Laylat al-Qadr | Nafl For Shab-e-Qadr | Shab e Qadar Nawafils
Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning
مدینہ منورہ کی
خوب صورت ، حسین ، روح پرور ، شبنمی رات کا ایک پہر گزر چکا ہے۔ شعبان المعظم کی
پندرہویں شب کا روشن اور پورا چناد اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھلملاتے چمک
وار ستاروں کے جھرمٹ میں دنیائے عرب کے شفاف نیلے اسمان پر رونق افروز ہے۔ جس کی
سنہری کرنوں نے مسجد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم سمیت پورے شہر
مدینہ کو منور کر رکھا ہے۔ آج خلافِ معمول آسمانوں پر بھی بڑی چہل پہل ہے۔ امام
الانبیاء رحمت دو جہان سرور کائنات ، حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ
واصحابہ وسلم ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حجرے میں محو
استراحت ہیں۔ اچانک حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نہایت آہستگی سے بستر سے اٹھتے ہیں۔ محتاط اندز
مٰن دروازے کی جانب قدم رنجہ فرماتے ہین۔ اس بات کا خیال ہے کہ کہیں اہلیہ محترمہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نیند
میں خلل واقع نہ ہو، آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ دروازہ کھنے
کی آہٹ سے اماں عائشہ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ والہ
واصحابہ وسلم کو باہر جاتے دیکھتی ہیں۔ تو
ایک لمحے کو سوچ میں پڑ جاتی ہیں۔ پھر جلدی سے اپنی چادر اوڑھ کر حضور پر نور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واصحابہ وسلم کے پیچھے
تشریف لے جاتی ہیں۔ تجسس ہوتا ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحاب
وسلم رات کے اس پہر کہاں تشریف لے جا رہے
ہی۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا رخ جنت البقیع کی جانب ہے اور کچھ ہی دیر
میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم
جنت البقیع میں داخل ہو جاتے ہین۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پیچھے جنت البقیع کے دروازے تک پہنچتی
ہیں تو دیکھتی ہیں کہ شاہ دو جہاں حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم ، اللہ کے حضور دعا گو ہیں۔ دعا سے فارغ ہو کر حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم واپس پلٹتے ہیں۔
اماں عائشہ
صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم
کو واپس ہوتے دیکھا تو حضور پر نور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے
آنے سے پہلے اپنے بستر پر آکر تشریف فرما ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم جب تشریف لاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا بستر پر دراز ہیں۔ اور سانس پھولی ہوئی ہے۔
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم فرماتے ہیں اے عائشہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کیا بات ہے؟ تم گھبرائی ہوئی
کیوں ہو؟ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
خاموش رہتی ہیں ۔ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اگر تم نہیں بتائوں گی تو لطیف و خبیر (اللہ) مجھے بتا دے گا ۔ یہ سن کر سیدہ
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم ! میں یہ ( بشری تقاضے کے تحت) سمجھی کے شاید آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ
واصحابہ وسلم کسی اور زوجہ مطہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ انور میں تشریف لے جا رہے ہیں۔ یہ سن
کر حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم میٹھا میٹھا مسکرائے اور فرمایا ۔ کیا تم نے یہ
خیال کیا تھا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم ، تمہاری حق تلفی کریں گے ۔ بات یہ ہے کہ
جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ جنہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ واصحابہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کو حکم
دیتا ہے کہ جنت البقیع قبرستان جائیں اور
وہاں مدفون لوگوں کے لیے استغفار کریں۔
میں نے تمہیں ( عائشہ) جگانا مناسب نہیں سمجھا
کہ تم گھبرا جائو گی ( صحیح مسلم ، ترمذی ، مسند احمد)
شعبان ، اسلامی
قمری مہینوں میں آٹھواں مہینہ ہے۔ حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ والہ واصحابہ
وسلم نے فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔
اور رمضان اللہ کا مینہ ہے۔ شعبان کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم کا یہ فرمان اس مہینے
کی عزت و بزرگی ، قدرو منزلت ،اور عظمت و بلندی کے لیے کافی ہے۔ حضور پر نور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم ماہ رجب کا چاند دیکھ کر دعا فرمایا کرتے تھے
۔ ترجمہ ! اے اللہ ! رجب اور شعبان میں
ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور خیر اور سلامتی کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا ۔
علماء اس دعا کی
تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ ہمیں اس
بات کی توفیق عطا فرما کہ ہم ماہ رمضان المبارک کا استقبال اس کے شایان شان ،
نہایت عزت و احترام کے ساتھ کرٰن۔ جلیل القدر تابعی حضرت عطا بن یسار رضی اللہ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کے بعدشعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی
رات افضل نہیں اس شب کو شب برتا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسے لیلتہ البراۃ
بھی کہتے ہیں۔ یعنی جہنم سے نجات کی رات ، برات کی رات ، مغفرت کی رات ، یہ رات
شعبان کی چودہ تاریخ کو سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اور دوسرے روز صبح سادق
تک برقرار رہتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔
بلاشبہ اللہ تبارک تعالیٰ شعبان کی
پندرہویں شب کو آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرما
دیتا ہے۔ (ترمذی) اس زمانے میں عرب میں قبیلہ بنو کلب کے پاس سب سے زیادہ بکریاں
تھیں۔ جو اپنے کثیر بالوں کی وجہ سے مشہور
تھیں۔ چناں چہ جس طرح بکریوں کے بالوں کا
شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ شب برات میں اپنے بے شمار بندوں کی
بخشش فرما کر انہیں جنہم سے نجات عطا فرماتا ہے ۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور پر نور صلی
اللہ تعالی علیہ والہ واصحابہ وسلم نے
فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہوں شب آئے تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو ،
کیوں کہ اس رات غروب آفتاب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی اور رحمت پہلے آسمان
پر اترتی ہے۔ اور رب کریم اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کوئی ہے جو
بخشش کا طلب گار ہو جو بخشش چاہتا ۔ میں اسے بخش دوں ،کوئی ہے جو کشادگی رزق کا
خواست گار ہو اور میں اسے بے حساب رزق عطا فرمائوں ۔ جو مصیبت میں مبتلا ہو اور
میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، کوئی ہے جو صحت کا و تن و درستی کا طلب گا رہو ، اور
میں اسے شفا کاملہ آجلہ عطا فرمائوں ۔ اس طرح اللہ عزوجل تمام حاجت مندوں کا ذکر
فرما کرانہیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور یوں غروب آفتاب سے لے کرصبح صادق تک اللہ کی رحمت اپنے بندوں کو پکارتی
رہتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ
جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے
سوائے مشرک ، کینہ پرور ، قطع رحمی کرنے والا ، والدین کا نا فرمان ، شرابی اور
زانی مرد عورت ، علمائے کرام فرماتے ہیں کہ گناہ کبیرہ میں مبتلا افراد ، یتیموں ،
مسکینوں کا حق غصب کرنے والے، والدی، بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے
والے، رشوت لینے اور دینے والے ۔ ناجائز دولت سمیٹنے اور سود کھانے والے ،گانے
بجانے ، موسیقی کے دل دادہ، بے حیائی و فحاشی پھیلانے والے مرد وعورت ، زیادتی
کرنے والے، جادو گر، کاہن ،نجومی ، اور جوا کھیلنے والے ، پڑوسیوں اور لوگوں کو
ناحق پریشان کرنے والے ، ٹخنون سے نیچے لباس رکھنےوالے مرد ، غیبت ، بہتان اور
جھوٹ ، داڑھی مبارک کے ڈیزائن بنوانے والے ، عورتوں جیسا لباس اور حلیہ بنانے والے
مرد اور مردوں جیسا لباس اور حلیہ بنانے والی عورتیں اس بابرکت رات میں اللہ کے انعام واکرام اور رحمتوں کے فیضان
سے محروم رہیں گے۔ الایہ کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اللہ سے سچی توبہ کر لین اور
آئندہ گناہوں سے در رہنے کا وعدہ کر لیں۔ شب برات
میں پرو دگر عالم مغرب سے صبح فجر تک پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور
حاجب مندوں ، ضروت مندوں ، بخشش کے طلب اور معافی کے طلب گار لوگوں کا منتظر رہتا
ہے۔ فرشتے صدائین بلند کرتے ہیں کہ ۔ ہے کوئی جو آج اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہو
،ہے کوئی جو اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی کا طلب گار ہو۔ شب برات گناہوں پر
ندامت اعتراف بندگی اور دعائوں کی قبولیت کی بابرکت رات ہے کون جانے اگلے سال یہ
عظمت اور بزرگی والی رات اور یہ انمول ساعتیں نصیب بھی ہوتی ہیں یا نہیں ۔ چناںچہ
ان قیمتی لمحات کو اپنے لیے قدرت کا انعام سمجھتے ہوئے خود کر شرمندگی کے بہتے اشکوں
کے نذرانے کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کر کے اس مقدس رات کو غنیمت جانتے ہوئے
اپنے رب سے کچھ مانگ لیں جس کے خواہش مند ہیں ۔ قرآن کریم کی سورۃ الدخان میں اللہ
ارشاد فرماتا ہے کہ اس رات ہر حکمت والے کام کا ہمارے حکم سے سے فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ مفسرین نے اس کی
تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس رات پورے سال کا حساب کتا ہوتا ہے یعنی بندوں کا رزق
، ان کی اموات و پیدائش کے امور ، بیماری و تن درستی ، راحت تکالیف حالات و اقعات
، فراخی و تنگ دستی ، غرض یہ کہ تمام جملہ
امور کے احکامات الگ الگ لکھ کر تقسیم کر دیئے جاتے ہٰن اور ہر فرشتے کو اس کا کام
سونپ دیا جتا ہے جس کی روشنی میں وہ سال بھر کے ہر ہر لمحات میں نہایت سکتی سے عمل
پیرا رہتے ہین حضرت عطار بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہین کہ شعبان کی
پندرہویں شب کو اللہ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور اسے حکم
دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں ان کی روحون کو قبض کرنا ہے۔
حالاں کہ ان کا حال یہ ہوتا ہے ان میں سے کوئی بندہ باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے۔
کوئی شادی بیاہ میں مسروف ہوتا ہے کوئی مکان کی تعمیر میں، جب کہ ان سب کانام
مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ
تعالیٰ علیہ اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کے کفن
تیار ہو چکے ہوتے ہیں ۔ مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدو فروخت میں مصروف ہوتے
ہیں۔ اور اپنی موت سے غافل ہوتے ہیں۔ بہت س لوگوں کی قبریں تیار ہو چکی ہوتی ہیں
مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے کوشیاں مناتے بھرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہنستے اور
خوشیاں مناتے پھرتے ہیںحالاں کہ وہ بلت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔ (غنیتہ الطالبین)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور پر نور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کو ماہ
رمضان کے علاوہ ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہین دیکھا ۔ صحیح
بخاری/صحیح مسلم
لہٰذا شعبانکے
مہینے میں روزہ رکھنا مستحب و مستحسن امر
ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے نماز
شروع کی اور جب سجدے میں پہنچے تو سجدہ اتنا طول ہو گیا کہ میں پریشان ہو کر اٹھی اور پاس جا کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ
والہ واصحابہ وسلم کے انگوٹھا مبارک کو حرکت دی
۔ جس سے مجھے اطمینان ہو گیا اور میں اپنی جگہ لوٹ آئی۔ جب حضور پر نور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نماز
سے فارغ ہو ئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحاب وسلم نے فرمایا ۔
اے عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا ! تم جانتی ہوں کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور
اسکے رسول اللہ تعالیٰ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم ! نے فرمایا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اللہ تبارک
و تعالیٰ اس رات خاص طور پر دنیا کی جانب توجہ فرماتا ہے اور مغفرت مانگنے اور رحم
کی دعا کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے۔ حضرت ابو اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی ۔ رجب کے مہینے کی
پہلی رات ، نصف شعبان ،جمعے کی رات ، عیدا لفطر اور عید الاضحی کی رات ۔ شعبان
المعظم کی پندرہویں رات کو قبرستان اور
اپنے مرحوم والدین، عزیز و اقارب ، دوست و احباب اور دیگر جملہ مومنین کی قبروں پر
فاتحہ پڑھنا ، ایصال ثواب کرنا اور ان کے لیے دعا ئے مغفرت کرنا احادیث مبارکہ سے
ثابت ہے ۔ البتہ خواتین کا قبرستان جانا منع ہے اسی طرح قبروں پر چراغاں کرن، موم
بتیاں جلانا یا گھی کے چراغ جلانا سختی سے منع ہے البتہ پھول ،
پانی یا کسی شاخ کی ہری ٹہنی ڈالی قبروں پر ڈالی جا سکتی ہے۔
پانی یا کسی شاخ کی ہری ٹہنی ڈالی قبروں پر ڈالی جا سکتی ہے۔
کیا ہے کوئی
مغفرت کا طلب گا ر۔۔۔۔ !
حضرت عثمان بن
ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو
اللہ عزوجل کی جانب سے ( ایک پکار نے والا) پکارتا ہے۔ کیا کوئی مغفرت کا طلب گار
( ضرور تمند) کہ میں اس کی مغفرت کرو دوں؟ کیا کوئی مانگنے والا ہے۔ کہ میں اسے
عطا کرو دوں ؟ اس وقت پر وردگار عالم سے جو مانگتا ہے۔ اسے ملتا ہے۔ سوائے ، بدکار
عورت اور مشرک کے ( بہیقی /شعب الایمان 3/83 ) شعبان المعظم اسلامی سال کا آٹھواں
قمری مہینہ ہے۔ یہ رحمت مغفرت اور جہنم سے نجات کے بابرکت مہینے رمضان المبارک کا
دیباچہ سن ہجری کا اہم مرحلہ اور نہایت عظمت اور فضیلت کا حامل ہے۔ خاتم الانبیاء
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اس مہینے کی نسبت اپنی
طرف فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والیہ واصحابہ وسلم نے ارشاد
فرمایا ۔ شبعان شہری یعنی شعبان میرا مہینہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے۔ کہ ماہِ رجب کے آغاز میں
آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے۔ اللھم بارک لنافی رجب و شعبان و
بلغنا رمضان ۔ اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت پیدا فرماا اور
(خیرو عافیت کے ساتھ) ہمیں رمضان تک پہنچا۔ (ابن عساکر ) "شعبان" کی ایک
وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ "شعب" سے مشتق ہے جو اژدبام اور اجتماع
کے معنی میں آتا ہے اس بابرکت مہینے میں چوں کہ خیر کثیر کا اجتماع وتا ہے اس لیے
اسے شعبان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ایک قول یہ بیان کیا گیا ہے شعب ظہر یعنی
پشت یا پیچھے یاد رمضان میں ہونے کے معنی میں ہے ۔ چوں کہ یہ مہینہ رجب اور رمضان
کے درمیان میں ہے ۔ لہذا اسے "شعبان" کے نام سے موسوم کیا گیا۔ رسول
اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ شعبان کی عظمت اور بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے جس طرح مجھے
تمام انبیاء پر عظمت اور فضیلیت حاصل ہے۔ اس ماہِ مبارک کی پندرہویں شب کو شب رات
سے تعبر کیا جاتا ہے۔ شب برات کے کئی نام ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہے ( 1لیلتہ
الرحمتہ :۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزل کی رات 2۔ لیلتہ المبارکتہ برکتوں والی
رات 3 لیتہ البراۃ جنہم سے نجات اور بری ہونے والی رات 4 لیلتہ الصک دستاویز والی
رات ۔جب کہ عام طور پر اسے شب برات کہا جاتا
ہے شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی رات کے ہیں۔ اور برات عربی زبان کا
لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے وار نجات پانے کے ہیں اس لیے اسے شب برات کہا جاتا ہے۔
چون کہ اس مقدس راتتحمت خداوندی کے طفیل لا تعداد بند گان خدا جنہم سے نجات پاتے
ہیں اس لیے اسے شب برات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ شب برات کی فضیلت و اہمیت کے
حوالے سے جلیل القدر صحابہ ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جب شعبان کی پندہوریں شب
ہوتی ہے تو اللہ عزوجل کی جانب سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کیا کوئی مغفرت کا
طلب گار ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دون ؟ کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا
کر دوں ؟ اس وقت پر ودگار عالم سے جو مانگتا ہے اسے ملتا ہ۔ سوائے بد کار عورت
مشرک ہے۔ بہیقی / شعب الایمان ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب عشبان کی پندرہویں شب ہوتی
ہے توا للہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ ور کے سب مغفرت فر ما دیتا ہے۔ ( بہار
شریعت) حضرت ابو تعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ تعالی
علیہ والہ واصحابہ وسلم نے ارشاد
فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ( شب برات) ہوتی تو اللہ
اپنی مخلوق پر نظر دال کر اہل ایمان کی مغفرت فرما دیتا ہے کافروں کو مہلت دیتا ہے
اور کینہوروں کو ان کے کینے کی وجہ سے چھوڑ دیتا تا وقت یہ کہ وہ توبہ کر کے کینہ
وری چھوڑدیں ( فتویٰ رضویہ ) مختلف روایات میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ بے شمار بد نصیب افراد ایسے ہیں کہ وہ اس بابرکت
رات کی عظمت و فضیلت اور قدر منزلت سے دور رہتے ہیں اور اللہ عزوجل کی بخشش ورحمت سے محرورم رہتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ
کی نظر عنایت نہیں ہوتی و ہ بد نصیب افراد یہ ہیں۔
مشرک ، جادو گر
، کاہن اور نجومی ، ناجائز بضغ اور کینہ رکھنے والے والا، جلاد ، ظلم سے ناجائز
ٹیسک وصول کرنے والا ، جوا کھیلینے والا ، گانے بجانے والا ، اور اس میں مصروف رہن
والا ۔ ٹخنوں سے نیچے شلوار ، پاجامہ تہہ بند وغیرہ رکھنے والا ، زانی مرد و عورت
، والدین کا نافرمان ، شراب پینے والا اور اس کا عادی ۔رشے داروں اور اپنے مسلمان
بھائیوں سے ناحق قطع تعلق رکھنے والا ، داڑھی کے ڈائزئن بنوانے اور داڑھی کی بے
حرمتی کرنے والا ( خشختی داڑھی والا) علماء محدثین کے مطابق شب برات کی فضیلت
لیلتہ القدر کے بعد ہے یعنی شب قدر سے کم ہے
تاہم اس کی فضیلت اور قدر منزلت سے انکار کرنا کسی بھی طرح درت نہیں۔ حضرت
عطا ء بن یسار فرماتے ہیں لیلتہ القدر کے بعد شعبان کی پند رہویں شب سے زیادہ کوئی
رات افضل نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اس رات میں ہر حکمت والا
معاملہ ہماری پیش سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے (سورۃ دخان) یعنی اس رات پورے سال
کا حال قلمبند ہوتا ہے رزق ، بیماری ، تن
درستی ، فراخی ، راحت تکلییف ، حتی کہ ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا یا مرنے
والا ہو ۔ اس کا مقرر وقت بھی اسی شب لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور پر نور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم
نے ارشاد فرمایا ۔
(اے عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا ) کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں
کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ
واصحابہ وسلم اس شب کیا ہوتا ہے۔ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی انسان یدا ہونے والے ہیں۔ ان سب
کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جتنے اس سال فوت ہونے والے ہیں۔ ان تمام کے متعلق
بی لکھ دیا جاتا ہے۔ اسی شب تمام بندوں کے سارے سال کے اعمال اٹھانے جاتے ہیں۔ اور
اسی رات لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔ ( مشکوۃ)
حضرت عطا بن
یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک املوت
کو دے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے ان کی روحون
کو قبض کرنا۔ اس وقت حال یہ ہوتا ہے کہ
کوئی بندہ تو باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے۔ کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے۔
کوئی مکان کی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے۔ حالانہ ان کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا
جاتا چکا ہے۔
حضرت شیخ القدر
جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ بہت سے
لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہیں۔ مگر وہ ابی تک بازاروں میں خریدوں فروخت مین مصروف ہوتاے ہینَ اور اپنی
موت سے غاٖل ہیں بہت سے لوگوں کی قبریں کھد کر تیار ہو چکی ہیں مگر ان مین دفن
ہونے والے غفتلت سے کوشیاں مناتے پھر تے ہیں۔ حالانہ وہ بہت جلد ہالک ہونے والے
ہین۔ (غنیتہ الطالبین) اس بابرکت رات کی مقدس گھڑیوں می جو چودہ شعبان کے سور ج غروب ہونے سے شروع ہوتی
اور پندرہ شعبان کی صبح صادق ہونے تک رہتی ہے۔ بارگاہ رب العزت کی رحمت و مغفرت کا
ابرکرم خوب جم کر برستا ہے۔ ام المومنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا ایک رویت ہے۔ کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ بلا شبہ اللہ
تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب اسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ اور قبیلہ
بنو کلب کی بکریون کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ ( ترمذی)
۔ قبیلہ بنو کلب کو خاص شہرت حاصل تھی ۔ اس قبیلے کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں۔
بعض محدثین اور سیرت نگاروں نے یہ بھی بیاں کیا ہے کہ بنو کلب کی بکریاں بالوں کی
کثرت کے حوالے سے خاص طور پر مشہور تھیں۔ ایک بکری جسم پر بالوں پر بالوں کا شمار
جس طرح ممکن نہیں۔ اسی طرح اللہ رب العزت اس مقدس شب بے شمار بندوں کی مغفرت فرما
کر انہیں ۔ بخشش اور جنہم سے نجات کا پروانہ عطا فرماتا ہے۔
ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ واصحابہ وسلم اس مقدس شب یہ دعا
فرماتے تھے۔ اے اللہ میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیری سزا سے اور تیری رضا کی
پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے غصے اور ناراضی سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے یا
اللہ میں آپ کی تعریف شمار نہیں کر سکتا ۔ آپ کی ذات ایسی ہی بلند و بالا ہے۔
جیسے آ نےخود فرمایا ۔
Motivations,Information,Knowledge, Tips & Tricks, Solution, Business idea,News,Article,Islamic, Make Money,How to,Urdu/Hindi, top,Successes,SEO,Online Earning
No comments:
Post a Comment