Kala Bag Dam Issue or Propaganda - Gul G Computer

For Motivations,Information, Knowledge, Tips & Trick,Solution, and Small Business idea.

test

Saturday, June 5, 2021

Kala Bag Dam Issue or Propaganda

Kala Bagh Dam Issue

Kala Bag Dam Issue or Propaghanda

In this articale, I have tried to fully expose the reasons for the non-Construction of the Kala Bagh Dam and the internal and external conspiracies. 

اس.سے پہلے کہ ہم کالا باغ ڈیم کے تنازعے پر بات کریں، کچھ بنیادی باتوں کو بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔ انہی باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آج دشمن ہم پر کاری ضربیں لگارہا ہے۔

1۔ جھوٹ اور پراپیگنڈہ جدید دور کی جنگوں میں دشمن کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ بڑی بڑی جنگیں صرف پراپیگنڈے کے ہتھیار سے ایک گولی چلائے بغیر جیتی جاسکتی ہیں، اور آج ہمارے خلاف دشمن کا یہ سب سے موثر ہتھیار ہے۔

2۔ پاکستان کے خلاف جو ایک بہت بڑا ہتھیار بھارت اور ہمارے دشمن استعمال کررہے ہیں، وہ پانی ہے۔ صرف ہمارا پانی روک کر وہ پاکستان کواس طرح تباہ کرسکتے ہی کہ جیسے ایٹمی جنگ میں۔ جب پانی رکتا ہے تو پاکستان کی خوراک تباہ ہوتی ہے، بجلی بنانے کی صلاحیت تباہ ہوتی ہے، صنعت و معیشت تباہ ہوتی ہے، ملک میں خانہ جنگی پیدا ہوتی ہے، صوبوں میں باہمی اختلافات اور جھڑپیں شروع ہوتی ہیں اور پھر وہ ہوتا ہے کہ جو یوگو سلاویہ میں ہوا اور آج شام میں ہورہا ہے۔

3۔ ایک قائدہ یاد رکھیں، کہ جس منصوبے کو روکنے کیلئے بھارت اپنی تمام طاقت کو جھونک دے، جس کو اسفندیار ولی اور محمود اچکزئی جیسے غداران وطن روکنے کیلئے دھمکیاں دیں، توسمجھ جائیں کہ وہ منصوبہ پاکستان کی سلامتی اور بقاءکیلئے لازم و ملزوم ہے۔کالا باغ ڈیم سی پیک سے بھی زیادہ پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ اسی لیے اس کی مخالفت بھی سی پیک سے بھی زیادہ ہورہی ہے۔

ان تین قائدوں کو بیان کرنے کے بعد اب ہم کالا باغ ڈیم کے تنازعے کی تفصیلات میں آتے ہیں۔

کالا باغ ایک قدرتی پہاڑی سلسلہ ہے کہ جس کے درمیان سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ کالا باغ کے فوراً بعد پاکستان کے میدانی علاقے شروع ہوجاتے ہیں، لہذا قدرتی طور پر کالا باغ ایک بنا بنایا ڈیم ہے، کہ جس کے دونوں جانب اونچے پہاڑ ہیں۔ اس مقام پر دریا کے آگے صرف دیوار بنا کر ڈیم بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے قلب میں ہونے کی وجہ سے یہاں تک رسائی بہت آسان ہے، بھاری مشینری، افرادی قوت اور سازو سامان بغیر کسی دقت کے منصوبے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس سے آگے میدانی علاقہ ہونے کی وجہ سے ڈیم سے کئی نہریں نکال کر پورے ملک میں پھیلائی جاسکتی ہیں۔ دریائے سندھ کے آس پاس آٹھ لاکھ ایکڑ اراضی اس سے سیراب ہوگی، تقریباً تربیلا اور منگلا جتنا پانی اس میں ذخیرہ ہوگا، اگر بجلی پیدا کرنے والے ٹربائنوں کی تعداد بڑھائی جائے تو صرف اس مقام پر 6 ہزار میگاواٹ سے زائد انتہائی سستی پن بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ غازی بروتھا کے طرز پر نہریں نکال کر اور مقامات پر بھی بجلی پیدا کی جائے تو یہ ہزاروں میگاواٹ تک مزید بڑھائی جاسکتی ہے، کہ جس کی قیمت تقریباً 2 روپے فی یونٹ ہوگی۔ صرف زرعی شعبے اور خوراک کی پیداوار میں اس ڈیم سے ہونیوالی آمدنی 100 ارب روپے سال سے زیادہ متوقع ہے۔ بجلی سے ہونیوالی آمدن اور کمائی اس کے علاوہ ہے۔ پانی کی جھیل مچھلیوں کی افزائش اور سیاحت کیلئے موزوں ترین۔

تربیلا اور منگلا ڈیم جو 60 ءکی دہائی میں بنائے گئے تھے اور جن کے اوپر آج تک پورا پاکستان چل رہا ہے، اب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکے ہیں۔ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اپنے آغاز سے لیکر آج تک انتہائی کم ہوچکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج نوے فیصد سے زائد ہمارا ذخیرہ کرنے والا پانی ضائع ہو کر سمندر میں جارہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں آنے والے تمام دریاں پر بھارت نے ڈیم بھی بنا لیے ہیں۔ ہولناک آبی قلت اب ایک حقیقت بن کر پاکستان کی پوری سلامتی کیلئے شدید ترین خطرہ بن چکی ہے۔ صرف پاکستان دشمنی، جھوٹ اور پراپیگنڈے اور حکمرانوں کی نا اہلی تھی کہ جس کے باعث پچھلے 40 برس میں منگلا یا تربیلا کی طرز پر کوئی ایک بھی ڈیم نہیں بنایا جاسکا۔

دیامیر بھاشا ڈیم کسی صورت میں بھی کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ ایک تو وہ پاکستان کے شمال میں جس بلندی پر ہے وہاں تک رسائی ہی مشکل ترین امر ہے۔ ڈیم تعمیر کرنے سے پہلے وہاں تک پہنچنے اور بھاری مشینری پہنچانے کیلئے ہی اتنے پہاڑ کاٹنے پڑیں گے کہ یہ امر محال بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ اس کے علاوہ بھاشا ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکالی جاسکتی کیونکہ علاقہ سارا پہاڑی ہے اور کوئی علاقہ یا کھیت اس سے سیراب نہیں کیا جاسکتا۔ بھاشا ڈیم اگر بن بھی جائے تو اس میں پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، بجلی بنائی جاسکتی ہے، مگر ایک ایکڑ اراضی بھی کاشت کاری کیلئے میسر نہیں ہوگی۔……………………….

اب ہم ایک ایک کرکے ان تمام اعتراضات کا جواب دینگے کہ جو کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اب تک کیے جاتے رہے ہیں۔

پہلا اعتراض: پاکستان کی دو صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کو مسترد کردیا ہے۔ لہذا اب اس کو کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

دوسرا اعتراض: اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو اس سے نوشہرہ، چارسدہ اور پشاور ڈوب جائے گا۔

تیسرا اعتراض: اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو اس سے سندھ بنجر ہوجائے گا۔

چوتھا اعتراض: ڈیم بنانا ہی کیوں ضروری ہے، کہیں اور کیوں نہیں بنا لیتے؟

آئیے اب ان اعتراضات کو ایک ایک کرکے ادھیڑتے ہیں۔

یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ پاکستان کے دو صوبوں نے اس ڈیم کی مخالفت نہیں کی، صرف دو سیاسی جماعتوں نے کی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں سرحد اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں سے اس ڈیم کے خلاف قرارداد پاس کروائی، اور دونوں ہی کی وجوہات جھوٹ، پراپیگنڈے، خرافات اور پاکستان دشمنی پر مبنی تھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے مختلف اعتراضات کیے۔

Kala Bag Dam Issue


عوامی نیشنل پارٹی

عوامی نیشنل پارٹی کا اعتراض یہ تھا کہ اس سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔

پیپلز پارٹی

پیپلز پارٹی کا اعتراض یہ تھا کہ سندھ بنجر ہوجائے گا۔ دونوں نے ہی نہ کوئی دلائل دیئے، نہ کوئی تکنیکی ثبوت پیش کیے، نہ ہی کوئی دوسرا حل پیش کیا اور نہ ہی پاکستان کو پیش آنے والے اس بحران کے خلاف آواز اٹھائی۔ دونوں ہی کے اعتراضات شرمناک بدنیتی اور پاکستان دشمنی پر مبنی تھے۔ آئیں اب آپ کو بتاتے ہیں کیسے؟پاکستان کی تاریخ میں جتنا تجزیاتی اور تحقیقی کام قومی اور غیر ملکی اداروں نے کالا باغ ڈیم پر کیا ہے وہ کسی اور ڈیم پر نہیں ہوا۔ اربوں روپے کی لاگت سے اس کی تعمیری روپوٹیں تیار کی گئی ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے بہترین دماغ اور سائنسدانوں نے ان پر کام کرکے اپنی رائے دی ہے اور کالا باغ کے مقام کو ایک بڑا ڈیم بنانے کیلئے موزوں ترین قرار دیا ہے۔

اب خود عقل سے کام لیں، کیا پاکستان کے انجینئروں اور سائنسدانوں کا دماغ خراب ہے کہ وہ ایسا ڈیم ڈیزائن کریں گے کہ جو نوشہرہ، چارسدہ اور پشاور کو غرق کردے؟ خان عبدالغفار خان، ولی خان اور اسفندیار ولی ملک و قوم و ملت کے پکے ثابت شدہ غدار اور مشرکوں کے ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے پاکستان بننے کی بھی مخالفت کی، تو کیا ہم پاکستان نہ بناتے؟ انہی کی وجہ سے صوبہ سرحد سے ریفرنڈم کرانا پڑا کہ کیا آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں۔ ان کی بے شرمی اور بے غیرتی اس حد تک تھی کہ یہ پاکستان کے صوبہ سرحد کے غیور پشتونوں کو ہندوں کا غلام بنانے جارہے تھے۔ آج یہ حرام خور منظور پشتین کی پوری تحریک کی حمایت کررہے ہیں۔ ساری زندگی پشتونستان بنانے کیلئے پاکستان کی پیٹھ میں خنجر مارتے رہے۔ تو جب ان جیسا ناپاک گروہ ایک فحش پراپیگنڈہ کرے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ اور پشاور ڈوب جائے گا تو ذرا ہوش سے کام لیکر غور کریں کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے؟

کالا باغ ڈیم کی لمبائی چوڑائی ، اور اونچائی کتنی بنتی ہے؟

کالا باغ کے مقام سے دریائی راستے سے اٹک تقریباً 95 میل دور ہے۔ جب دریا کے آگے ڈیم بنایا جاتا ہے تو ڈیم کے پیچھے ایک پانی کی جھیل بننا شروع ہوجاتی ہے۔ اس جھیل کی گہرائی اور پیچھے تک لمبائی کا تعلق ڈیم کے آگے بنائی گئی دیوار کی اونچائی سے ہوتا ہے۔ جتنی اونچی دیوار ہوگی اتنی ہی گہری اور لمبی جھیل پیچھے بنتی جائے گی۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کی جھیلیں بھی کئی کئی کلومیٹر پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح کالا باغ کی جھیل بھی تقریباً 50 میل پیچھے تک جائے گی، جبکہ کالا باغ سے اٹک تک کا فاصلہ 95 میل ہے اور نوشہرہ تو اس سے بھی پیچھے ہے۔ اگر کالا باغ کی جھیل مکمل بھی بھری ہو تب بھی اس کی سطح نوشہرہ سے 60 فٹ نیچے رہے گی۔ تکنیکی طور پر اس جھیل کی وجہ سے نوشہرہ کا ڈوبنا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود جاہلوں کی تسلی کیلئے رپورٹوں میں یہ بھی گنجائش رکھی گئی تھی کہ ڈیم کی اونچائی کو مزید کم کردیا جائے کہ جس سے جھیل کی گہرائی اور پیچھے لمبائی مزید کئی میل کم ہوجائے گی۔ اس فحش اور جھوٹے اعتراض کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے پاس اس ڈیم کی مخالفت کرنے کی اور کوئی دوسری دلیل سرے سے ہے ہی نہیں۔

Kala Bag Dam Issue


بھارت کی سازش

اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ بھارت افغانستان میں دریائے کابل پر بھی ڈیم بنارہا ہے کہ جس کا مقصد پاکستان میں دریائے کابل کے بہائوں کو ممکمل مکمل طور پر روکنا اور بارشوں کے وقت میں اچانک پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔ نوشہرہ چند برس پہلے ڈوب چکا ہے، اور اس کی وجہ کالا باغ ڈیم نہیں، ولی خان اور اسفندیارولی کے بھائی ہندو مشرکوں کی وہ شرارت تھی کہ جو انہوں نے دریائے کابل پر افغانستان کے راستے کی، مگر آپ ان حرام خوروں کو کبھی اپنے ہندو بھائیوں کے خلاف بولتے نہیں سنیں گے۔……………………….

اب آئیں پیپلز پارٹی کے اعتراض کی جانب۔ ولی خان گروہ تو کھلم کھلا پاکستان دشمنی میں اس ڈیم کی مخالفت کررہا ہے، مگر پیپلز پارٹی کے اس ڈیم کے مخالفت کرنے کی وجہ اس قدر شرمناک ہے کہ انسان کو ابکائی آجائے۔آئیں آپ کو تفصیل بتاتے ہیں۔پیپلز پارٹی نے سندھ کے ان پڑھ اور سادہ عوام کو یہ کہہ کر بیوقوف بنایا کہ اگر یہ ڈیم بن گیا تو پنجاب سندھ کا سارا پانی لے جائے گا اور سندھ بنجر ہوجائے گا، اور اس سے سمندر کا پانی سندھ میں چڑھ آئے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی اپنے اس شرمناک پراپیگنڈے کا نہ کوئی ثبوت دیا، نہ دلیل، کیونکہ کچھ تھا ہی نہیں۔ صرف فحش جھوٹ! مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سندھ نے یہ اعتراض ہی نہیں کیا کہ اس ڈیم کے نتیجے میں نوشہرہ اور پشاور ڈوب جائیں گے، کیونکہ وہ بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ تکنیکی بنیادوں پر وہ اس الزام کا دفاع نہیں کرپائیں گے۔ ایسے بے شرم صرف ولی خانی ہی ہیں کہ جو بغیر کسی ثبوت و دلیل و تحقیق کے نوشہرہ ڈوبنے کا ماتم کرتے ہیں۔

Kala Bag Dam Issue


منگلا اور تربیلا ڈیم

ایک لمحے کیلئے یہ سوچیں کہ کیا منگلا اور تربیلا ڈیم بننے سے سندھ بنجر اور ویران ہوگیا، یا خوشحال ہوا؟ منگلا اور تربیلا ڈیم کی بجلی صرف پنجاب نے کھائی یا پورا پاکستان خوشحال ہوا؟ منگلا اور تربیلا ڈیم کی زرعی نظام سے پیدا ہونے والی خوراک صرف پنجاب نے کھائی یا پورا پاکستان خوراک میں خودکفیل ہوا؟ جب منگلا اور تربیلا کا پانی ایک نظام کے تحت سندھ اور پنجاب میں تقسیم ہورہا ہے تو کالا باغ کا سارا پانی پنجاب کیسے ہڑپ کرلے گا؟ جب پچھلے پچاس برس سے ایک نظام پاکستان کی خوشحالی کا ضامن ہے تو اچانک بیٹھے بٹھائے ضائع ہوتے ہوئے پانی کا ذخیرہ بنانے سے سندھ کیسے بنجر ہوجائے گا؟

ایک معمولی سا شعور رکھنے والا پاکستانی مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس ڈیم پر صرف سیاست کررہی تھی، سندھ کارڈ کھیل رہی تھی، اپنا ووٹ بینک بنارہی تھی، اور زرداری اپنی اصل حرام کی کمائی بچارہا تھا کہ جس کی تفصیل اب ہم آپ سے بیان کریں گے۔

جنرل ضیاء کے دور میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر

جنرل ضیاءکے دور میں کالا باغ ڈیم کی مکمل رپورٹیں تیار ہوچکی تھیں۔ اس ڈیم پر کام بھی شروع ہونیوالا تھا مگر جنرل ضیاءکی شہادت کی وجہ سے سارا کام وہیں رک گیا۔ آنے والا دور پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے درمیان پوری قوم کا بیڑہ غرق کرتے ہوئے گزرا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نوے کی دہائی میں زرداری کے خلاف جو سب سے بڑا سیکنڈل بنا تھا وہ آئی پی پیز کا تھا، یعنی ”پرائیویٹ بجلی گھر“، کہ جن کے ٹھیکے زرداری نے اس دور میں دیئے تھے۔ یہ پرائیویٹ بجلی گھر آج بھی دنیا کی مہنگی ترین بجلی پیدا کرتے ہیں کیونکہ یہ پٹرول سے چلتے ہیں۔ ان کو چلانے کیلئے اربوں ڈالر کا پٹرول ہر سال پاکستان کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے آپ نے ایک اصطلاح اور بھی سنی ہوگی ”گردشی قرضے“۔ یعنی اربوں ڈالر خرچ کرکے آپ دنیا سے پٹرول امپورٹ کریں، پھر یہ پٹرول جلا کر دنیا کی سب سے مہنگی بجلی 16 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیدا کریں، ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کردیں، جب اتنے مہنگے پٹرول کی قیمت ملک نہ ادا کرسکے تو قرضے پر بجلی بنائیں، کہ جس سے گردشی قرضے ملک کی کمر توڑتے رہیں، یہ ہے سارا خیانت اور فراڈ کا نظام کہ جوز رداری نے قائم کیا تھا، اور آج بھی وہی اس کو چلا رہا ہے۔

اس سارے فراڈ میں آج تک زرداری اپنا کمیشن کھارہا ہے!!!

یہ ہے وہ اصل وجہ کہ یہ حرام خور کا بچہ کالا باغ ڈیم کے خلاف قرارداد پاس کرواتا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو ہر سال پانچ ارب ڈالر کا تیل امپورٹ کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی، اس کے اربوں ڈالر کے کمیشن مارے جاتے۔ آپ نوٹ کریں گے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے ڈاکو دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو پاکستان اسٹیٹ آئل PSO کا چیئرمین لگایا تھا۔ غور کریں کیوں؟ اس لیے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں اصل مال بنایا جاتا ہے۔ آپ PSO سے ریکارڈ نکلوالیں، جتنے بڑے بڑے بحری جہاز تیل لیکر پاکستان آتے ہیں، ان میں پیپلز پارٹی کی پوری قیادت کا حصہ ہوتا ہے۔ زرداری کا دماغ خراب نہیں ہے کہ16 روپے یونٹ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو چھوڑ کر 2 روپے یونٹ بجلی پیدا کرنے والے کالا باغ ڈیم کی حمایت کرے۔ اس کی ایک پکی آمدنی لگی ہوئی ہے، تیل کی خریداری میں بھی اور مہنگی بجلی سے بھی۔

اگر مسئلہ سندھ کے پانی کا ہوتا اور یہ اس پر اپنی نیندیں حرام کررہے ہوتے تو ان کو سب سے زیادہ احتجاج تو نریندر مودی کے خلاف کرنا چاہیے تھا کہ جس نے پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاں پر سینکڑوں ڈیم بنا کر پانی کا بھا تقریباً روک دیا ہے۔ اب کشن گنگا ڈیم بھی بنایا جارہا ہے، کہ جو دریائے نیلم کو بھی بند کردے گا، مگر آج تک آپ نے زرداری کے حلق سے بھارت کی جانب سے سندھ اور پاکستان کا پانی روکنے پر ایک آواز نہیں سنی۔ وجہ اب آپ کو معلوم ہوئی ہے کہ یہ حرامخور سندھ کے پانی کیلئے پریشان نہیں تھے، اپنے پرائیویٹ بجلی گھروں اور تیل کی آمدن میں کمی کے خوف سے کالا باغ ڈیم کے مخالف تھے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

Kala Bag Dam Issue


کالا باغ کے علاوہ اور بھی تو جگہیں ہیں جہاں ڈیم بنا سکتے ہیں۔

اب آخری سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ صرف کالا باغ ہی کیوں؟ ملک میں اور بھی تو بہت سارے مقامات ہونگے ڈیم بنانے کیلئے۔ اس کا بنیادی جواب تو ہم اوپر دے ہی چکے ہیں۔ اس ڈیم کی تعمیر کی بنیادی رپورٹیں بنانے پر ہی اس قوم نے اپنے تیس برس لگا دیئے، اربوں روپے خرچ کردیئے، اور تمام تر توجہ جنرل ضیاءکے دور سے اسی ڈیم کی تعمیر پر مرکوز تھی۔ اس کا کاغذی اور تکنیکی کام مکمل ہے۔ اس کو فوری شروع کیا جاسکتا ہے۔ اگر آج بھی اس ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے تو مکمل ہونے میں پانچ برس لگیں گے۔ جو وقت ضائع ہوچکا ہے اس کا کفارہ اب بھوک، پیاس ، گرمی اور معیشت کی تباہی کی شکل میں پوری قوم کو دینا ہی پڑے گا۔ اورا سکے مرکزی ذمہ دار دو غدار ہیں، اسفندیار ولی اور آصف زرداری!!!

کسی بھی اور ڈیم کی تعمیر کیلئے ابتدائی رپورٹوں سے لیکر مکمل ہونے تک دس برس کا عرصہ لگ جائے گا۔ ملک میں جس طرح پانی کا قحط پڑتا جارہا ہے، جس تیزی سے بھارت ہمارے دریاں کا پانی بند کررہا ہے، اور جس تیزی سے ملک کی معیشت تباہ ہوتی جارہی ہے، خوراک کی قلت پیداہورہی ہے، ان سب باتوں کے تناظر میں ہمارے پاس کوئی راستہ اور نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم فوری طور پر کالا باغ ڈیم پر کام شروع کریں۔ جتنا دیر کریں گے، اتنا ہی اللہ ہمیں خوف اور بھوک کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔عمران خان کو ایک سنہری موقع ملا تھا کہ جس طرح عوامی نیشنل پارٹی نے اس ڈیم کی مخالفت میں قرارداد پیش کی تھی، تحریک انصاف اس کی حمایت میں پیش کردیتی۔ مگر ملک و قوم کی بدنصیبی کہ پرویز خٹک بھی ایک جاہل اور اس معاملے میں اسفندیار ولی کا حمایتی ہے۔

سیاسی لفنگے سی پیک پر کیوں خاموش

آپ نے سی پیک کے معاملے پر بھی دیکھا کہ کس طرح اس کو متنازعہ بنانے کیلئے ملک میں بھرپور جھوٹ اور پراپیگنڈے کی مہم چلائی گئی۔ کبھی سڑکوں کے روٹ پر تنازعہ، کبھی اپنے حصے پر تنازعہ، کبھی پیسوں پر تنازعہ۔۔۔ مگر چونکہ اس منصوبے کے پیچھے چین کا زور اور پاک فوج کا ڈنڈا تھا، تو سارے سیاسی لفنگے ایک ایک کرکے چپ ہوتے گئے اور اب اس لوٹ مار میں اپنا اپنا حصہ نکال رہے ہیں۔ عوام الناس سے تو نہ پہلے کسی نے پوچھا نہ بعد میں۔ آج تک پاکستان کا کونسا ایسا پراجیکٹ ہے کہ جس میں عوام سے رائے لی گئی ہو؟ سارے فیصلے سیاستدان خود کرتے ہیں، خود ہی جھوٹ بولتے ہیں، خود ہی پراپیگنڈہ کرتے ہیں، خود ہی کمیشن کھاتے ہیں،خود ہی مسئلے کا حل بھی نکالتے ہیں اور خود ہی لوٹ مار بھی کرتے ہیں۔

سندھ کے سادہ لوح عوام کو اور صوبہ سرحد کے غیور پشتونوں کو صرف دھوکہ دیا گیا ہے، اور دھوکہ دینے والے بھی وہ ہیں کہ جو ہزار دفعہ آزمائے جاچکے ہیں کہ ملک و قوم و ملت و دین کے دشمن و غدار ہیں۔ اس کے باوجود اگر قوم اور حکومت انہی غداروں کی مرضی پر پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرے تو پھر اس قوم کو اللہ سے اپنی تقدیر کا شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔

یہ قوم بہت اچھی طرح اس بات کو سمجھ لے، گزشتہ کئی دہائیوں کی لرزہ خیز غلطیوں کا اب بہت سخت کفارہ بھگتنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نہ اسفندیار ولی کی دلیلیں سنے گا، نہ زرداری کی تقریریں۔ وہ صرف اس قوم کو کفرانِ نعمت پر ایک دردناک عذاب دے گا۔ آج کراچی کے لوگ اسی زرداری اور الطاف حسین کی وجہ سے بجلی اور پانی کے جس عذاب سے گزررہے ہیں وہ صرف ایک جھلک ہے اس عذاب کی کہ جو جلد اس پوری قوم پر آنے والا ہے۔ اس وقت آپ کو ان بقراطوں کی دلیلیں نہیں، صرف عوام کی چیخیں سنائی دیں گی۔ ظالمو! ابھی بھی وقت ہے، توبہ کرلو، اپنی اصلاح کرلو، اللہ نے یہ تحفہ جو پاک سرزمین کی شکل میں دیا ہے، اس کی قدر کرلو!!!اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو، اللہ پاکستان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کرے، اللہ کالا باغ ڈیم کے مخالفوں کو دنیا و آخرت میں رسوا کرے۔

لبیک یا سیدی یا رسول اللّه ﷺ

تو سلامت وطن

تا قیامت وطن

پاکستان کا بیٹا


Motivations, Information, Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea, News, Article, Islamic, Make Money, How to, Urdu/Hindi, top, Successes, SEO, Online Earning, Jobs, Admission, Online,

No comments:

Post a Comment