حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جنہیں دربار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے آمین الامت کا خطاب ملا
بدر کے میدان میں گھمسان کا رن جاری تھا یک ہزار سے زائد کفار مکہ کے مقابلے میں 313 نہتے اور بے سرو سامان مجاہدین کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہاتھ میں تلوار لیے دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔ گھوڑے کے سامنے جو بھی آ جاتا گاجر ، مولی کی طرح کٹتا چلا جا تا ۔ کسی مشرک میں اتنی ہمت نہ تھی کہ سر پٹ ، بر ق رفتار گھوڑے کے اس جری شہسوار کی بر قی شمشیر کے سامنے آنے کی جرات کرتا ۔ اہل قریش حیران و ریشان بھی تھے اور خوف و گھبراہٹ کا شکار تھی ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ کفار مکہ کی صفوں میں بجلی سی رفتار سے قہر الہی بن کر ٹوٹ پڑے ان کے برق رفتار انو کھے حملوں نے دشمن کی صفوں میں بھگڈر مچا دی ۔کفار کے جنگجو ، برہنہ شمشیر کے ساتھ انہیں گھوڑے پر سوار آتا دیکھتے ، تو تتر بتر ہو کر راستے سے ہٹ جاتے اس مرتبہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمن کی صفوں کے آخری کونے سے واپس پلٹے ہی تھے کہ اچانک ان کے راستے میں قریشن کا ایک ادھیڑ شخص تلوار لیے حائل ہو گیا ۔ جیسے ہی ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریب آئے ۔ اس نے ان پر بھر پور وار کر دیا ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حیرانی اور تعجب سے اس شخص کو دیکھا ، وار کو اپنی تلوار سے روکا اور اس کے سامنے سے ہٹ کر آگے بڑھ گئے۔ دوسری مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا، ان کے راستے میں وہ بوڑھا تلوار لیے کھڑا تھا ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر اسے دیکھا اور اس سے پہلو تہی کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔ بار بار ایساا ہی ہوتا رہا ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص پر حملہ کرنے سے گریزان تھے جب کہ وہ ہر مرتبہ حملہ کر کے مقابلے کی دعوت دیتا رہا ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوڑھے کی اس متواتر اشتعال انگیزی سے پریشان تھے چہرے پر پسینے کے آثار نمایا ں تھے ۔ ایسےمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ سے دعا مانگی ۔ اے معبود بر حق ۔اے رب العالمین ! مجھے اس امتحان میں کام یابی عطا فرما اور مجھ میں وہ قوت اور ہمت عطا فرما کہ تیری راہ میں بڑے سے بڑا فیصلہ کرنے سے بھی دریغ نہ کروں ۔ دعا کے بعد دوبارہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے ۔ تو اس مرتبہ بھی حسب توقع وہ بوڑھا راستے کو دیوار بنا کھڑا تھا اور باقی تینوں طرف سے کفار نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھیر لیا ۔ گھوڑے کے سامنے کھڑے شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھر پورا وار کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وار کو اپنی تلوار سے روکا ۔ آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دشمن کے خون کی پیاسی تلوار ، سورج کی تیز کرنوں میں چمکتی ہوئی بجلی کی طرح لپکی اور راہ میں
حائل شخص کے سر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی گردن تک چیر گئی ۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ غیظ و غضب مین بپھرے ، کفار کے سر قلم کرتے ان کے جسموں کو ادھیڑ تے ، دشمن کےنرغے سے باہر نکل آئے قریش انگشت بد نداں تھے۔ قریش انگشت بد نداں تھے۔ سردار قریشن، ابو جہل ، دورکھڑا یہ منظر کر پریشان تھا ۔ شیطان اپنے سر پر خاک ڈال کر آہ و بکا میںمصروف تھا ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لاکھ پہلو تہی اور نظر انداز کرنے کے باوجود بالآخر اسلام کی راہ میں آنے والے اپنے مشرک والد کا سر قلم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اصل رشہ خون کا نہیں۔ بلکہ اسلام کا ہے۔ دراصل اس وقت ان کے سامنے اپنے والد کا نہیں بلکہ والد کے راپ میں ایک کافر مشرک کا ہیولا تھا۔ کہ جسے ختم کر کے انہوں نے رہتی دنیا تک لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی محبت ہر چیز پر افضل ہے۔ اسلامی تاریخ ، اس طرح کےبے شمار ایمار افراز واقعات سے
بھری پڑی ہے ۔
No comments:
Post a Comment