ABU UBAYDAH IBNAL JARRAH
"THE AMEER OF SHAAM"
Radiy Allah u Anh
"If i were to make a wish, i would have wished for a house full of men like Abu 'Ubaydah.'- Ameerul Mu'mineen 'Umar
Radia Allahu Anu"
حضرت ابو عبیدہ
بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جنہیں دربار
رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم سے امین الامت کا خطاب ملا
قسط چہارم
امت کے امین:۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بڑے جلیل القدر صحابہ تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم آپ سے بے حد پیار کرتے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ
وسلم نے آپ کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت
دی اور آپ عشرہ مبشرہ میں شمار ہوئے۔ اس کے ہی شاہ دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امین الامت کے خطاب سے نوازا ۔ یہ
ان دنوں کی بات ہے کہ جب نجران سے عیسائیوں کا ایک وف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ واصحابہ وسلم کی خدمت میں باریابی کا طلب گار ہوا۔
اجازت
ملنے پر وفد نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم
! ہماری خواہش ہے کہ آپ اپنے اصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے کسی ایک کو ہمارے
ساتھ کر دیں تاکہ وہ ہماری مالی تنازعات میں انصاف کرین اور ہمارے آپس کے اختلاف
ختم ہو جائیں تو حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا
ظہر کے وقت آئیں میں آپ کو صادق اور امین صحابہ دونگا یہ اعلان تمام صحابہ کرام
رضی اللہ تعالی عنہ نے سن جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بڑا اچھا
لگا اور ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کے حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ عنہ والہ
واصحابہ وسلم مجھے کھڑا کریں گے۔ جب ظہر کا وقت آیا تو تمام صحابہ کرام موجود تھے
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے سب پر نظر دوڑائی تو حضرت
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی گردن کو تھوڑا سا اوپر کر لیا ۔ اس کے بعد
حضور پر نور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو کھڑا کر دیا ۔ جس پر تمام صحابہ بہت ہی خوش ہوئے اور خاص طور پر
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
شریعت کے معلم
:۔ ایک مرتبہ یم کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور شریعت کے معاملات میں درخواست کی تو حضور پر نور صلی اللہ
تعالی علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اس وقت بھی حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو ہی کھڑا کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے دیا ۔
8 ہجری کو رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ واصحابہ وسلم نے مہاجرین و انصار پر مشتمل 300
سپاہیوں کو ایک دستہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت میں ساحل سمندر
قبیلہ جہینہ کی سرکوبی اور تجارتی و جنگی جہازوں کی نقل و حرکت کے لیے روانہ کیا ۔
روایت ک مطابق، حضرت عمر بن خطاب بھی اس دستے میں موجود تھے۔ دستے کی روانگی کے
وقت نبی محترم حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے قافلے کے ساتھ
کھجوروں کی ایک زنبیل بھی کر دی ۔ تاکہ زاد راہ کے طور پر استعمال ہو سکے ۔ جب
مجاہدین کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ بچا تو حضرت ابو عبیدہ اپنے ہر صحابہ کو ایک
کھجور دیتے جسے کھا کر سب پانی پی لیتے یہی سارا دن کا کھانا ہوتا ۔کبھی کبھی
درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرتے ۔ ایک دن بھوک کی وجہ سے ساحل سمند کے جا رہے تھے
کہ ہمیں دور سے ایک خشکی کا بڑا ٹیلا نظر ہم لوگ جب اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ
وہ عنبر نامی مچھلی ہے۔ اسے دیکھ کر امیر لشکر نے اسے کھانے سے منع فرمایا اور بعد
صحابہ کی حالت اضطراب کو دیکھتے ہوئے کہ ہم ہم اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے احکامات کی بجا آوری کے لیے سفر کر رہین اور
ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے ایسی حالت میں اللہ نے ایسا کھانا حلال فرمایا
ہے۔ لہٰذا سب اسے کھالو ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم 3 سو
افراد تھے ایک ماہ تک اس کا گوشت کھاتے رہے یہاں تک کہ ہمارا وزن بڑھ گیا۔ ہم نے
اس مچھلی کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ کر واپسی کے سفر کے لیے رکھ لیے ۔
مدینے پہنچ کر
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم سے مچھلی کا تذکرہ کیا تو آپ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کی جانب سے تمہارے
لیے بہترین رزق کا بندوبست تھا۔ پھر آپ
صلی اللہ تعالی علیہ والہ واصحابہ وسلم نے
فرمائش کر کے اس مچھلی کا گوشت تناول فرمایا تاکہ صحابہ کو اطمینان ہو جائے کہ اس
کا کھانا جائز تھا۔
No comments:
Post a Comment