World Malaria Day 25 April 2018
Sevecades, Seven Voices in the Global malaria Fight Ready to beat Malaria & Dengue Learn more & protect yourself.Dengue is the most common mosquito Borne viral disease in the World and Very most suspected in patients with fever.The introduction of two new ar-boviral diseases { Chikungunya virus in 2013-14 and Zika virus is 2014-15 has created a new Difficult challenge for people Health and wealth in world .Sometimes triggering fatal events provention of dengue fever Focuse on victor control . USA Mosquito Nets Spray and repellent oil. Drain stagnant Water site. use Mosquito Nets. wear full clothes at dusk and dawn. Fumigation n De
شکست دینے کے
لیے تیار ہو جائیں۔
ملیریا ۔ دنیا
کی آ دھی آبادی کس طرح سے دو چار ہے۔ آ گاہی مہم کی بدولت5 برس میں مرض کی شرح 62 فی
صد کم ہوئی 70 ممالک، 400 ماہرین، 2030 تک
دنیا سے مرض کے خاتمے کی مربوط حکمت
عملی تیار
عالمی دارہ صحت
کے زیر اہتمام دنیا بھر میں ہر سال 25 اپریل
کو عالمی یوم ملیریا منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا آغاز 2007 میں ہوا اور
تب سے لے کر تا حال مختلف تھیمز کے ساتھ باقاعدگی سے منایا جا رہا ہے۔ تاکہ عوام
الناس کو مرض سے بچائوں کی ترغیب دی جا سکے ۔ رواں برس کا تھیم ملیریا کو شکست
دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ دراصل ملیریا آج دنیا بھر میں صحت عامہ کا ایک بڑا
مسئلہ بن چکا ہے۔ تقریبا آ دھی آبادی اس کے خطرے سے دورچار ہے اور صرف ترقی پذیر
ہی نہیں بلکہ تر قی یافتہ ممالک بھی مرض کی لپیٹ میں ہیں۔
اگرچہ آ گاہی مہم کی
بدولت 2000 سے لے کر 2015 تک مرض کے پھیلائو میں 62 فی صد کم واقع ہوئی ۔ اس کے
باوجود بہ ظاہر معمولی نظر آنے والا یہ مرض ہر سال تقریبا ساڑھے چار سے پانچ لاکھ
افراد کی موت کا پروانہ بن رہا ہے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ
کے مطابق 2016 میں دنیا بھر میں تقریبا 21 کروڑ افراد ملیریا کا شکار ہوئے ۔ جن
میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تھی ۔ جب کہ 2017 میں بھی مرض کے
پھیلائو اور امواب کا لگ بھگ یہی تناسب بر قرار تھا ۔ حالاں کہ 2010 میں مرج سے
متاثرہ افراد کی تعداد تقریبا 238 ملین تھی یا د رہے عمومی طور پر ہر سال مرض سے
متاثر ہونے والے مریضوں سے 70 فی صد سے زائد تعداد بچوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور
دوسرے نمبر پر بوڑھے افراد شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت دنیا
بھر کے قریبا 91 خاص طور پر افریقا سمیت جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک میں ملیریا
وبائی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اور ان میں سے 81 فیصد مریجوں کا تعلق صرف جبونی
افریقا ہی سے ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملیریا کے پھیلائو اور اس سے ہونے
والی ہلاکتوں کی شرح، ایڈز جیسے موذی مرض
میں مبتلا ہونے والے افراد سے بھی کئی گنا زاہد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملیریا کو ایڈز
سے زیادہ خطر ناک عارضہ قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کیے جانے
والے ایک حالیہ سروے کے نتیجے میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا گیا ہے جہاں
ملیریان سے ہونے والی ہلاکتون کی شرح نہ صرف زیادہ ہے بلکہ ہر دوسرا فرد ملیریا کے
رسک سے بھی دو چار ہے ۔ سروے کے مطابق یہاں مجومعی طور پر ہر سال تقریبا 45 لاکھ
افراد مرض سے مثار ہو جاتے ہیں۔ جن میں سے 65 فی صد پانچ سال سے کم عمر ے بچے اور
35 فیصد بڑی عمر ے افراد شامل ہیں۔ چاروں صوبوں کی بات کی جائے تو سندھ اور
بلوچستان شدید خطرات سے دو چار ہیں۔ اور اسی لیے عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں
ملیریا کو دوسری بڑی وبائی بیماری قرار دیا ہے۔ نیز رپورٹ میں اس بات کی بھی نشان
دہی کی گئی کہ پاکسان کی کل آبادی کا 65 فیصد حصہ دیہات پر مشتمل ہے جہاں سحت کی
بنیادی سہولتوں کے سخت فقدان کے سبسب شر ح اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا
بھر میں کئی ممالک ایسے ہیں۔ جنہونں نے
موثر حفاظتی اقدامات کے ذریعے مرض کو شکست دی ۔ جیسا کہ حال ہی میں عالمی ادارہ
صحت نے جنوبی ایشیا ہی کے ملک سری لنکا کو ملیریا فری قرار دیا ہے۔ جو اس بات کی
عکاسی ہے کہ اگر موثر اور ٹھوس حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو مرض کا قلع قمع بھی
ممکن ہے۔ ملیریا مادہ مچھر کے زریعے پھیلنے والا مرج ہے۔ اور اس کی وجہ ایک پیرا
سائٹ ہے ۔ جسے طبی اصطلاح مین پلاموزڈیم کہا جا تاہے۔ اس کی پانچ اقسام ہے۔ 1)۔
پلازموڈیم فیلسی پیرم ۔ 2)۔ پلاز موڈیم وائی ویکس۔ 3)۔ پلاز موڈیم اوول۔4)۔ پلاز
موڈیم ملیریائی اور 5) پلاز موڈیم نولیسی ۔ ان تمام اقسام میں سب سے عام پلاز
موڈیم وائی ویکس اور سب سے خطر ناک پلا موڈیم فیلسی پیرم ہے۔ جو افریقا میں زیادہ
پائی جاتی ہے۔ فیلسی پریم انسانی دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور بچوں میں موت کا
سب سے بڑا سبب گردانا جاتا ہے۔ جب کہ پلاز موڈیم وائی ویکس عمو ماً بڑوں کو متاثر
کرتا ہے۔ وائی ویکس کے جراثیم اگر ایک بار جسم میں دال ہو جائین۔ تو آسانی سے مریض
کا پیچھا نہین چھوڑتے ۔ نتیجتا مریض بار بار ملیریا مین مبتال ہو تا رہتا ہے۔
پاکستا میں اس وقت ملیریا فیلسی پیرم اور وائی ویکس دونوں ہی عام ہیں۔ یوں تو
مچھروں کی کئی اقسام مختلف عواررض کا سبب بنتی ہے۔ تاہم ملیریا ایک مخصوص مچھر
اینا نیلیس ہی کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ متاثرہ مچھر جب کسی شخص کو کاٹتا ہے تو اس کے
جراثیم جسم میں چند روز قیام کے بعد افزائش نسل کرتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں مرض
کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ مثلا دن کے کسی بھی جحصے میں تیز بخار جسم میں درد
، قے ، پسینہ آنا ، کم زوری اور کپکپی محسوس ہونا ۔ البتہ نو مولود بچوں میں
علامات مکتلف ہیں کہ وہ مسلسل روتے رہتے ہین۔ دودھ پینا چھوڑ دیتے ہین۔ جس کے
نتیجے میں قوت مدافعت جو پہلے ہی کم ہوتی ہے۔ مزید کم ہونے لگتی ہے۔ جب کہ شدید
حملے کی صورت میں بچے کا بے ہوش ہو جاتا ۔ دورہ پڑھان اور خون کی شدید کمی جیسی
علامات بھی ظاہر ہوتی ۔ عام طور پر مرض کی تشخصی کے لیے خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
لیکن بعض کیسز میں معالج پی سی آ ر ٹسٹ بھی تجویز کر سکتا ہے۔ علاج کی بات کی جائے
تو زیادہ تر مریضوں کو اسپتال مٰن داخلے کی ضرورت پیش نہین آتی لیکن اگر مرض شدت
اختیار کرلے اور کوئی پیچیدگی پیدا ہو جائے تو پھر اسپتال مٰن داخل کروانا نا گزیر
ہو جاتا ہے۔ ویسے تو ملیریا چند مخصوص ادویہ کے استعمال اور معالج کی ہدایت پر عمل
کی صورت میں سو فی صد قابل علاج مرض ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے بعض ادویہ کے
خؒاف جراثیم کی مزاحمت بھی دینے میں آ رہی ہے جس کی بڑی وجہ نامکمل علاج اور غیر
ضروری ادویہ کا استعمال ہے۔ اصل مین ادھورے علاج کے سببب ملیریا کے جراثیم ادویہ
کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتے ہیں اور پھر دوبارہ مرض کا علاج مشکل تر ہو جاتا
ہے۔ چوں کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ملیریا کافی خطر ناک ثابت ہو سکتا
ہے۔ اسلیے اگر علاج معلاجے کے باوجود علامات
بدستور بر قرار رہیں۔ تو بہتر ہو گا کہ بچے کو فوری طور پر اسپتال میں داخل
کر وایا جائے ۔ اسی طرح اگر دوران حمل ملیریا ہو جائے تو حاملہ کو بے حد احتیاط کی
ضرورت ہوتی ہے۔ وگرنہ کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے 70 ممالک کے چار سو ماہرین
کی معاونت سے 2030 تک دنیا بھر سے ملیریا
کے خاتمے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی مرتب کی ہے۔ جس کے تحت مختلف اقدامات
کیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ کوششیں تب ہی کام یابی سے ہم کنار ہوں گی جب انفرادی اور
اتجماعی سطح پر مچھروں کے خاتمے اور
بچائوں کے مختلف طریقے اپنائے جائین گے ۔ جیسا کہ مچھر دانی ،، دراوزوں ، کھڑکیوں
میں جالی کا استعمال ، مچھر مار سپرے ، سونے سے پہلے مچھر کش لوشن کا استعمال ،
نیز گھر اور اس کے قرب و جوار اور کیاریوں
میں مین پانی کھڑا نہ رہنے دیا جائے تالاب ، جوہڑ یا کسی گڑھے وغیرہ میں پانی جمع
ہو تو وہاں مٹی کا تیل چھڑک دیاجائے یا پھر کمبوزا مچھلی پال للی جائے
جس کی مرغوب
غذا مچھر کے بچے ہوتے ہیں اس کے علاوہ ملیریا سے مثاترہ علاقوں میں سفر سے گریز
کریں۔ جب کہ ایسی جگہوں پر بھی نہ آجائین جہاں زیادہ جھاڑیاں یا کھڑا پانی ہو ۔
لباس ایسا استعمال کرین۔ جس کی آ ستین فل ہوں۔ خاص طور پر بچوں کو پورے کپڑے
پہنائین۔ اینا فیلیس مچھر عموما معتدل موسم یں زندہ رہتا ہے اور برسات کے بعد
بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ جب کہ پاکستان مٰن
مارچ سے مئی اور اکتوبر سے نومبر میں ملیریا
کے کیسزز زیادہ تعدادد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ لہذا ان مہینوں میں مزید احتیاط
برتیں۔اپنی گلی محلے اور علاقے کو صاف ستھرا رکھنے میں علاقے کی میونسپلٹی کے ساتھ
بھر پور تعاون کریں۔ جگہ جگہ کچرا پھینکتے سے گریز کریں۔ تاکہ مچھروں کی افزائش پر
قابو پایا جا سکتے نیز حکومت کے ساھت الیکڑانک، پرنٹ میدا اور مختلف این جی اوز بھی اپنا فعلا کر دار ادا کریں۔ جب
کہ چھوٹے بڑے شہروں مین ایسے پروگرامز ، تشکیل دیئے جائیں جن کے ذریعے مرض ک اسباب
، علامات ، علاج معالجے اور احتیاطی تدابیر کا شعور کیا جائے ۔
اگر ملیریا کے
ساتھ ڈینگی کے بار میں نہ بتائے جائے تو بہت بڑا ظلم ہو گا ۔
ڈینگی بھی
ملیریا کا کزن ہے۔ اور انتہائی خطر ناک ہوتا ہے۔ اس مچھر کی پہنچا عام ہو جاتی ہے۔
کیونکہ یہ عموما کالے رنگ کا مچھر ہوتا ہےا ور اس پر سفید رنگ کے
داٹس سے بنے ہوتے
ہیں۔
اس کے کاٹنے سے انسانی جسم میں عمومی طور پر وائٹ بلڈ سیلز کی مقدار کم ہو
جاتا ہے۔ ایک عام اور صحت مند انسان کے اندر 150000 سے لیکر 400000 تک وائٹ بلڈ
سیلز پائے جاتے ہیں جو انسان کی نشو نما کرنے والے اعضاء جیسے کے جگر ، تلی ،
پھیپھڑے وغیرہ کو صحت مند رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ ہی خراب ہو جائے تو انسان مختلف
بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی پہچان یہی ہے کہ آپ ہر 3ماہ بعد اپنا ٹیسٹ
کروائین جس سے آپ کو علم ہو جائے گا کہ خون اور وائٹ بلڈ کی مقدار کتنی ہے۔ اگر کم
ہے تو فورا ً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اور اگر صحیح ہے تو اچھی بات ہے۔
اس کے علاوہ اگر
آپ میں وائٹ بلڈ سیلز کی کمی ہے تو آپ کو چائیے کے ہر روز صبح نہار منہ ایک
گلاس سیب کے جوس میں ایک لیموں کا رس ڈال
کر استعمال کرین
اس سے بہت جلد وائٹ بلڈ سیلز کی مقدار پوری ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ سورۃ الانعام کی آیات نمبر 16 تا 17 پڑھنے سے بھی بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے۔
Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning
No comments:
Post a Comment