American Army Attack on Syria | Russians Army | Attack on American Army - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Sunday, April 22, 2018

American Army Attack on Syria | Russians Army | Attack on American Army

Bashar-al-Asad | Vladimir Putin 
www.gulgcomputer.blogspot.com

American Army Attack on Syria|Syria Defended by America Attack|Russians Army Attack on American Army

شام پر امریکی حملہ ۔۔۔ کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے ؟
شامی عوام کا امن و سکون " اقوام متحدہ کے روڈ " پر عمل سے وابستہ ہے۔
نہتے شہریوں پر شامی فوج کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو جواز بناتے ہوئے امریکا نے برطانیہ اور فرانس کی مدد سے شام پر حملوں کا آغاز کر دیا ہے پہلے حملے میں امریکا کے ٹاماہاک کروز میزائلز
www.gulgcomputer.blogspot.com

 اور برطانیہ کے اسٹروم شیدو میزائلز
www.gulgcomputer.blogspot.com

نے دمشق اور حمص کے قریب مختلف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ امریکا کے دفاعی حکام کے مطابق ، پہلے حملے میں شام کے سائنسی تحقیقی ادارے اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بھی ہدف بنایا گیا ۔
www.gulgcomputer.blogspot.com
www.gulgcomputer.blogspot.com

 خیال رہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کائونسل سے قرارداد منظور کروانے میں ناکامی کے باوجود شام پر حملہ کیا ۔ دوسری جانب
 شامی حکومت کا ماننا ہے کہ بیرونی جارحیت کا بھر پور جواب دیا گیا ۔ اور حملوں کے خلاف میزائل دفاعی نطام فعال کر دیا گیا ہے۔
www.gulgcomputer.blogspot.com

قبل ازیں،شامی حکومت نے اپوزیشن کے آخری مضبوط گڑھ ، دو ما پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا ۔ جس کے سبب کم از کم 80 افراد ہلاک اور تقریبا ً 500 زخمی ہوئے تھے ۔ اس پر امیریکی صدر، ڈونلڈر ٹرمپ نے نہایت سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے شام اور اس کے حلیف ممالک ، روس ، ایران، ترکی ، پاکستان کو دھمکی دی کہ انہیں اس حملے کی بھارتی قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔ اور پھر انہوں نے شام پر حملے کا اعلان بھی کر دیا ۔
www.gulgcomputer.blogspot.com

 یاد رہے کہ گزشتہ برس بشار الاسد کی افواج کی جانب سے اپنے شہریوں پر کیمیائی حملے کے بعد امریکا نے جوابی کروائی کرتے ہوئے شام کے اس فوجی اڈے کو تباہ کر دیا تھا ۔ جہاں سے حملہ آور طیاروں نے اڑان بھری تھی ۔
بشار الاسد کی حکومت نے اپنے ہی نہتے لوگوں پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ اس کے بارے میں تفصیلی کالم ان شاءاللہ عزوجل بہت جلد شائع ہو گا ۔ ضرور پڑھیں۔
تاہم، اس مرتبہ امریکا کے علاوہ برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے ببھی روس اور شام کے خلاف جارحانہ رد عمل ظاہر کیا ۔ مگر روس نے جو شامی حکومت کا حلیف ہے۔
www.gulgcomputer.blogspot.com

 نہ صرف کیمیائی حملے کے الزام کو مسترد کیا ۔بلکہ امریکا کی جانب سے کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کا جواب دینے کی دھکمی بھی دی ۔ نیز اقوام متحدہ کی سلامتی کائونسل میں کیمیائی حملے پر خود کو مجرم قرار دینے کی قرار داد کو ویٹو بھی کر دیا ۔
www.gulgcomputer.blogspot.com

کیمیائی حملے کی زد میں آنے والا ، دوما ، مشرقی شام کا وہ آخری شہر ہے جہاں شمای اپوزیشن کے بچے کھچے روپس ، جنہیں شامی حکومت باقی قرار دیتی ہے۔ سرکاری فوج کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے۔ غوطہ کی فتح کے بعد بشار افواج اور روس کے  حوصلے خاسے بلند ہو گئے تھے اور وہ پورے شام سے اپوزیشن کا قلع قمع کرنے کا تہیہ کر چکے تھے۔ ابتدا مین امریکا ، عرب ممالک اور ترکی شامی اپوزیشن کی مدد کر رہے تھے ۔ لیکن پھر ان کے مفادات نے انہیں شامی خانہ جنگی سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ روس کی معاونت سے شامی فوج اپنے ہی شہروں پر بم باری کرنے لگی اور سا کے ساتھ ہی ایرانی فوج اور اس کی حمامیت یافتہ ملیشیاز کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں کے خلاف زمینی جنگ بھی لڑ رہی تھی ۔یہاں ایک دل چسپ امریہ ہے کہ بشار الاسد ، ایران اور روس اپنی کارئیوں کو جائز قرار دینے کے لیے شامی اپوزیشن کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جب کہ رواں برس کے آغاز میں ہی شامی صدر بشار الاسد اور ان کے اتحادیوں نے یہ اعلان کر دیا تھا ۔ کہ شام و عراق سے داعش سمیت دوسری دہشت گرد تنظمیوں کا صفایا ہو چکا ہے ۔ اس موقعے پر ایرانی صدر، حسن روحانی کا کہنا تھا کہ دمشق اور بغداد کو بچانے میں ایرانی فوج اور ملیشیاز نے بنیادی کر دار ادا کیا تھا ۔ اور روسی صدر ،پیوٹن  نے مشرق وسطی کے ایک فوجی اڈے مین کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ جنگ جتینے کے بعد ماسکو شام سے اپنی افواج واپس بلا رہا ہے۔ سو ناقدین حیران ہیں کہ جب رواں برس کے آغاز ہی میں شام سے دہشت گردوں کا صفیا ہو چاک ہے تو پھر بشار الاسد اور ان کے حلیف ممالک یہاں کس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ شامی شہریوں پر کیمیائی حملے کے بعد امریکی صدر نے شام اور روس  کو مکاطب کرتے ہوئے یہ ٹویٹ کیا تھا کہ امریکی میزائلز آ رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ حکام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس فوجی کاروائی کے لیے بہت سے آپشنز مجوود ہیں۔ شام پر اریکی حملے سے قبل فوجی ماہرین کا ماننا تھا کہ امریکا اور اس کے حلیف ممالک سے سوچ بچار پر کافی وقت صرف کر دیا اور اب ان کے لیے شام پر حملے کا حق استعمال کرنا ممکن نہیں۔ پھر فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے شامی فوج کومنتشر ہونے کا وقت بھی مل گیا ۔ اسی طرح شامی  فوج نے اپنے جنگی طیاروں کو لتا کیہ اور طرطوس کے فوجی اڈوں پر منتقل کر دیا ۔جہاں روس کا دفاعی نظام ان کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ یعنی اب حملے کی صورت میں بڑی طاقتوں کے مابین تصادم کا اندیشہ ہے۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ شامی فورسز کے منتشر ہونے کے بعد مغربی طاقتوں اتحادیوں کے لیے شامی فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کرنا ضروری ہوگا ۔ جسے روس اور ایران کی مدد سے تشکیل دیا گیا اور اسی کے نتیجے مین شامی فوج کا م یابیاں حاصل کر رہی ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شام پر بنکرز تباہ کرنے والے بموں اور میزائلز سے حملہ کرنا ہوگا اور صرف اسی صورت ہی شام کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے بعد بشار الاسد کو مذاکرات پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عسکری ماہرین یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ شام کے فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے اور انہین اس قدر نقصان پہنچایا جائے کہ وہ دوبارہ قابل استعمال ہی نہ رہیں۔ یا د رہے کہ  گزشتہ برس امریکہ میزائلز کا نشانہ بننے والا کان شیخون کا فوجی ادا حملے کے چند ماہ بعد ہی فعال ہو گیا تھا ۔ نیز یہ تجویز بھی دی جا رہی ہے کہ شام میں نوفلائی زون قائم کر دیا جائے مگر پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کی فوجی کاروئیوں سے شام مین جاری ظلم و جبر کی رات ختم ہو جائے گی اور شامی شہریون کو سکھ نصیب ہو گا؟ یہاں اس بات کا بھی ذکر کر تا چلوں کہ شام پر اس وقت امریکی حملہ کے لیے استعمال ہونے والی زمین سعودی عربیہ کی ہے۔ امریکہ مکمل طور پر اپنے ڈرون اور حوائی جہاز ، جنگی جہاز وغیرہ سعودیہ کا زمین سے اڑا رہا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ شاید فوری طور پر تو ایسا ممکن نہ ہو سکتے ، لیکن اگر شامی حکومت کم زور پڑتی ہے تو پھر اسے اقوام متحدہ کے تجویز کر دہ امن روڈ میب پر عمل در آمد کے لیے مجبور کرنا ممکن ہو گا۔یاد رہے یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس نے افغانسان میں کم از کم 50 لاکھ سے زاہد معصول لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا آج تک کشمیر کے مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں یہ وہی اقوام متحدہ ہے جو معصوم بچوں کو مارنے پر خاموش ، جو برما میں مسلمانوںپر ہونے والے ظلم پر خاموش جو پاکستان میں دہشت گردی ہونے پر خاموش اور اگر پاکستان مخالف لوگوں کو کچھ ہو جائے تو یہ اقوام متحدہ جاگ جاتی ہے۔ اور ان کے حق میں فیصلے دیتی ہے جو کسی اسلامی ممالک کے خلاف ہوں یا خاص طور پرمسلمانوں کے خلاف اس لیے اقوام متحدہ کا کردار ایک مشکوک ادارے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
جس مین شام مین عبوری حکومت کا قیام اور عام انتخابات کا انعقاد شامل ہے خیال رہے کہ کسی بھی فوج آپریشن کی کام یابی کے لیے اسے تنازعے کے سیاسی عمل حل سے جوڑنا ضروری ہوتا ہےہ و گرنہ طوائف الملوکی پھیل جاتی اور عراق اور لیبیا میں ایسا ہی ہوا مگر اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ کہ ان مثالوں کے پیش نظر عالمی برادری اپنی ذمے درایوں سے چشم پوشی کا مظاہرہ کرے ۔ یاد رہے کہ شام میں بشار الاسد کو فتح دلوانے میں روس نے بنیادی کر دار ادا کیا و گرنہ آجسے دو برس قبل تک ملک کے تین چوتھائی حصے پر اپوزیشن کا قبضہ تھا اور بشار الاسد کی افواج ، ایرانی فوج اور حزب اللہ سمیت دوسری ملیشیاز کی حمایت کے باوجود ہر محاذ پر پسپا ہو رہی تھی پھر روسی صدر ،پیوٹن نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا مشرق وسطی میں ایران ، روس کا حلیف تھا ۔ لیکن شام کے پڑوس میں واقع ، ترکی کسی بھی صورت بشار الاسد کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا ۔ مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ ااور واشنگٹن کے درمیان دوریاں پیدا ہونا شروع ہو گئین۔ کچھ عرصے بعد ترک صدر رج طیب اردوان نے گردوں کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال شرو ع کر دیا ۔ جنہیں  امریکا کی حمایت حاصل تھی جنگ جو کرد تنظیم پیش مرگا نے عراق مین موصل سمیت بردار ہونے پر آمادہ نہیں ۔ جب کہ ترکی انہیں اپنی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فوجی کاروائی کر رہا ہے۔اور شامی عالقے عفرین پر ترک فوجی کا قبضہ اسی پیش رفت کا حصہ ہے۔ امریکا  سے مایوس ہونے کے بعد اردوان نے روس کی جانب دیکھا جو پہلے ہی شام کے معاملے پر کسی ایسے  حلیف کا منتظر تھا ۔ جو اسے محفوظ راستہ فراہم کرنے میں مدد دے ۔ نیز روسی فوج کو نکالنے اور بشار الاسد کی حکومت قائم رکھنے مین بھی اس کی معاونت کرے اور اس سلسلے مین ترکی سے بہتر کون سا ملک ہو سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پیوٹن نے ماضی کی تمام تلخیاں بھلا کر ترکی کا ساتھ دیا ۔ مبصرین کے مطابق اردگان ایک ایسے وقت میں اپنی حمایت پر اپنے روسی ہم منصب کے شکر گزار تھے کہ جب پورا مغرب ان پر تنقید کر رہا تھا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ روس نے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود ترکی میں جدید میزائل دفاعی نطام ، ایس فور کی تنصیب کی منظور دی ۔ اس کے علاوہ رواں برس مارچ کے اوائل میں پیوٹن خود ترکی پہلے جہاں ناہوں نے اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ مل کر روس کی مدد سے تعمیر کیےے گئے پہلے ایٹمی بجلی گھر کا افتتاح کای۔ اسی موقع پر ایرانی صدر، حسن روحانی بھی انقرہ پہنچے اور وہاں ایک مرتبہ پھر روس کے زیر اہتمام ہونے والے مذاکرات کے ذریعے شامی مسئلے کے حل کی کوششوں پر بات چیت ہوئی ۔ جب کہ اس سے قبل فروری میں روس کے سرمائی دراوالحکومت سوچی میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے تھے ۔ کیوں کہ ان میں شامی بحران کی اہم ترین فریق شامی اپوزیشن شریک نہیں تھی اس قوت ماسکواور تہران کی کوشش ہے کہ شام میں فتح حاصل کرنے کے بعد یہ ثابت کیا جائے کہ شام کے استحاکم کے لیے بشار الاسد کا مزید چند برس تک بر سر اقتدار رہنا ضروری ہے دوسری جانب گردوں کی بغاوت اور ان کے خلاف فوجی کاروائی کے بعد ترک صدر اردگان کو بہت سے سمجھوتے کر نے پڑ رہے ہیں جن میں غالبا ً بشار الاسد کا بر سر اقتدار رہنا بھی شامل ہے انہوں نے یورپ اور امریکا سے فاصلے اس قدر بڑھا لیے ہیں کہ اب انہں ہر قدم پر روسی کی ضرورت ہے اور اسی لیے اردگان بشار کو فوری طورپر اقتدار سے ہٹانے کے اپنے مطالبے میں لچک پیدا کر چکے ہین تاہم اس کے نتیجے میں انہیں اپنے عرب دوستوں سے دوری کا سامان کرنا پڑے گا خیال رہے کہ اردگان کے پہلے 10 سالہ دور حکومت میں ملک میں جس قسم کی اقتصادی ترقی دیکھنے میں آئی تھی اس نے ترکی کو اسلامی دنیا کے لیے ایک رول ماڈل بنا دیا تھا لیکن پے در پے بحرانوں کی وجہ سے اس کی ترقی کی رفتار بھی بہت سست ہو چکی تھی ۔ اس صورت حال مین عرب دنیا کی قیادت مکمل طور پر سعودی عرب کے پاس چلی گئی اور سعودی ولی عہد ، شہزادہ محمد بن سلمان کے اندرون ملک اقدامات  نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں دال دیا ہے ۔ اکثر نا قدین کا خیال تھا کہ سعودی عرب کی طاقتور علما کائونسل اب تبدیلیوں کی سخت مکالفت کر ے گی اور ولی عہد کو نقصان پہنچے گا ۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا حتی کہ جب ولی عہد نے سعودی شہزادوں کو زیر حراست لیا تھا تو اس وقت بھی بہت سے مبصرین نے انقلاب کی پیش گوئی کی تھی ۔ لیکن تب بھی کوئی انقلاب نہ آ سکا ۔ ان لوگون کا انقلاب اس وقت دم توڑ گیا جب ولی عہدصاحب نے مک مکا کر لیا تھا ۔ اور بعد میں تمام شہزادوں کو چھوڑ دیا تھا ۔ ملک میں عدم اطمینان کی فضا پیدا نہ ہونے کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان نے  امیریکا اور یورکپ کا دورہ کیا اور وہاں کھل کر اپنی مستقبل کی اقتصادی و کارجہ پالیسی پر اظہار خیال کیا نیز مغرب کو اپنے ان اقدامات سے آگاہ کہ جن کی مدد سے وہ سعودی معاشرے کو  جدیددنیا سے ہم آہنگ کر نا چاہتے ہی۔ لیکن یہاں اس بات کا زکر کرتا چلوں حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دجال مکہ مدینہ کے علاوہ باقی پور دنیا کا قابض ہو جائے گا ۔
www.gulgcomputer.blogspot.com

 اگر اس حدیث کو مد نظر رکھا جائے تو سعودی عرب میں آج بہت بڑے بڑے سینما حال وغیرہ بنائے جا رہے ہیں
www.gulgcomputer.blogspot.com

 اس کے علاوہ بہت بڑے بڑے جواہ خانے بھی قائم ہو چکے ہیں۔ جس کی حق کی بات وہاں کے امام صاحب کی زبان سے ہو چکی ہے۔
سعودی ولی عہد کے اس دورے کے نتیجے میں اوباما دور میں سعودی عرب اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج ختم ہو گئی ۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب ہی خطے کا لیڈر ہے اور وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا ۔ لیکن جب سعودی میں کوئی دہشت گردی کا واقع پیش آ تا ہے تو اس کو پاکستان یاد آ جا تا ہے۔ ۔ نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مسئلہ فلسطین دور ریاستی حل سے طے ہو جاتا ہے تو انہیں یہدویوں کے لیے خطہ زمین پر کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہوا کہ جب امیریکی صدر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کی شدید مخالفت کر  رہے ہیں۔ اور ایران پر عاید اقتصادی پابندیوں نے اس معیشت کو غیر معمولی دبائو کا شکار کر رکھا ہے۔ جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل میں 53،000 ایرانی ریال ، ایک امریکی ڈالر کے مساوی وہ گئے تھے اور ایران کے مرکزی بینگ نے ایرانی ریال کی مزید بے قدری روکنے کے لیے ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں اس کی وقعت 43،000 مقرر کر دی تھی۔ جو ہر لحاظ سے تباہ کن ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شامی خانہ جنگی میں براہ راست ملوث ہونے کی قیمت بہر حال تہران کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ گرچہ روس تو اس دلدل سے نکلنے کے اعلانات کر رہا ہے تاہم اس بارے میں ایران کا موقف غیر واضح ہے۔ اس وقت روس کی پوری کوشش یہی ہو گی کہ کسی بھی طرح امریکا اور یورپی طاقتوں سے براہ راست تصادم سے بچا جا سکے ، کیوں کہ بہ صورت دیگر شام میں جو فتوحات اس نے اور ایران نے بشار الاسد کو دلوائی ہین وہ خطرے سے دوچار ہو جائین گی روس ، شام اور ایران کو ان فتوحات کو مستحکم کرنے کے لیے وقت در کار ہے اور س مقسد کے لیے روس سمجھوتے پر آمادہ ہو جائے گا وگرنہ اس کے قدم مشرق وسطی سے اکھڑ جائیں گے ۔ جو یہ بڑی مشکل سے جمانے کی کوشش کر رہا ہے تین برس قبل بھی جب  شامی حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزا عاید کیا گیا تھا تو روس نے آخری لمحات میں سابق امریکی صدر باراک اوباما اور سابق امریکی وزیر خارجہ ، جان کیری کورام کر کے شام میں اپنے حلیف کی حکومت بچا لی تھی اور شاید اس کے بعد ہی پیوٹن نے شام میں فوجی مداخلت کر کے ایک بڑا جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا ۔ جس میں وہ بڑی حد تک کام یاب رہے اگر دیکھا جائے تو مشرق وسطی حقیقیت میں یورپ ہی کا میدان سیاست ہے لیکن یورپی حکومتیں بھی اس امر پر متفق ہو گئی تھی کہ شامی شہریوں کا اپنی حکومت کے ہاتھوں قتل کیا جانا ایک انسانی المیہ تو ہو سکتا ہے مگر ان کا براہ راست اس سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن جب برطانیہ میں اپریل کے آغاز میں دو افراد پر نرو ایجنٹ سے حملے کا معاملہ سامنے آیا تو پوری مغربی دنیا روس کے خلاف متحد ہو گئی ۔بہر کیف اس وقت شامی اپوزیشن متحد نہیں اور ان کا کوئی متفقہ لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مزید تقسیم کرنا بھی آسان ہے۔ اس سےقطعی نظر کہ شامی اپوزیشن کو دانستہ طور پر تقسیم کیا گای ۔ اس کے نتیجے میں عالمی طاقتوں کو شام میں اپنا کھیل کھیلینے اور اپنے مہروں کو آگے بڑھانے میں مدد  مل رہی ہے جس کے سبب گزشتہ 7 برس میں لاکھوں شامی شہری باشندے لقمہ اجل  بن چکے اور کروڑوں بے گھر ہیں۔ 
Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning

No comments:

Post a Comment