INDIAN AND ISRAEL BETWEEN RELATIONS
بھارت
اور اسرائیل کی بڑھتی قربت
پچھلے
دس برس میں دونوں ملک اسلام اور پاکستان کے خلاف چوری چھپے ایک زبر دست عشکری محاذ
تشکیل دے چکے ۔
۔ حیرت انگیز انکشافات سے بھر پور
تحقیقی رپورٹ
یہ
26 نورمبر 1938 کی بات ہے ممتاز ہندو رہنما ، گاندھی جی کے ہفتہ وار رسالے ہرجین
میں انہی کا تحریر کردہ ایک مضمون یہود فلسطین شائع ہوا ۔ اس میں
ہندوں کے مہاتما نے لکھا :۔ The Jews in Palestine میں
مجھ سے اکثر عرب یہودی
مسئلے پر رائے پوچھی جاتی ہے یہود ب شک اس وقت اپنا کوئی ملک نہیں رکھتے ۔ مگر
انہیں زور زبردستی سے فلسطین پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات انصاف کے
اصولوں پر پوری نہیں اترتی ۔ اسی لیے فلسطین میں عربوں کو بے دخل کر کے وہاں
یہودی ریاست قائم کرنے
کا خیال مجھے نہیں بھاتا ۔
درج بالا مضمون سے عیان
ہے کہ گاندھی جی فلسطین میں یہود کی سازشوں اور اس ظلم و ستم سے آشنا تھے جو
فلسطینی عربوں پر ڈھایا گیا ۔ عربون کی حمایت کرنے پر خصوصا صہیونی رہنمائوں اور
امریکا نے خاصی ناک بھنوں چڑھائی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کی تشکیل کے صرف
چھ ماہ بعد انتہا پسندوں ہندووں نے گاندھی جی کو قتل کر دیا ۔ ممکن ہے کہ انہین
صہیونیوں کی سر پرست ، امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہو ۔ آخر وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے قتل میں بھی امریکی خفیہ
ایجنسی سی آئی اے ملوث پائی گئی ہے۔
یہود پہ گاندھی جی کی
تنقید کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فلسطینوں کی
حمایت کو سرکاری پالیسی بنالیا ۔ پنڈت نہرو ویسے بھی سیکولر تھے۔ وہ مذہب کی بنیاد
پر قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کے ساتھ چل نہیں سکے۔ اسی لیے بھارت نے 1948ء میں
اقوام محتدہ میں قیام اسرائیل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ چنانچہ امریکہ دباو کے
باوجود نہرو حکومت بھارت میں اسرائیل سفارت خانہ کھولنے سے انکار کرتی رہی ۔ جب
بھی اسرائیل فلسطینیوں پر حملے کرتا تو بھارت میں خصوصا مسلمان سرکاری حمایت سے
اسرائیل بہمیت کے خلاف زبر دست جلوس نکالتے اور جلسے کرتے ۔
(
بھارتی اپوزیشن جماعتیں کا نگریس پہ الزام لگاتی ہیں کہ مسلم ووٹ حاصل کرنے کی خاطر بھی وہ اسرائیل کی مخالف رہی)
1974 میں بھارت یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو تسلیم کرنے
والا پہلا غیر عرب ملک بن گیا ۔ اسی زمانے میں اندرا گاندھی اور یاسر عرفات کی پر
جوش ملاقات والی تصویر بھارت میں بہت مقبول ہوئی ۔ اس وقت بھارتی حکومت ظاہری
طورپر ہی سہی ۔ جنوبی افریقہ کی مانند اسرائیل کو بھی تنقید کا نشانہ بنائے رکھتی
تھی ۔
تعلقات
میں ڈرامائی تبدیلی
اسرائیل
سے متعلق بھارتی ظاہری رویہ 1991 کے بعد تبدیل ہونا شروع ہو اجب سیوت یونین کے
خاتمے سے سرد جنگ بھی اختتام کو پہنچی ۔ تب مختلف عوامل کے باعث اسرائیل کی مخالفت
بھارتی حکومت کو بے معنی لگنے لگی ۔ اول اشتراکت و اشتمالیت پہ سرمایہ داری کی فتح
سے بھارت کو احساس ہوا کہ اب ترقی و خوشحالی کی خاطر یورپ و امریکا سے دوستی نا
گزیر ہے۔ دوم بھارتی حکومت کو محسوس ہوتا تھا کہ فلسطینیون کی حمایت کرنے پر پچھلے
چالیس برس مٰن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد تھے لیکن
پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی مخالفت کے باعث وہ اسلامی سربراہ کا نفرنس پر
انداز ہوا ۔ بھارتی حکومت سوچنے لگی کہ دنیائے عرب وار پی ایل اور اب اسرائیل سے
مفاہمت چاہتے ہیں سو اسے بھی اسرائیل حکومت کے خلاف معاندانہ رویہ ترک کردینا
چاہیے۔ درج بالا عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1992 میں نر سیہما رائو کی کانگریسی
حکومت ہی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے اس کے بعد تو عسکری ، سائنسی ،
معاشی اور زرعی شعبوں میں اسرائیل بھارتی روابط تیزی سے بڑھتے چلے گئے۔ 1997 میں
اسرائیل صدر ایزو رویزمان نے بھارت کا دورہ کیا تب بھارتی فوج کے شدید دبائو پہ
سیکولر وزیر اعظم ، ڈیوی گائوڈے نے اسرائیل سے میزائل خرید نے کا معاہدہ کر لیا ۔
تاہم اسرائیل بھارتی قربت اگلے سال زور شور سے بڑھتی جب بھارتی قوم پر ست جماعت
بھی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) بر سر اقتدار آئی ۔
ہندو
سپر میسی قبول کرو
بی
جے پی بظاہر قوم پر ست جماعت ہے مگر اس کے بیشتر رہنما انتہا پسند ہندو تنظیم ۔ آر
ایس ایس ( راشٹر یہ سویم سیوک سنگھ ) سے تعلق رکتھے ہیں۔ اس تنظیم کے بانی مثلا و
مودر ساورکر ڈاکٹر مونجے، ڈاکٹر کیشو ہیڈ گوار ایم ایس گو الکر وغیرہ ان یہودی
رہنمائوں کے خیالات و نظریات سے متاثر تھے ۔ جنہوں نے صہونیت کی بنیاد رکھی ۔ ان
یہودی رہنمائوں یہودی الکالی لیون پنسکر ، تھیوڈ اور ہر زل اور ولا میر جائو
تینسکی نمایا ں ہیں۔ جس طرح(Moses Hess)میں
موسی بیس
صہونیت
کے بانیوں نے یہ وکالت کی کہ فلسطین صرف یہود کا ہے چنانچہ عربوں کو وہاں سے نکل
جانا چاہیے۔ اسی طرح آر ایس ایس کے رہنمائوں کی بھی خواہش چلی آ رہی ہے کہ مسلمان
بھارت سے نکل جائین یا ہندو سپر میسی قبول کر لیں۔ یہی نظریاتی مطابقت اسرائیل اور
بی جے پی حکومتوں کو قریب لے آئی ۔ کارگل جنگ 1999 میں بھارتی توپوں کو گولے فراہم
کرنے سے اسرائیلیوں نے بھارتی عوام خصوصا فوج کے دل جیت لیے ۔ لہٰذا 2000 میں
بھارتی وزیر خارجہ ، جسونت سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا یہ کسی ہائی پرو وفائل
بھارتی لیڈر کا پہلا دورہ اسرائیل تھا۔ تین سال بعد 2003 میں ہزار ہا فلسطینیوں کے
قاتل ، اسرائیلی وزیراعظم اریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا اس طرح عالم اسلام میں
واحد ایٹمی قوت ، پاکستان کی مخالفت نے نظریاتی طورپر قربت رکھنے والے دونوں ملکوں
کو مزید قریب کر دیا ۔ اسرائیل اور بھارت کے تعلقات نہایت کم مدت میں اتنے زیادہ
مستحکم ہوئے کہ 2004 میںبر سرا قتدار آنے والی کانگریسی حکومت بھی ارادتا (
مجبورا) انہیں توانا کرتی رہی گو اس نے اندر گاندھی والی پالیسی اپنائی ۔یعنی ظاہر
میں اسرائیل پہ تنقید مگر خفیہ طورپر وہاں کے حکمران طبقے سے میل ملاپ رکھنا
چنانچہ 2001 میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت صرف ایک ارب ڈالر تھی ۔ تو وہ 2012
میں برھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر تک جا پہنچی ۔ اب نئے بھارتی وزیراعظم ،
نریندر مودی باہمی تجارت کی مالیت دس ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔
2014 میں مودی حکومت بر سر اقتدار آئی تو اسرائیلی حکمران
طبقہ خوشی سے کھل اٹھا ۔
وجہ یہی کہ کانگریسی کی بہ نسبت بی جے پی اسرائیل
حکومت کے زیادہ قریب ہے۔ اس قربت کا عیان مظاہرہ حالیہ غزہ جنگ کے دوران ملا
کانگریس
اور کمیونسٹ پارٹیاں فلسطینیوں پہ اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف پارلیمنٹ
میں قراد دلانا چاہتی تھیں مگر بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر نے اجازت نہ دی
پچھلے 63 برس میں یہ پہلا موقع تھا کہ بھارتی حکمران طبقہ ظاہری طورپر مضلوم
فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی نہ کر سکا ۔ یہی نہیں بھی جے پی کی شہ پر ہندو قوم
پرستوں نے کلکتہ میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس نکالا ۔ یوں مودی حکومت کے عمل سے
ثابت ہو گیا کہ دنیا میں امریکا کے بعد بھارت ہی اسرائیل کا قریب ترین دوست ہے۔
مگر پاکستان کے لیے یہ قربت خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ دونوں ملک ارض پاک کے خلاف
پوشیدہ سازشوں میں مصرف رہتے ہیں۔ اگلی نشت میں آپ کو انڈیا اور اسرائیل کے ما بین
ہتھیاروں کی دوڑ میں خریدے جانے والے ہتھیار کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے گا (جاری
ہے)
لیکن
پاکستان کے ساتھ خدا اور اس کا رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واسلم ہیں
بھارتی
خفیہ ایجنسی را کو ٹرینگ دینے والا ادارہ موساد ہے
مورخیں
لکھتے ہیں کہ جب 1969 میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کی بنیاد رکھی گئی تو اندرا
گاندھی نے اس کے چیف را مشوار ناتھ کائو کو حکم دیا کہ اسرائیل خفیہ ایجنسی
موساد سے رابطہ کریں بھارتی وزیر اعظم کی خواہش تھی کہ بھارتی جاسوسی کے شعبے میں
موساد کے تجربات سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔
اسرائیل
چاروں طرف سے دشمنوں ( اسلامی ملکوں) میں گھرا ہو اتھا ۔ اسی لیے اسرائیل حکومت
شروع سے دفاع اور جاسوسی کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر تحقیق و ترقی ( ریسرچ اینڈ
ڈویلپمنٹ ) کرانے لگی ۔ ان دونوں شعبوں پہ اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ نتیجتاً آج
اسرائیل چوٹی کے سائنس دان و دیگر ہنر مند رکھتا ہے جو رات دن جدید ترین اسلحہ
بنانے میں منہمک رہتے ہٰن حتی کہ امریکی ماہرین عسکریات بھی نت نئے ہتھیار بنانے
میں اسرائیلوں سے مدد لیتے ہٰن دور جدید کا مہلک ترین ہتھیار ، ڈرون بنیادی طور پر
اسرائیلی ایجاد ہی ہے۔ 1971 میں پاک بھارت جنگ کے دوران اسرائیل باقاعدہ طور پہ
بھارتی حکومت کی مدد کو آپہنچے ۔ انہوں نے بھارتی فوج کو جدید اسلحہ فراہم کیا جو
مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کے خلاف استعمال ہوا ۔ 1992 میں سفارتی تعلقات
قائم ہونے کے بعد دونوں ممالک کے عسکری تعاون میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی اور
اب بھارتی اپنا بیشتر جدید اسلحہ اسرائیل ہی سے خریف تے ہیں۔
ہتھیاروں
کی خریداری
1997-98 میں بھارت نے اسرائیل سے زمین سے فضا مٰن مار کرنے والے
میزائل بارک اول خرید ے ۔ مدعا یہ تھا کہ پاکستان کے بحری جہاز شکن میزائل ہارپون
کو ناکارہ بنایا جا سکے ۔ لیکن پاکستان کے ساتھ اللہ عزوجل کی مدد ہے اس لیے جب
بھی بھارت نے پاکستان پر کسی بھی صورت میں حملہ کیا ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا
پڑا۔ چاہے وہ بلوچستان میں اپنی سر گرمی میں سر گرم رہے ہوں یا پاکستان میں خانہ
جنگی ، صوبائی جنگی ، قومیت جنگی ، نسلیت جنگی فرقہ واریت ہو لیکن ہمیشہ پاکستان
نے ان تمام حالات کو جو کنٹرول سے باہر نظر آتے ہیں کنٹرول بھی کیا اور منہ توڑ
بھی جواب دیا ۔ اس کی مثال کچھ یوں کہ ہے پاکستان میں چند دن پہلے بھارت کی جانب
سے جعلی کرنسی بھیجی گئی لیکن پاکستان کی خفیہ ایجنی آئی ایس آئی نے پاکستان میں
ان کے نیٹ ورک کو کام کرنے سے پہلے ہی پکڑ لیا ۔ اس کے علاوہ بھارت اور اسرائیل کی
پالیسوں کے پیش نظر جب پاکستا ن میں فرقہ واریت شروع ہو ئی تو خفیہ ایجنسی آئی ایس
آئی نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور اس کو کنٹرول کرنے میں 60٪ کامیاب ہو گئی ۔
پاکستان
کو سب سے بڑا خطرہ ؟
پاکستان
کو سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ملک کے اندر سے لاحق ہے جس میں سب سے پہلے فرقہ واریت
شامل ہے ۔ پاکستان میں بہت سارے فرقے بنے ہوئے ہیں جو اپنی اپنی ہی سنت رہے
ہیں اس کے علاوہ ہر کسی کو کافر کہتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں آئے دن قتل
غارت فرقہ واریت کے نام پر ہو رہی ہے۔ دوسری وجہ پاکستان میں تعلیم کا فقدان سب سے
زیادہ ہے۔ پرائمری کلاس سے اپر ڈویژن تک سب کے سب جاہل ہیں چاہے وہ عوام ریڑھی
والی ہے یاپارلیمنٹ میں بیٹھے پارلیمنٹیرن ہیں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ
جہالت سے بھرا پڑا ہے ۔ اور اس جہالت کو بڑھانے میں سب سے زیادہ کردار ہمارے میڈیا
کا ہے۔
پاکستان
کے سیاست دانوں کا کام صرف اور صرف ملک کی گلیوں کو پکا کروانا نہیں ہوتا بلکہ سب
سے پہلے عوامی مسائل میں تعلیم اور صحت نمبر ون پر ہے۔
اگر پاکستان میں تعلیم کو
اجاگر کیا جائے ۔ اور خاص طور پر مسلمانوں کی تاریخ کو عوام الناس تک پہچایا جائے
۔ اس کے بعد پاکستان کو صحت
مند بنانے کے لیے صحت وغیرہ کے کاموں پر سب سے زیادہ کیا جائے۔ تو پاکستان کافی مضبوط ہو سکتا ہے۔
مند بنانے کے لیے صحت وغیرہ کے کاموں پر سب سے زیادہ کیا جائے۔ تو پاکستان کافی مضبوط ہو سکتا ہے۔
اسرائیل
کے بھارت میں فوجی اڈے
امریکا،
اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ نے خطے کا امن دائو پر لگا دیا ۔
اسرائیل ، بھارت اور امریکا پر مشتمل گٹھ جوڑ کی پالیسیز سے
اب واضح ہو گیا ہے کہ وہ چین ، ایران ، روس اور پاکستان کے خطے میں بڑھتے
ہوئے تعلقات سے خائف ہے۔ اور خاص طور پر ایران پاکستان گیس معاہدہ ، پاکستان اور
روس گیس معاہدہ،اور سب سے بڑی وجہ پاکستان اور چین کی اقتصادی راہ داری وغیرہ
امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ۔ جس کی بنا پر
وہ آئے روز پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ اسی اثنا ء میں پاکستان کے
قریبی ممالک کو نقصان پہنچانا امریکہ کی سب سے بڑی پالیسی رہی جیسے شیطان جب دو
انسان کے درمیان گناہ کرواتا ہے تو خود موجود نہیں ہوتا اسی طرح امریکہ خود موجود
نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے کندھے پر رائفل رکھ کر چلانے کا شوق رکھتا ہے۔ اس
کی سب سے بڑی وجہ بھارت کا لگا تار سیز فائر کی خلاف ورزی کرنا اور کشمیر کے نہتے
مسلمانوں پر ظلم کرنا ہے ۔ جو اپنے آپ کو جمہورت کا سب سے بڑا علم دار کہلوانے کا
ملک ہے وہ خود ایک گھٹیا سوچ کا مالک ہے۔
اسی
وجہ سے ان ممالک کو سی پیک ہضم نہیں ہو رہا اور اسی لیے وہ اسے نقصان پہنچانے کے
لیے روزانہ کی بنیاد پر منصوبے بنا رہے ہیں۔ اسی سازشی ایجنڈے کے تحت اسرائیلی
وزیراعظم نے گزشتہ دنوں 130 رکنی بھاری بھر کم وف کے ہم راہ بھارت کا دورہ کیا
مبصرین اس دورے کو اس وجہ سے بھی خصوصی اہمیت دے رہے ہیں کہ اسرائیل وفد پالیمانی
رہنمائوں کی بجائے 10 عسکری کمپینز کے ماہرین اور سربراہان پر مشکل تھا یہ امر
قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک ایسے موقعے پر بھارت کادورہ کیا ۔ جب
ایک ماہ قبل ہی بھارت نے 500 ملین ڈالر مالیت کے اسرائیلی میزائلوں کی خریداری کا
معاہدہ منسوخ کر دیا تھا اسلحے کی کریداری کے اس معاہدے میں اینٹی ٹینک ، میزائلوں
کوخصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اور اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدار ملک بھارت ہے
جو نہ صرف اسرائیل سے اسلحہ خرید رہا ہے بلکہ اسلحہ خریدنے کی توجیز بھی دیتا ہے۔
اور اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو اسرائیلی کمپنیوں میں سب سے بڑا خریدار ملک
بھارت ہی ہے۔ جو سب سے بڑا اسلحہ خرید رہا ہے۔ جس میں مختلف قسم کے سٹیلائیٹ وغیرہ
بھی شامل ہیں۔ اور اسرائیل اس وقت اپنی اسلحہ بنانے کی دوسری شاخیں سب سے
زیادہ بھارت میں ہیں۔
بھارت
کی جانب سے اس کی بڑی صنعتی فرم ، کلیانی گروپ ، جب کہ اسرائیل کی جانب سے فائل
ایڈوانس ڈیفنس سسٹم کیے درمیان معاہدے پر دوسال پہلے دست خط ہو ئے تھے معاہدہ
منسوخ ہونے سے نہ صرف اسرائیلی عسکری صنعت میں غم وغصہ پایا جاتا تھا ، بلکہ
اسرائیل کی امریکہ میں مضبوط ترین لابی نے بھی بھارت کو معاہدہ منسوخ کرنے کے
سنگین نتائج سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو لے کر خصوصی
طیارہ نئی دہلی ایئر پورٹ پر اترا ، تو بھارتی وزیراعظم تمام تر پروٹوکول بالائے
طاق رکھتے ہوئے استقبال کے لیے خود موجود تھے۔
اسرائیلی
وزیراعظم کے دورے میں 50 کروڑ ڈالر مالیت کے 3 ہزار ٹینک شکن میزائلوں کی خریداری
کا معاہدہ بحال ہوا ، تو مزیز کئی اور معاہدے بھی کیے گئے۔ غیر جانب دار عسکری
ماہرین نے اسرائیل اور بھارت کے درمیان شعبوں میں ہونے والے ان ایک درجن سے زائد
فوجی معاہدوں کو جنوبی ایشاء کے لیے انتہائی خطر ناک قرار دیا ہے واضح رہے کہ
اسرائیل پہلے ہی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک
محتاط اندازے کے مطابق ، اسرائیل ہر سال بھارت کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سے
زاید کا جدید ترین اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیل نے اب تک جدید ترین ہتھیاروں کی
تیاری میں جو کام یابی حاصل کی ہے ۔ اس میں اسے امریکہ ، روس ،اور بر طانیہ سمیت
کئ یورپی ممالک کی معاونت حاصل رہی ہے۔ بعض ممالک تو کھلے عام اسرائیل کی اسلحہ
سازی صنعت کو فروغ دینے کے لیے تعاون کر رہے ہیں تو کچھ خفیہ طور پر مدد کرتے ہین۔
ٹینک شکن میرائلوں کے معاہدے کی منسوخی کی وجہ سے اسرائیل اور بھارت میں جو کشیدگی
پیدا ہوگئی تھی اس کے خاتمے کے لیے بھی مغربی قوتوں ہی نے کام دکھایا ۔ سب جانتے
ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدر کے عہدے پر کام یابی سے امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد
خوش نہی ہے۔ حتی کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے ہی منتخب
کردہ صدر کی مخالف ہو گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ، نریندر مودی اور اسرائیلی صدر میں قدر
مشترک یہ ہے کہ تینوں انتہا پسند اور مسلم مخالف جذبات رکتھے ہیں۔ کہ امریکی بھی
انہیں دماغی مریض کہنے لگے ہیں۔ ٹرمپ نے ایران سے اوباما دور میں ہونے والال ایٹمی
معاہدہ منسوخ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا ۔ مگر عین آخری وقت میں معاہدے پر نظر
ثانی مدت مین اضافہ کر دیا ۔ دراصل ان کے نائبین نے انہیں سمجھایا تھا کہ ایرانی
حکومت ناجائز دبائو میں نہیں آئے گی ۔ اور یورپی ممالک بھی یک طرفہ طور پر ایران
کے خلاف کاروائی کے مخالف ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے پاکستان کو بھی متعدد بار کھلی
دھمکیاں دیں کہ اگر بہ قول ان کے پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دینی جاری رکھی ۔
تو امریکہ کاروائی کر ےگا ۔ دہشت گردوں کے خلاف مزید کاروائیوں کے پر پاکستان نے
بھی پہلی بار امریکہ کو دلیرانہ جواب دیا ہے۔
دہشت
گرد اور ان کے ٹھکانے
دراصل
میں دہشت گرد ایک ایسا گروہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف کام کر رہاہے اگر آپ
تاریخ کا معالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بھی مسلمانوں کو کمزور کرنے کی
کوشش کی گئی ہے۔ ان میں مسلمانوں کو ہی پیدا کر کے ان کے خلاف کیا گیا ہے۔ جس کی
سب سے بڑی مثال ہمیں اس وقت ملتی ہے جب کچھ عرصہ پہلے ایک فٹ بال کے گرائوں کے
باہر داعش نے حملہ کیا تھا ۔ تو وہاں کے صدر نے پوری قوم سے معذرت کی کہ میری
بنائی ہوئی داعش نے ملک میں تباہی کی ہے اس لیے میں پوری قوم سے معافی مانگتا ہوں۔
اس کے علاوہ اگر واقعی میں اسلام پسند لوگ موجود ہیں تو وہ غیر مذہب ممالک میں کیو
ں کاروائی نہیں کرتے ۔ اس کی مثال یوں لیں جب واہگہ بارڈر پر حملہ ہوا تو حملہ
کرنے والے بھی مسلمان تھے اور شہید ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے۔ اس کے بعد
اے پی ایس سکول میں تقریبا 450 بچوں کو شہید کر دیا گیا حملہ کرنے والے بھی مسلمان
ہی تھے اور شہید ہونے والے بھی مسلمان تو اس معاملے کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا
جائے تو اس سے یہودیوں کو ہی فائدہ ہو رہا ہے۔ اور بعد مین وہ خود ہی ان کے خلاف
صرف اور صرف ( صرف) بیان ہی دیتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی گیم ہے جو لوگ تاریخ کا
مطالعہ کریں اور خاص طور پر التمش صاحب عنائیت اللہ صاحب کی کتابوں کا جس میں سر
فہرست داستان ایمان فروشوں کی اور فردوس ابلیس ہے کا مطالعہ کریں تو ان لوگوں کو
سمجھ آ جائے گی کہ ملک میں غدار کون ہیں اور محب وطن کون ہیں۔
پاکستان
کا کہنا تھا کہ اب ڈومورنہیں نو مور ہوگا ۔ ڈرائعکا کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان
کی جانب سے امریکی دبائوں میں نہ آئے اور اصولی مئوقف اختیار کرنے کے باعث ڈونلڈ
ٹرمپ انتہائی غصے میں ہین۔ تاہم اپنے مشیروں کی سفارشات کی روشنی میں ایران اور
پاکستان سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کی ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان حالیہ
ناچاقی کا خاتمہ اور تعلقات میں گرم جوشی ، امریکا کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
امریکا نے ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی
ہیں کہ امریکا اور اسرائیل نے بھارت میں پاکستان کے خلاف اپنے نئے دفاعی اسٹیشن
قائم کیے ہیں ۔ جب کہ امریکا ، چین کو ہدف بنانے کے لیے بھارتی علاقے ، دونگ کیلا
میں پہلے ہی اپنا دفاعی اسٹیشن قائم کر چکا ہے۔ ڈرائع کے مطابق اسرائیل نے جموں
اور راجستھان میں بھارت کی دفاعی معاونت کے لیے اپنے اسٹیشن قائم کیے ہیں۔
یہ
بات بھی کسی سے پوشیدہ نہین کہ اسرائیل ہر صورت پاکستان اور ایران کے ایٹمی اثاثوں
میں توسیع کا مخالف ہے۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ امریکا اور اسرائیل اور بھارت
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سر گرم عمل ہیں یہ بات بھی سامنے
آئی ہے کہ اسرائیل اور بھارت کے انٹیلی جینس اداروں نے جنڈ یالہ میں پاکستان کے
ایٹمی اثاثوں کی مانیٹرنگ کے لیے ایک خفیہ سینٹر قائم کیا ہے جس کی سیکورٹی
اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ذمے ہے۔
امریکا
نے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی مرتب کی ہے اس کے تحت وہ
تربیت یافتہ انجینئر ز کو خرید کر اپنے مفاد کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہے۔
ایرانی انٹیلی جینس قیادت نے امریکہ سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح
امریکہ خفیہ ایجنسیرز روس ، ایران، شمالی کوریا، کولمبیا اور پاناما کے علاوہ دوست
ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں ،دانش وروں، بالخصوص ایٹمی سائنس دانوں کو
امریکا مین مہمان کی حیثیت سے بلواتی ہین اور پھر انہیں اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش
کی جاتی ہے۔ جس کے لیے برین واشنگ کرنے والے ماہرین کی بھی خدمات حاصل کی جاتی
ہیں۔ ان کا کہنا کہ امریکہ یونی ورسٹیز جاسوسی کا گڑھ بن گئی ہیں۔ ایرانی انٹیلی
جنس نے انکشاف کیا ہے کہ ایف بی آئی اور سی آئی اے آج کل جنوبی ایشیا کے نوجوانوں
کو اپنا ایجنٹ بنانے کے لیے گھیر رہی ہی۔ چینی حکومت بھی ان حالات کو گہری نظر سے
دیکھ رہی ہے۔ بعض عسکری ماہرین نے اسرائیلی وزیراعطم کے بھارتی دورے پر آنے سے قبل
ہی کہہ دیا تھا کہ دونوں ممالک کےد رمیان جو کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس کے خاتمے کے
لیے مغرب اور امریکا سے ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں۔ امریکا کے لیے بالخصوص مواصلاتی
شعبے میں پاکستان کا میگا پروجیکٹ سی پیک تمام طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے
تمام تر سازشوں کے باوجود امریکا ، ،اسرائیل اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان،
ترکی ،ایران شام ، عراق ، روس ، جنوبی کوریا ، شمالی کوریا ، کا بال بھی بیکا نہیں
کر سکتے گا ۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے ایران سے
اپنے تعلقات جس طرح بہتر بنائے ہیں۔ امریکا اس سے نہ صرف یہ کہ خوف زدہ ہے۔ بلکہ
وہ اسلامی ممالک جو اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن خود امریکہ کے نیچے لگے
ہوئے ہیں۔ ان میں خاص طور پر وہ ملک جو طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں جو اپنا پٹرول
یہودیو کو دے رہے ہیں۔ اور وہ ملک جو اپنی زمینیں دوسرے مذاہب ( بت) کو دے رہے
ہیں۔
امریکا
اس سے نہ صرف یہ کہ خوف زدہ ہے۔ بلکہ اس بڑے ملاپ کو فرقہ وارانہ فسادکے ذریعے سبو
ثاز کرنے کا بھی منصوبہ رکھتا ہے۔ پاکستان ، ایران، چین، ترکی ، شام ، جنوبی
کوریا،شمالی کوریا، اور روس کی قیادت اس حوالے سے درپیش خطرات پر گہری نظر
رکھے ہوئے ہیں۔ نیز ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سی آئی اے کے چیف آنے والے دنوں میں
چین کو کسی بڑے نقصان سے دو چار کرنے کے لیے متحرک ہیں ان کے آئے دن کے بھارتی
دورے اور اسرائیلی موساد سے رابطے کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ بھارت کو افغانستان میں
نئے ٹاسک دینے کے لیے سی آئی اے جس طرح سر گرم ہے۔ ایران اور پاکستان کی اس پر نظر
ہے۔ اگر ان سازشوں کی وجہ سے خطے میں ایٹمی جنگ چھڑتی ہے یا امن کو کوئی دھچکا
لگتا ہے۔ تو یقینی طور پر اس کی تمام ذمے داری امریکا ، اسرائیل اور بھارت ہی پر
ہوگی ۔ اس وقت یہ تمام ممالک اقتصادی راہ داری کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے
غزوہ
ہند کی بشارت
جب
اسلام دشمن ممالک آپس میں گٹھ جوڑ کر لیں گے تو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے غزوہ
ہند شروع ہو گا جس میں مسلمان سب سے پہلے ہند کو فتح کر تے ہوئے آگے نکلیں اور اس
کے بعد امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا ۔ اس میں غزوہ ہند کیوں کہا گیا ہے
حتیٰ کہ غزوہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم خود اس جنگ میں شریک ہوں۔ اس کی مثال سادہ الفاظ میں کچھ یوں
ہے۔ کہ جب 1965 کی جنگ ہوئی تو اس وقت کے مدینہ کے خادمین کا کہنا ہے کہ ہم
نے دیکھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم جنگی لباس میں اپنے روضہ سے
باہر آ رہے ہیں تو ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان پر حملہ ہو گیا ہے اس لیے وہاں پر
جا رہا ہوں۔
اس
لیے جب غزوہ ہند ہو گا تو اس میں بھی حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ
واصحابہ وسلم تشریف لائیں گے ۔ اور ہند کی فتح مسلمان کے ہاتھ ہو گی ۔
جتنی
بھی جدید ٹینالوجی دشمن ممالک کے پاس رہے کوئی بات نہیں جنگیں ٹیکنالوجی سے نہیں
حوصلے سے جیتی جاتی ہیں۔ اور وہ حوصلہ صرف اور صرف مسلمانوں اور خاص طور پر
پاکستانیوں کے پاس ہیں۔ جیسے کے تحفظ ناموس رسالت کے وقت پورا پاکستان باہر آ گیا
تھا ۔ اسی طرح ملک کو بچانے کے لیے بھی باہر آ سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اب ہم شعور کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ
پوری پاکستانی قوم نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ موجودہ جمہوریت سوائے غلاظت، خیانت
اور حرام خوری کے کچھ بھی نہیں۔ ہر حال میں اس سیاسی نظام کو تبدیل کرنا لازم
ہوچکا ہے۔
اس سیاست کے تابوت میں آخری کیل حالیہ سینیٹ الیکشن تھے کہ جس میں
ممبران اسمبلی کی اس طرح خریدوفروخت ہوئی کہ جس طرح ماضی قدیم میں بازاروں میں
غلام اور کنیزیں بکتی تھیں۔ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کی آخری حدیں اب پار
ہوچکی ہیں۔
اب جبکہ موجودہ حکومت اپنا وقت پورا کرچکی ہے، وقت آچکا ہے کہ آنے
والی عبوری حکومت کے ذریعے معاشرے میں نہ صرف ایک سفاک احتساب کیا جائے بلکہ سیاسی
اور پارلیمانی نظام میں ایسی بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں کہ موجودہ کینسر کا خاتمہ
کیا جاسکے۔
ہم معاشرے کے مردان آزاد، مردان حر اور فکری اورروحانی طور پر
پاکیزہ افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ کھل کر پاکستان میں نئے سیاسی نظام کے لیے اپنی
رائے دیں۔
ہمارا مخاطب وہ غلام لوگ نہیں ہیں کہ جو تنگ نظر ہیں، تنگ ذہن ہیں
اور موجودہ سیاسی غلاظت کے علاوہ کسی اور سیاسی نظام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہی
نہیں کہ جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنا کر امت مسلمہ کی
قیادت کے قابل کرسکے۔
ہم بنیادی سوال اٹھائیں گے۔
کیا پاکستان کو پچاس سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہی پارلیمانی نظام چلانا چاہیے، یا براہ راست صدر کا انتخاب کرکے محب وطن ٹیکنوکریٹک حکومت کے ذریعے ملک کو چلایا جائے؟
دنیا کے ہر جمہوری ملک نے اپنی مرضی کی جمہوریت بنائی ہوئی ہے، ہم کیوں نہیں بناسکتے؟
کیا پاکستان کو پچاس سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہی پارلیمانی نظام چلانا چاہیے، یا براہ راست صدر کا انتخاب کرکے محب وطن ٹیکنوکریٹک حکومت کے ذریعے ملک کو چلایا جائے؟
دنیا کے ہر جمہوری ملک نے اپنی مرضی کی جمہوریت بنائی ہوئی ہے، ہم کیوں نہیں بناسکتے؟
کیا پارلیمان میں آنے والے اراکین کیلئے کوئی کم از کم قابلیت کا
امتحان یا انٹرویو ہونا چاہیے؟ کیا ایک ایسے ملک میں کہ جس کی بنیاد اسلام پر ہے،
وہاں ایسی سیاسی جماعتیں ہونی چاہیں کہ جن کا نظریہ لادین ہو، سوشلزم ہو یا قومیت
لسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی ہو؟
کیا یہ کافی نہیں ہے کہ صرف ایک مضبوط صدر یا وزیراعظم ہو؟
وزیراعظم کے ہوتے ہوئے ایک فالتو صدر کی کیا ضرورت ہے؟ یا اگر صدارتی نظام ہو تو
پھر ایک کمزور اور بے اختیار وزیراعظم کا عہدہ رکھنے کی کیا حاجت؟
کیا پارلیمان کے ساتھ سینیٹ کا ہونا ضروری ہے؟ کیا یہ کافی نہیں ہے
کہ حکومت کا سربراہ ہو، کابینہ ہو، قومی سلامتی کونسل ہو، اور قابل ترین افراد پر
مشتمل پارلیمان؟ سینیٹ کے انتخابات میں آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ جیسے کتوں اور
خنزیروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ اس نظام کو ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے؟
کیا اب وقت نہیں آگیا کہ پاکستان کو قبائلی، موروثی، صوبائی اور
شخصیت پرستی پر مبنی سیاست سے مکمل طور پر پاک کردیا جائے؟ سیاست کا بھی وہی نظام
ہونا چاہیے کہ جو فوج اور عدلیہ کا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا سپہ سالار نہیں بنتا اور
نہ ہی چیف جسٹس کے بعد اس کا بیٹا۔
کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ عبوری حکومت کی مدت کو کم از کم تین سال تک
بڑھا دیا جائے تاکہ وہ ملک میں سخت ترین احتساب بھی کریں اور قرآن و سنت پر مبنی
ایک نیا صدارتی آئین تشکیل دیں، تاکہ پاکستان میں ایک نئی صاف اور پاک سیاسی قیادت
کا آغاز کیا جاسکے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی پوری ریاست، ہماری گزشتہ نسلیں، اور
آئندہ آنے والی نسلوں کو دو ٹکے کے ڈاکوﺅں نے غلام اور یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ
نظام صرف انہی زرداریوں اور پٹواریوں کو لا سکتا ہے۔ کیا آپ اپنی آنے والی نسلیں
ان حرام خوروں کی غلام رکھنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر نظام تبدیل کریں۔
آنے والے دنوں میں پاکستان کی عدلیہ ، پاک فوج اور دانشوروں کو
تاریخ ساز فیصلے کرنے ہونگے۔ ہم ملک و قوم و ملت کو ایک بوسیدہ اور گلے سڑے آئین
کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے۔ آئین سو دفعہ لکھے جاسکتے ہیں، ملک دوسری دفعہ نہیں
بنایا جاسکتا۔ جہنم میں جائے پارلیمانی
ڈیموکریسی!
ڈیموکریسی!
جب پاک بھارت جنگ 1971 میں اسرائیلی اسلحہ استعمال ہوا
بھارت اور اسرائیل نے 1947 اور 1948 میں یکے بعد دیگرے جنم لیا ۔
ان دونوں مملکتوں کے قیام اور استحکام میں انگریزوں کا خاص کر دار رہا اور یہ
دونوں نام نہاد جمہوری ملک دنیا کے واحد ملک ہیں جو گزشتہ سٹرسٹھ برس مین تقریبا
دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کر چکے ۔ اس قتل عالمی قوتوں کی پشت پناہی اور مدد حاصل
رہی۔ اسرائیل اور بھارت کے مابین پہلا عسکری رابطہ 1962 میں ہوا تب اسرائیلی حکومت
نے بھارت کو پیش کش کی کہ وہ چین کے خلاف جنگ مین اس کی عسکری مدد کرنے کو تیار
ہے۔ 1965 میں پاکستان بھارت جنگ کے دوران بھی اسرائیلی بھارتیوں کی کھلی حمایت
کرتے رہے ۔ آکر پاک بھارت جنگ 1971 میں بھارتی حکومت نے اسرائیلی اسلحہ قبول کر
لیا ۔ اسلحے کی اس خفیہ ترسیل کی داستان خاصی ڈرامائی ہے۔ سری ناتھ رگھوان نئی
دہلی میں مشہور بھارتی تھنک ٹینک ، سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ محقق ہیں۔
نیز کنگز کالج ، لندن میں دفاعی سائنس پر لیکچر دیتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل سانحہ
مشرقی پاکستان پر ان کی کتاب 1971 شائع ہوئی
A
Global History of the Creation of Bangladesh
کتاب لکھنے کے دوران سری ناتھ کو پر مشوار نارائن بکسار کے ذاتی
کاغذات دیکھنے کاموقع ملا جو نہرو میموریل میوزیم و لائبریری (دہلی) میں
محفوظ ہیں ۔انہی کاغذات سے اسرائیلی اسلحے کی بھارت کو ترسیل کا انکشاف ہوا ۔ یاد
رہے پر مشوار بکسار معروف بھارت سفارت کار تھ جو 1967 تا 1973 میں وزیر اعظم اندرا
گاندھی کے پرنسپل سیکرٹری رہے ۔ بھارتی مورخیں لکھتے ہیں کہ قیام بنگہ دیشن
میں پر مشوار بکسار نے نہایت اہم کر دار ادا کیا ۔ درج بالا کاغذات افشا کرتے ہین
کہ جون 1971 میں اسرائیلی حکومت نے فرانس مین متعین بھارتی سفیر ۔ ڈی این چیڑ جی
سے رابطہ کیا ۔ چیڑ جی کو بتایا گیا کہ بھارتی حکومت چاہے تو پاکستان سے متوقع جنگ
کے واسطے اسرائیلی اسلحہ حاصل کر سکتی ہے۔ چڑ جی نے ٹاپ سیکرٹ خط کے ذریعے یہ
اطلاع اندرا گاندھی کو بھجوائی جو انہیں 6 جولائی کو موصول ہوا اندرا گاندھی نے یہ
اسرائیلی پیش کش قبول کر لی ۔ اسرائیلی وزراعظم ، گولڈا میئر نے فوراً شلومو
زبلوووکز سے رابطہ کیا لکسمبرگ میں رجسٹرد اس یہودی صنعت کار کی کمپنی ،
سولتام اسرائیلی فوج کو تو پیں ، بکتر بندگاڑیاں ، مارٹر اور متعلقہ گولہ
باری فراہم کرتی تھی ۔ طے پایا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را اور اسرائیلی موساد
کے تعاون سے سولتام قریبی مملکت ، لیجتینستائن کے راستے اسرائیلی ساختہ تو پیں ،
مارٹر اور گولے بھارت بھجوائے ، یہ سارا جدید ترین اسرائیلی اسلحہ اگست 1971 تک
بھارت پہنچ گیا ۔ سری ناتھ نے اپنی کتاب میں را کے سر براہ ، آ این کائو اک ایک
نوٹ بھی شامل کیا ہے۔ وہ انکشاف کرتا ہے کہ اسرائیلی مارٹر اور متعلقہ گو لے مکتی
باہنی کے گوریلوں کو دیئے گئے جبکہ توپیں اس بھارتی فوج کو دی گئین جسے مشرقی
پاکستان میں پاک افواج سے نیرد آزما ہونا تھا ۔ گویا پاک بھارت جنگ 1971 میں ہمارے
خلاف وسیع پیمارے پر اسرائیلی اسلحہ استعمال ہوا ۔ اسرائیلی وزیر اعظم ، گولڈا
میئر نے شلو موز بلودوکز کی وساطت سے اندرا گاندھی کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ
اسلحہ فراہم کرنے کے بدلے بھارت میں اسے سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی جائے ۔
تاہم بھارت ابھی عرب و اسلامی دنیا کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ بہر
حال اسرائیلوں کو یوں خوش کیا گیا کہ انہین بھارت میں دو ایٹمی تجربات کرنے کی
اجازت مل گئی ۔ مئی 1974 میں جب بھارت نے اپنا مسکرتا بدھا ایٹمی دھماکہ کیا تو
اسی وقت اسرائیلی ایٹمی تجربات بھی انجام پائے گئے۔ مگر مغربی میڈا نے بوجہ انہین
رپورٹ نہٰن کیا ایٹمی تجربات کا سامان دو ہفتے قبل اسرائیلی سی 130 طیارے کے ذریعے
راجستھان لاگیا تھا ۔ پاکستان کے خلاف اسرائیلی ، بھارتعاون کا اگلا مظاہرہ کارگل
جنگ 1999 میں دیکھنے کو ملا ۔ تب اسرائیلی حکومت نے فی الفور لیز گائیڈ میزائل
بھارت بھجوا دیئے۔ یہ میزائل کنکریٹ سے بنے بنکر یا زیر زمین مورچے بھی تباہ کرنے
کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ انہی اسرائیلی میزائلوں نے پہاڑوں میں بنے مجاہدین کے بنکر
تباہ کر ڈالے اور ان کے مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ کارگل جنگ کے دوران
ہی اسرائیل نے بھارتی افواج کو ریڈا ر۔ توپوں کے گولے اور ڈرون بھی فراہم کیے ۔
ڈرونوں کی مدد سے بھارتیون نے مجاہدین کے ٹھکانے تلاش کیے اور انہیں تباہ کر ڈالا
۔ اس کے بعد مختلف اقسام کا اسرائیلی اسلحہ دھڑا دھڑ بھارت پہنچے گا ۔ ایک رپورٹ
کی رو سے 1999تا 2009 اسرائیلی نے بھارت کو 30 ارب ڈالر ( تیس کھر ب روپے) کی خطیر
رقم کا اسلحہ فروخت کیا ۔ یوں اسرائیلی اسلحہ ساز کمپینوں نے صرف ایک عشرے میں
اربوں ڈالر کما کر خود کو مستحکم کر لیا ۔ یہ اسرائیلی ہی ہیں۔ جنہوں نے2009
میں بھارت کو جاسوس مصنوعی سیارہ (سٹیلائٹ ) فراہم کیا ۔ ریساٹ 2 نامی یہ
سپائی سیٹلائٹ اپریل 2009 میں چھوڑا گیا جسے اسرائیل اپر دیش انڈسٹریز نے تیار کیا
تھا اس مصنوعی سیارے کے ذریعے بھارتی پاکستان جبکہ اسرائیلی ایران کی جاسوسی کرنے
میں مصروف ہیں۔ پاکستان کو کمزور بلکہ خدا نخواستہ نیست و نابو د کرنے میں
اسرائیل کے کئی مفاد وابستہ ہیں۔ اول ایٹمی پاکستان اسرائیل حکومت کی نظروں میں
خاری بن کر کھٹکھتا ہے۔ پاکستانیوں کے ہوتے ہوئے اسرائیلی کبھی عالم اسلام پہ غالب
نہیں آ سکتے ۔ مذید براں پاکستانی سائنس داں و انجینئر بہ سرعت اپنے میزائل
پروگرام کو ترقی دے رہے ہی۔ اسرائیلی حکومت کو خطرہ ہے کہ مستقبل میں پاکستانی میزائل
ٹیکنالوجی ایران ، لیبیا ، سعودی عرب ، شام اور متحدہ عرب امارات تک پہنچ سکتی ہے۔
یوں پاکستانی میزائل مملکت اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ سوم بھارت دنیا
میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اسرائیلی حکومت کی سعی ہے کہ زیادہ سے زیادہ
اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں بھارت سے معاہدہ کرین یوں اسرائیلی دفاعی صنعت
کو مستحکم ہونے میں مدد ملے ۔ چہارم را اور موساد سی آئی اے اے کے ساتھ مل کر عالم
اسلام میں مسلمانوں کو مذہبی ، لسانی اور نسلی فرقوں مین تقسیم کرنے کی نہایت گہری
سازش پہ عمل پیر اہیں۔ پاکستان ماہرین عنکریات کا کہنا ہے کہ افغان و پاکستانی
طلابان مین را اور موساد کے ایجنٹ داخل ہو چکے ۔ یہ ایجنٹ مملک پاکستان کے خلاف
خفیہ جنگ لڑنے مین مصروف ہیں تاکہ اسے تین چار چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر سکین۔
ظاہر ہے کٹا پھٹا پاکستان پھر
بھارت یا اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں رہے گا ۔
2004 میں اسرائیل کے سب سے بڑے اسلحہ ساز سر کاری ادارے اسرئیل
ایروسپیس اندسٹریز نے بھارت کو تین اواکس طیارے فروخت کرنے کی ہامی
بھرلی ۔ جدید ترین ریڈار سے لیس یہ طیارے فضائی دفاع اور دشمن کی جاسوسی
کرنے میں بہت کام آتے ہیں۔ 2009 میں اسرائیل نے تین اواکس طیارے بھارتی فضائیہ کو
فراہم کر دیئے بھارت نے مزید تین اسرائیلی اواکس طیاروں کا آرڈر دے رکھا ہے۔ یا د
رہے پاکستان کے پاس بھی سات اواکس طیارے موجود ہیں ان میں سے تین پہ سویڈن
ساختہ ریڈار نصب ہیں جبکہ چار ریڈا چینی ساختہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی
اواکس طیاروں میں نصب اسرائیلی ریڈار دنیا کا جدید تیرن ایئر بورن ارلی
وارننگ اینڈ کنٹرول نظام ہے۔ 2007 میں بھارت اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر ہتھیار
بنانے کا فیصلہ کیا ۔ چناں چہ اسرائیل ایرو سپیس انڈسٹر بھارتی تحقیقی ادارے ،
ڈرڈو بھارتی بحریہ اور بھارتی فضائیہ کے ساتھ مل کر بارک
8 نامی میزائل بنا رہی ہے بارک 8 زمین سے فضا میں مار کرنے والا
جدید ترین میزائل ہے۔ یہ ہوائی جہاز ، میزائل اور ڈرون مار گرانے کی صلاحیت رکھتا
ہے۔ اسارائیلی اسے اپنے بحری جہازوں مین فٹ کر چکے ہیں۔ کیونکہ انہیں اطلاع ملی
ہے۔ کہ شامی افواج روس سے تیز رفتار بحری جہاز شکن میزائل یا کونت خرید چکیں۔
بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے زیر استعمال آنے
والا بارک 8 میزائل ابھی تجربات سے گزر رہا ہے۔ یہ جب بھی بھارتی افواج میں شامل
ہوا ۔ فضائی دفاع کر نے والا ان کا بنیادی ہتھیار بن جائے گا ۔ بھارتیوں نے اسے
لرسما یعنی لانگ رینج سرفس تو ایئر میزائل کا نام دے رکھا ہے۔ بارک 8 ، 275 کلو
وزنی میزائل ہے۔جسمیں 60 کلو وزنی بم لد سکتا ہے۔ یہ 70 کلو میٹر دور تک اپنے شکار
کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس کی رفتار تقریبا 1350 میل فی گھنٹہ ہے۔
میزائلوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے رفتار کو بہت اہمیت دی
جاتی ہے۔ کیونکہ میزائل جتنا زیادہ تیز رفتار ہو گا ۔ نہ صرف اتنی ہی جلد نشانہ پر
لگے گا ۔ بلکہ کوئی دوسرا ہتھیار اس کا راستہ بھی نہیں روک سکتا ہے۔ مثال کے
طور پر اس افواج پاکستان کے پاس ایسا کوئی مزائل نہیں جو میک 2 سے زیادہ تیز
سفر کر سکے ۔ چناں چہ بھارتی بارک 8 کے سامنے سبھی پاکستانی میزائل بے اثر چابت
ہونگے ۔
وطن عزیز کے سائنس دان بابر کروز میزائل تیار
کر چکے ہیں جس کی رفتار میک 0.8 ( 550میل فی گھنٹہ) لہٰذا اب ضروری ہو گیا ہے کہ
بارک 8 کا مقابلہ کرنے کی خاطر زیادہ تیز رفتار سام ( زمین سے ہوا میں مار کرنے
والا ) میزائل تیار کیا جائے۔
آئرن ڈرون ۔ بھارتی حکوتم اسرائیل کے فجائی
دفاع میزائل نظام آئرن ڈرن میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ نطام ایک اور بڑے
اسرائیلی اسلحہ ساز
آئرن دوم نظام لگ سکے گا ۔ بہر حال اسرائیل
اسلحہ ساز کمپینیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کی خاطر ہی مودی حکومت ایک اہم
قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ فی الوقت بھارتی قانون یہ ہے کہ جو غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنی
کسی بھارتی منصوبے میں 26 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری کرے ۔ اسے بھارت
میں مشترکہ مینو فیکچرنگ کمپنی کھولنا پڑے گی ۔ درجبالا شر کے باعث بہت سی
گیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیاں بھارتی اداروں کے ساتھ ہتھیار بنانے والے منصوبہ شروع
نہین کر پا سکین۔ اب موجودہ حکومت سرمایہ کاری کی حد 26 سے بڑھا کر 49 فیصد کرنا
چاہتی ہے یون غیر ملکی اسلحہ ساز کمپینوں کے لیے یہ ضروری نہیں رہے گا کہ وہ بھارت
میں اپنا میں اپنا مینو فیکچرنگ یونٹ قائم کر یں۔
پاکستان کے خلاف محاذ
یہ یاد رہے کہ آج دنیا میں بھارت ہی سب
سے زیادہ اسرائیلی اسلحہ خریدنے والا ملک بن چکا ہے۔ بھارتی ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر
( ڈیرھ کھرب روپے ) کا اسرائیلی اسلحہ خریدتے ہیں۔
مودی حکومت چونکہ بھارتی افواج کو اگلے دس
برس میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا انے والے برسوں میں
اسرائیلی کئی ارب ڈالر کا اسلحہ بھارتیوں کو فروخت کر کے خوب پیسہ کمائیں گے ۔
بھارتی بری فوج بھی اسرائیلی اسلحے کی بہت چاہ رکھتی ہے۔ بھارتی فوجیوں میں
اسرائیلی ساختہ بہت مقبول ہے اس کی بری فوج کے ایلیٹ یونٹ ، پیرا کمانڈو میں
وسیع پیمانے پر اسرائیلی اسلحہ مثلا گلیل سنائپر ، ٹافور رائفل اور اوزی سب مشین
گن استعمال ہوتی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مودی حکومت مدعیہ
پردیش ریاست میں اوزی سب مشین گنین بنانے والے پلانٹ لگانا چاہتی ہے۔ وہاں
اسرائیلی اور بھارتی ٹیکنالوجی کے اشتراک سے جدید ترین اوزی گنیں تیار ہون گی ۔
یاد رہے بھارتی افواج بارہ لاکھ باقاعدہ فوجیوں ، تیرہ لاکھ نیم فوجی دستوں پر
مشتمل ہے۔ اتنی بڑی تعداد دیکھ کر اسرائیلی اسلحہ ساز کمپینیوں کی رالین ٹپکنا
شروع ہو جاتی ہیں۔ بھارتی جرنیلوں کو (رشوت) کمشن دینا بھی معمول ہے۔ اس لیے ماضی
میں بعض اسرائیلی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا جا چکا ہے۔ بھارتی فوج اسرائیلی ڈرونوں
کی خریداری میں بھی پیش پیش ہین۔ فی الوقت بھارتی بری فوج اور بحریہ پچاس سے زیادہ
ہیرون اسرائیلی درون استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ڈرون مقبوضہ کشمیر ، مائو
تحریک سے متاثرہ ریاستوں چین ، بھارتی سرحد ، اور دیگر سرحدی علاقوں مین اڑائے
جاتے ہیں۔ ہیرون ڈرون مسلسل باون گھنٹوں تک 35 ہزار فٹ کی بلندی پر محو پر واز رہ
کے جاسوسی کر سکتا ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں اسرائیلی ایک نیا ڈرون ایتان سامنے لائے
یہ ڈرون ستر گھنٹے سے زیادہ مھو پر واز رہتا اور 45 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر
جاتا ہے۔ اس پر میزائل بھی فٹ ہو سکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کی سعی ہے کہ اسرائیل سے
ایتان بھی خریدلیے جائیں۔ بھارت اور اسرائیل کی بڑھتی قربت عیاں کرتی ہے کہ
پاکستان کے یہ دونوں دشمن چپکے چپکے ، چوری چھپے جنوبی ایشیاء میں ہمارے خلاف محاذ
کھڑا کر رہے ہیں۔ افواج پاکستان اور حکومت کو اس خفیہ اکٹھ پر کڑی و گہری نظر
رکھنی چاہیے ۔اس کے علاوہ اسرائیل اور انڈیا کی طرف سے جاری کر پاکستان کا نقشہ
بھی نیچے دیا گیا ہے جس میں پاکستان کو مکمل طور پر توڑنے کی سازشیں کی جا رہی
ہیں۔
ہندوستان کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا
لیکن ہندوستان اور پاکستان کے دشمن یہ بھول
رہے ہیں کہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہی ہماری تاریخ میں لکھ دیا گیا تھا جس میں ایک
دفعہ ہندوستان کا فتح ہونا ہے۔
نعمت اللہ صاحب کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے
تو دریائے سند ھ اٹک کے قریب سارا خون آلود ہو جائے گا یہ ایک بہت بڑی جنگ ہو گی
جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی اور یہ قیامت علامت صغری میں سے ایک ہو
گی ۔ پورا بر صغیر اسلامی ریاست بنے گا جو آگے جا کر امام مہدی و عیسی کے گروپوں
میں شامل ہو کر دجال کا مقابلہ کریں گے ۔
اور ان کے سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ دو
جماعتین ایسی ہو نگی جو بلا حساب جنت میں داخل ہونگی ایک وہ جو غزوہ ہند میں
شریک ہونگے و ہ تمام مجاہدین جو شہید ہونگے یا غازی ہو جائیں گے وہ سب کے سب جنگ میں جائیں گے ۔اور مسلمانوں کی غزوہ ہند میں کامیابی کے بعد ان شاء اللہ عزوجل پاکستان اور مسلمانوں کا نقشہ کچھ اس طرح سے ہوگا ۔
شریک ہونگے و ہ تمام مجاہدین جو شہید ہونگے یا غازی ہو جائیں گے وہ سب کے سب جنگ میں جائیں گے ۔اور مسلمانوں کی غزوہ ہند میں کامیابی کے بعد ان شاء اللہ عزوجل پاکستان اور مسلمانوں کا نقشہ کچھ اس طرح سے ہوگا ۔
آپ کی دعائوں کا طلب گار اگر کوئی غلطی ہوئی تو معافی کا طلب گار شکریہ ( پڑھین دوستوں کو شیئر کرین اور غزوہ ہند کی تیاری بھی کریں۔ ہر محاذ پر چاہیے فیس بک ہو تو ٹویٹر یا عملی میدان لوگوں کو باشعور بنانے میں ہماری مدد کریں اور خوب حصہ ہیں۔
Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning
No comments:
Post a Comment