیا۔
10 ہجری کا رمضان ، حضور نبی ﷺ کا آخری
رمضان تھا۔ چناں چہ آپ ﷺ نے اس رمضان میں 20 روزہ اعتکاف کیا ۔ 26 ذی قعد 10 ہجری کو
آنحضرت ﷺ حجتہ الوداع کے لیے مدینے سے
روانہ ہوئے اور 5 ذی الحجہہ کو مکے میں داخل ہوئے۔ 8 ذی الحجی بروز جمعرات منی
روانہ ہوئے اور اور اگلے روز طلوع آفتاب کے بعد منی سے عرفہ روانگی ہوئی۔ جہاں
قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ حج دیا۔ 10 ذی الحجہ کو منی سے مکہ روانہ
ہوئے اور پھر 13 اور 14 ذی الحجہ کی درمیانی شب مدینے کے لیے روانہ ہوگئے۔
وصال شریف:۔ 11 ہجری وسط محترم
میں یمن کے وفد ، نخع نے اسلام قبول کیا، یہ آخری وفد تھا۔ جو حضور ﷺ کی زندگی میں
آیا ۔ 26 صفر 11 ہجری کو اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ
روم جانے کا حکم دیا اور یہ آخری فوجی مہم تھی۔ جس کے لیے حضور ﷺ نے حکم دیا ۔ 29
صفر 11 ہجری کو مرض وفات کا آغاز ہوا۔ مرض کی شدت کے سبب ، حضرت عائشہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے حجرے میں 7 دن قیام فرمایا ۔ علماء کے نزدیک حضور پر نور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی وفات کی تاریخ میں تزاد پیا جاتا ہے۔ اسلیے واضح ایک تاریخ بھی نہیں
لکھیں۔
No comments:
Post a Comment