حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ ،سیرت نبی ﷺ
حضورپُر نورﷺ کی ڈیلی روٹین ِ زندگی و معمولات حیات
محسن انسانیت حضور سید العالمین سید المر سلین و خاتم
النبیین ﷺ کامعمول مبارک تھا کہ رات گئے بیدار ہو تے تھے۔ وضو فرماتے اور پھر
نمازِ تہجد کے لیے کھڑے ہو جاتے ۔ آپ ﷺ کی
تہجد کی نماز بہت طویل ہوا کرتی تھی ۔ قیام کی حالت میں بہت لمبی تلاوت فرماتے اور
رکوع و سجود بھی بہت طویل ہوا کرتے تھے۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ
ﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے لیے ممکن نہ رہا۔
عبادت و ریاضت
ام المومنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے اور پنڈلیوں
میں ورم آ جاتا ۔ جب سجدہ کرنا مقصود ہوتا تو حجرہ مبارک میں اتنی جگہ نہ ہوتی کہ
سجدہ کر سکتے ۔ ام المومنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی
ہیں کہ سجدہ کرنے کے لیے آپ ﷺ میری ٹانگوں پر اپنا ہاتھ مارتے میں اپنے پاؤں اکھٹے
کر تی تو اس جگہ پر آ پ ﷺ سجدہ فرماتے تھے۔ اس بات سے حضرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی
کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اونچائی
اتنی تھی کہ لمبے قد کا آدمی کھڑا ہو جائے تو کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چھت سے اس
کا سر ٹکڑا جائے ۔ تہجد کی نماز مکمل ہونے پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
اذان بلند ہو جاتی ۔ تب آپ ﷺ فجر کی دو رکعتین ادا کرتے جنہیں امت فجر کی سنتوں کے
نام سے جانتی ہے،پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص فرماتے ، یہ
مختصر رکعتیں ہوتی تھیں۔ اور یہی سورتیں مغرب کی دو سنتوں میں بھی تلاوت فرماتے
تھے۔ اس کے بعد آپ تہجد کی تھکاوٹ کے باعث سستانے کے لیے لیٹ جاتے اور مسلمان بھی
اتنی دیر میں مسجد میں جمع ہو جاتے تھے۔ آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف
لے جاتے اور فجر کی طویل قرآت والے دو فرائض پڑھاتے اور پھر مسلمانوں کی طرف چہرہ
انور کر کے بیٹھ جا تے ۔ کوئی خواب دیکھا ہوتا تو مسلمانوں کو سناتے اور اگر
مسلمانوں میں سے کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو سن کر اس کی تعبیر بتا دیتے ۔ بعض اوقات فجر کے بعد دیگر
امور پر بھی گفتگو فرماتے اور انہیں جملہ ہدایات دیتے اس بہانے مسلمانوں کی تعلیم کا
انتظام بھی ہو جاتا جبکہ خواتین بھی موجود ہو تی تھیں۔ فجر کے بعد سونا آپ کو بے
حد نا پسند تھا ۔ یہ بہت برکت والا وقت ہو تا ہے جسے ذکر و فکر میں گزارنا چاہے ۔
قرآن مجید نے بھی فجر کے وقت تلاوت کی ترغیب دی ۔ عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ
ﷺ کے معمولات کا حصہ تھے ۔ لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔ آپ ﷺ کی عادت
مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے ادا کرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر
کے تو ختم کر دیتے۔ فجر سے ظہر تک کا وقت زیادہ تر مسجد کے باہر گزار تے تھے ۔ جبکہ آ پ ﷺ کے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے
دو حصے کیے ہوتے تھے۔ ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ
کاروبارِ دنیا میں مشغول ہوتا جبکہ ظہر بعد پہلا دنیا میں مشغول ہوجاتا ۔ اور
دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی ﷺ سے فیض یاب ہوتے تھے۔ اس دوران بعض اوقات بازار
تشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے ۔
تاجروں پر کنٹرول
ایک بار ایک دکان کے باہر غلے کے ڈھیر می آپ نے ہاتھ ڈالا
تو باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا ۔ آپ ﷺ نے دکاندار سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے
جواب دیا رات کو بارش کی پھنوار کے باعث گندم گیلی ہو گئی ۔ آپ ﷺ نے اس کو سخت نا
پسند فرمایا کہ اوپر اور اندر میں فرض ہے تب آپ نے فرمایا کہ " جس نے ملاوٹ
کی وہ ہم میں سے نہیں" بازار میں ایک بار آپ ﷺ کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا
۔ آپ ﷺ نے فرط محبت میں پیچھے سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے یہ اشارہ تھا کہ
مجھے پہچانو! ابتداً تو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر
آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے خوب خوب مس کی کیونکہ نبی کے جسم سے جو چیز مس ہو جائے اس
پر آگ اثر نہیں کرتی۔
عورتوں نے دو دفعہ سلام کا جواب نہ دیا تو حضور پر نور ﷺ کا ردِ عمل
بعض اوقات خاص طور پر خواتین سے ملاقات کے لیے تشریف لے
جاتے جبکہ مرد حضرات اپنے اپنے کاموں پر گئے ہوتے تھے ۔ ایک بار آپ ایک بند محلے
میں تشریف لے گئے اور زور سے فرمایا کہ "السلام علیکم " کوئی جواب نہ آیا ۔ پھر فرمایا تو بھی
جواب نہ آیا ، تیسری دفعہ سلام کیا تو بھی کوئی جواب نہ آیا ۔ آپ ﷺ واپس مڑنے لگے
تو ہر گھرے سے خواتین کی آواز بلند ہوئی کہ " وعلیکم السلام " یا ایھا
النبی ﷺ ، آپ ﷺ نے پوچھا پہلے کیوں جواب
نہ دیا تو عرب کی ذہین عورتوں نے جواب دیا کہ ہم چاہتی تھیں کہ لسان نبویﷺ سے
زیادہ زیادہ سلامتیاں ہم تک پہنچیں ۔
کیونکہ پہلی دفعہ جواب دے دیا جاتا تو باقی دونوں دفعہ کے دعا یہ سلام سے محروم رہ
جاتیں ۔ سوموار کا دن عورتوں کے لیے مخصوص تھا جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے آخری ایام میں ہفتہ بھر میں دو دن خواتین کے لیے مخصوص کر لیے گئے تھے۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں دعوت تعام
بعض اوقات اچھا کھانا کھائے بہت دن گزر جاتے تو آپ ﷺ کسی
امیر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تشریف لے جاتے ۔ اسی طرح ایک دن آپ ایک
انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا
کھلاؤ، اس کے دروازے پر تو گویا دنیا و آخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔ اس نے
فوراً ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس ﷺ میں پیش کی
اور گھر والوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے مشغول ہو گیا اور
تھوڑی دیر بعد ایک تھال میں بھنا ہوا گوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دستر
خوان پر چن دی گئیں۔ آپ ﷺ نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی
بوٹیاں رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیں کہ جاؤ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے آ ؤ اس نے اتنے
دنوں سے کھانا نہیں کھایا ۔
دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول
بعض اوقات آپ ﷺ
دوستوں کے شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور ان کے ساتھ اچھا وقت گزارتے ۔ ایک بار آپ
ﷺ قریب کی جھیل میں گئے اور دو دو کی جوڑیاں بنا کر تیرا کی کی مشق کی اور مقابلے
کیے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ جوڑے میں حضرت
ابو بکر صدیق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے ۔
جنات سے ملاقات
بعض اوقات جنات کو
ملنے کے لیے پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرام
رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو آ گے آنے سے روک دیتے اور خود آ گے بڑھ کر جناب کے قبائل
میں تبلیغ فرماتے ۔ جب سفر در پیش ہوتا تو گھر سے دو نفل پڑھ کر سفر شروع کرتے اور
واپسی پر پہلے مسجد میں دو نفل ادا کرتے تب گھر میں وار د ہوتے ۔
آپ ﷺ بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک
خاموشی رہتی ۔ سوال کرنا سخت نا پسند تھا ایک بار آپ نے فرمایا کہ " حج فرض
ہے" اس پر ایک صحابہ نے کہا کہ " ہر سال" اس پر آپ ﷺ کا چہر غصے
سرخ ہو گیا اور آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔ اور آپ ﷺ خاموش ہو گئے ۔ غصہ تحصیل ہونے پر
فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو / اگر میں ہاں کہ دیتا تو پھر قرآن مجید نے بھی
مسلمانوں کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیے
تھے تم اپنے نبی سے اس طرح سوال نہ کرو۔ تاہم کسی اہم سوال کا جواب دیا بھی کرتے
تھے مثلا ً محفل میں خوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ جبریل
آ گئے ہیں۔ ایک بار
صحابہ کرام نے پوچھا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس طرف والی گلی سے کیوں آ تے ہیں؟
تب آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
گھر ہے جو نعت گو شاعر رسول ﷺ تھے۔ نعت شوق سے سنتے تھے اور نعت گو شاعر کے لے دعا
بھی فرماتے تھے۔ جب کسی سے خوش ہوتے تھے تو اس کے سامنے محبت کا اظہار کرتے اور جب
کسی سے ناراض ہو تے تو خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ اور بہت زیادہ ناراضگی ہو تی تو
چہرہ اس سے پھیر لیتے تھے ۔
داڑھی مبارک کا صرف ایک بال رکھنے والے صحابی رسول ﷺ
ایک صحابی کی کی
داڑھی میں ایک ہی بال تھا۔ آپ ﷺ اسے دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے ۔ اس صحابی نے ایک
بار وضو کےد وران وہ بال توڑ دیا ۔ آپ ﷺ نے دیکھا تو ناراضگی سے چہرہ انور پھیر
لیا ۔ اس صحابی نے عرض کی۔ یارسول اللہ ﷺ ایک ہی تو بال تھا تو سر زنش فرما تے
ہوئے جواب دیا کہ خواہ ایک بال تھا تب بھی میری سنت تو تھی ۔ تم نے اسے بھی توڑ
دیا؟
سورۃ حجرات کا نزول
ظہر سے قبل آپ ﷺ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے آ تے اور
تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (
تہجد پڑھنے) کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو ۔ اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو
طبیعت قدس سے سخت نا گوار گزرتا تھا۔ لیکن
آپ کا اخلاق اتنا بلند تھا کہ آپ ﷺ نے کبھی اپنی نا گواری کا اظہار نہیں فرمایا تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ
حجرات میں صحابہ کو حکم دیا کہ نبی ﷺ جب اپنے گھر میں استراحت فرما رہے ہوں تو
انکو آوازیں نہ دیا کرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیا کرو۔
قیلولہ کے بعد آپ ﷺ ظہر کے لیے نکلتے اور صحابہ کوظہر کی
نماز پڑھاتے تھے۔ اگر کوئی منتظر ہوتو نماز مختصر کر لیتے اور کسی بچے کی رونے کی آواز آ جاتی تو بہت جلد نماز
ختم کر دیا کرتے تھے۔ ظہر کے بعد کا وقت زیارہ تر مسجد میں گزارتے تھے۔ شاید اس کی
وجہ نمازوں کے مسلسل اوقات تھے۔ اس دوران باہر سے آنے والے مہمانوں سے بھی ملاقات
کرتے تھے ۔ بعض اوقات مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اور تحفے و ہدیے بھی قبول فرماتے
تھے۔ ایک بار ایک صحابی روزے کی حالت میں بیوی
کےپاس جانے کی شکایت لے کر آ گیا ۔ فرمایا ساٹھ روزے رکھو ۔ عرض کی ایک
روزے کا حال سن لیا ۔ ساٹھ کیسے رکھ
پاؤں گا؟ فرمایا ساٹھ مسکینوں کو
کھانا کھلاؤ عرض کی استطاعت نہیں ہے۔ وہ مسلمان
مجلس میں بیٹھ گیا کہ اسی اثنا میں ایک شخص کھجوروں کا ٹوکرلایا اور خدمت ِ
اقدس میں پیش کر دیا ، فرمایا وہ صحابی کہاں ہیں جس کا روزہ ٹوٹ گیا تھا؟ جی میں
ہوں، فرمایا یہ کھجوریں غریبوں میں تقسیم کر دو تمہا ا کفارہ ادا ہو جائے گا اس نے
عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ اس شہر مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان مجھ سے زیادہ غریب
اور کوئی نہیں اس بے ساختہ جواب پر چہرہ
انور خوشی سے اس حد تک کھل اٹھا کہ اصحاب خوش بخت نے دندان مبارکہ کی زیارت بھی کر
لی تب فرمایا جاؤ خود کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلاؤ یہی تمہارے روزے کا کفارہ
ہے۔
حضور پر نور ﷺ کا پسندیدہ لباس اور کھانا ۔
کھانے میں آپ ﷺ کو کدو شریف پسند تھا ، بکری کی اگلی ٹانگ ،
دستی شوق سے تناول فرماتھے ۔ سفید لباس
خوش ہو کر پہنتے تھے ، زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ ﷺ نے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب
تن کیے تھے ایک بار آپ ﷺ یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور صحابہ کرام کے درمیان
بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگا رہا ہو۔ سب مسلمان آپ ﷺ کو شوق
سے دیکھ رہے تھے۔ کہ ایک صحابی رسول ﷺ
نےوہ چادر اپ سے مانگ لی ، عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیا کرتے
تھے اس کو چادر دے دی تو سب صحابہ اس آدمی سے ناراض ہو گئے اس پر اس آدمی نے کہا
کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا۔ اور دوزخ کی آ گ سے محفوظ و مامون ہو جا ؤں گا۔
آپ ﷺ کو خوشبو بہت پسند تھی خوشبو کا تحفہ لیا کرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔
جانوروں میں بلی سے بہت پیار تھا کبھی غصہ تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے ۔
بچے بہت اچھے لگتےتھے۔ خاص طور پر یتیم بچوں کو اپنی اولاد پر بھی فوقیت دیتے تھے۔
ایک بار بی بی پاک فاطمہ الزہرا نے خدمت گار کا تقاضا کیا تو فرمایا کہ ابھی بدر
کے یتیم باقی ہیں کپڑے، جوتے ،جرابیں ، پہنتے ہوئے پہلے دائیں عضو میں چڑھاتے تھے
اور اتارتے ہوئے پہلے بایاں قدم مبارک دھرتے تھےاور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم
مبارک باہر نکالتے تھے۔ جبکہ مسجد میں اس کا الٹ ۔ جب بھوک ہوتی تو کھانا تناول
فرماتے اور تھوڑی بھوک باقی ہوتی تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے۔کھانا خلاف مزاج ہوتا تو
نقص نہ نکالتے تھے۔ بلکہ دستر خوان سے اٹھ جاتے۔ مسلمانوں کو نماز کی بہت تاکید کر
تے تھے اور جب بھی کوئی مشکل وقت ہوتو تو خود بھی نماز میں کھڑے ہو جاتے۔ دعائیں
اور مناجات بہت کثرت سے کیا کرتے تھے۔ اور صحابہ کو بھی تلقین کر تے تھے۔
"گوہ " ایک حلال جانور ہے جو خرگوش سے چھوٹا اور
چوہے سے بڑا ہوتا ہے لیکن آپ کو کھانے میں پسند نہ تھا ۔ پیاز طبع نبوی پر گراں
تھا ، بد بو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے۔ سو کر اٹھنے پر
مسواک کرتے ، وضو میں مسواک کرتے ، اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو بر قرار ہوتا تب
بھی نماز شروع کرتے تھےا ور کافی دیر گزر جاتی توبھی مسواک کر لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے
حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کر کے جاؤ یعنی اس دوران منہ سے
بو نہیں آنی چاہیے۔ بکھرے بال اور میلے کچیلے کپڑے سخت ناپسند تھے کوئی اس حالت
میں پیش ہوتا تو براہ راست تنقید کی بجائے دوسروں کی طرف رخِ انور کر کے تنبیہ
فرماتے تھے۔ جب کبھی گیسوئے مبارکہ دراز ہو جاتے تو جیب میں ایک کنگھی رکھا کرتے
تھے ۔ ایک زمانے میں آپ ﷺ کے پاس ہاتھی دانت کی بنی کنگھی بھی رہی ۔ فجر کے بعد
سونا اور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت نا پسند تھا۔ راستوں میں بیٹھنے سے بھی آپ
ﷺ نے منع فرمایا ایک صحابی پرندوں کے بچے اٹھا لایا تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا
اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آؤ ، سادگی ، فقر اور درویشی سے آپ ﷺ کی زندگی عبادت
تھی ، ایک بار حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں
داخل ہو ئے تو دیکھا کہ کھجور کی بنی فرشی چٹائی کے نشان کنداں ہیں اور کمرے میں
کل تین مٹی کے برتین رکھے ہیں۔ حضرت عمر آبدیدہ ہو گئے۔ عرض کی روم و ایران کے
بادشاہوں کے لیے ریشم اور مخمل کے بچھونے ہوں اور سرکار دو جہاں ﷺکے لیے کھجور کی
یہ چٹائی ؟ فرمایا عمر کیا تم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے صرف دنیا کی نعمتیں ہوں اور
ہمارے لیے آخرت کی ، لیکن اس حالت میں بھی
کمرے کی دیوار سے نو تلواریں لٹکی تھیں سخاوت کی عادت مزاج مبارک کا لازمی حصہ تھا
، باغات کی آمدن سے مسجد نبوی کا صحن بھر جاتاتھا اور کل مال تقسیم فرما دیتے اور
گھر جا کر پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟
تو جواب میں انکار ملتا تھا اور بھوکے پیٹ سوجاتے تھے۔
مردوں ے لیے سونا ، ریشم اور مخمل سے بھی آپ نے منع فرمایا ، رات عشاء کے بعد جلد
سو جانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے
تھے ، جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں
بھی معمولات نبوی عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment